"KDC" (space) message & send to 7575

بلدیاتی انتخابات اور فیڈریشن

صوبہ پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بھی پہلے مرحلے کی طرح ووٹروں کے رجحان میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی۔ دونوں صوبوں میں آزاد امیدوار ایک بار پھر دوسرے نمبر پر رہے، جبکہ پنجاب میں تحریک انصاف اور سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو باضابطہ طور پر بے قاعدگیوں کی صرف 56 شکایات موصول ہوئیں۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا اور سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب فتح محمد نے دوسرے مرحلے کے انتخابات کی کامیاب تکمیل کے لیے احسن طریقے سے فرائض ادا کیے۔ انتخابات کے اس مرحلے میں ووٹروں کے ٹرن آئوٹ کا اندازہ45 فیصد کے قریب لگایا گیا جو ملک کی مجموعی صورت حال کے پیش نظر اطمینان بخش ہے۔ یہی ٹرن آئوٹ 1993ء سے اب تک کے تمام قومی، صوبائی اور بلدیاتی انتخابات میں دیکھنے میں آتا رہا ہے۔ پاکستان کے معروضی حالات میںکسی سیاسی پارٹی کی مقبولیت کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ 1979ء میں بلدیاتی انتخابات صدر جنرل ضیاء الحق نے فوج کی نگرانی میں کروائے تھے۔ اس سے پہلے 4 اپریل 1979ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو زندگی سے محروم کر دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی کی فعال انڈرگرائونڈ قیادت نے جنرل ضیاء الحق کی سوچ و فکر اور نظریہ جمہوریت کو ناکام بنانے کے لیے''عوام دوست‘‘ کے نام سے گروپس بنوا کر اپنے ورکروں کو انتخابی میدان میں اتارا تھا۔ حیرت انگیز طور پر صدر ضیاء الحق کے ہم خیال امیدواروں کو عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے بلدیاتی ایکٹ 79 ء سے انحراف کرتے ہوئے ایک خصوصی مارشل لاء آرڈر کے تحت ''عوام دوست ‘‘ منتخب نمائندوں کے انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا۔ اسی طرح 1983ء کے بلدیاتی انتخابات میں صدر ضیاء الحق کے خصوصی احکامات کے تحت ہر گروپ کی باقاعدہ جانچ پڑتال کرائی گئی اور انتظامیہ کے مقررکردہ ریٹرننگ افسروں نے حکومت کی ایما پر ایسے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے‘ جن کے بارے میں ذرا سا بھی شک گزرا کہ ان کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا۔ اس طرح حکومت کے حامیوں پر مشتمل بلدیاتی اداروں کا سیٹ اپ کھڑا کیا گیا۔ صدر ضیاء الحق، گورنروں اور وزارت اطلاعات و نشریات نے عوام کو فریب، دھوکہ اور ترغیب دینے کے لیے یہ تاثر دیا کہ ملک کی انتظامیہ بشمول صدر‘ گورنر‘کمشنر، ڈپٹی کمشنر، پولیس اور دوسرے سرکاری ادارے عوام کے منتخب نمائندوںکو جو اب دہ جبکہ میئر، چیئرمین اور کونسلرز ہی با اختیار ہوںگے۔ اس طرح کے پُرفریب نعروں سے متاثر ہو کر عوام‘ سیاسی ارکانِ حکومت کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ جب بلدیاتی ادارے مکمل ہوگئے تو ان کو ویسے ہی اختیارات تفویض کیے گئے جو صوبائی حکومتوں نے اب 2015ء کے بلدیاتی ایکٹ میں شامل کیے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے سوا باقی تینوں صوبوں کے بلدیاتی ایکٹ 1979ء کے ایکٹ کا ہی چربہ محسوس ہوتے ہیں۔ صدر ضیاء الحق کو اپنے منصب کا لحاظ کرتے ہوئے اس قدر جھوٹ اور فریب کی بنیاد پر بلدیاتی اداروں کی عمارت نہیں کھڑی کرنی چاہیے تھی۔ ان اداروں کو، جو الیکشن سسٹم کی تحقیق پر مامور ہیں‘ 1979، 1983 اور1997ء کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج اور اس وقت کے حکمرانوں کے منافقانہ نعروں پر مبنی تقاریر اور وعدوں کا ان کے عملی اقدامات سے تقابلی جائزہ لیناچاہئے تاکہ عوام کومعلوم ہو سکے کہ حکمران ان سے جمہوریت کے نام پر کس قدر جھوٹے وعدے کرکے ووٹ حاصل کرتے رہے۔
جون 1987ء میں منعقدہ بلدیاتی انتخابات کے حیران کن نتائج سامنے آئے۔ محترمہ بینظیر بھٹو اپریل 1986ء میں جلاوطنی ختم کر کے واپس پاکستان آچکی تھیں اور ایک این آر او سے ملتے جلتے غیرتحریری معاہدے کے تحت انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے اقتدار کو خطرے میں ڈالے بغیر پاکستان میں اپنی تحریک شروع کر دی تھی۔ ان کے ارد گرد موجود پیپلز پارٹی کے صفِ اول کے جن رہنمائوں نے اس وقت کی پنجاب حکومت کے ساتھ جو خفیہ ڈیل کی تھی‘ اس وقت کے اخبارات کے کالموں سے اس کی بآسانی نشان دہی کی جا سکتی ہے۔
اس پس منظر میں 1987ء میں جب صدر ضیاء الحق‘ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف ، سندھ کے وزیر اعلیٰ غوث علی شاہ اور صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ جنرل فضل حق کی زیر نگرانی خصوصی انتظامات کے ساتھ بلدیاتی انتخابات کروائے گئے توپیپلزپارٹی کو عبرت ناک شکست سے دو چار ہونا پڑا۔ اگرچہ یہ انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوتے رہے‘ لیکن ہر سیاسی جماعت نے اپنی پہچان کے لیے مختلف گروپس بنا لیے تھے‘ جس سے اندازہ ہو جاتا تھا کہ ان کا تعلق کس جماعت سے ہے۔ جنرل ضیاء الحق کا مطمح نظر یہ تھا کہ وہ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کو باور کرائیں کہ محترمہ بے نظیر کی مقبولیت مصنوعی ہے۔ وہ اپنی اس حکمت عملی میں کامیاب بھی رہے۔ اسی دوران محترمہ بے نظیر بھٹو رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔ اس کے بعد ان کی پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار کرا دی گئی۔ چنانچہ غلام مصطفی جتوئی، غلام مصطفی کھر، حفیظ پیرزادہ، ممتاز بھٹو اور دیگر نمایاں شخصیات نے پارٹی سے علیحدگی اختیار کر کے اسے نقصان پہنچایا۔بلدیاتی انتخابات میں ناکامی پر تحقیقاتی کمیٹی تشکیل نہ دینے کے فیصلے سے ناراض ہو کر محترمہ بے نظیر بھٹو کے اہم ساتھی راؤ عبدالرشید خان، ملک معراج خالد، افضل سندھو اور ساجد پرویز بھی پارٹی علیحدہ ہوگئے۔ پھر محترمہ کی کردار کشی چین کی طرز پر چار کے ٹولے سے کروائی گئی۔ ان حالات کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو نومبر 1988ء کے عام انتخابات میں سادہ اکثریت سے وزیر اعظم منتخب ہوگئیں۔ 
2015ء کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے اور دوسرے مرحلے میں عوام نے اپنی سیاسی جماعتوں پر عدم اعتماد کرکے آزاد امیدواروں کے
حق میں فیصلہ دیا۔ حکمران جماعت کے امیدوار جن حلقوں میں کامیاب ہوئے‘ اس سے متعلقہ ریٹرننگ افسروں کی کلیدی اہمیت میں اضافہ ہُوا۔ کہا جاتا ہے کہ سندھ اور پنجاب میں 12 فیصد پولنگ ایجنٹوں نے پولنگ سٹیشنوں پر قبضہ کر کے ووٹروں کی جانب سے ووٹ کاسٹ کرا دیے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پنجاب میں آٹھ فیصد اور سندھ میں چار فیصد پولنگ ایجنٹوں نے دھاندلی کے ذریعے بیلٹ بکسوں کو بھروا یا۔ مختلف حوالوں سے تقریباً آٹھ ہزار شکایات درج کرائی گئیں جن میں سے تقریباً پونے چھ ہزار پنجاب اور دو ہزار سندھ میں درج کرائی گئیں۔ پنجاب میں پولیس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا‘ لیکن یہ صورت حال سندھ میں دیکھنے میں اس لیے نہیں آئی کہ وہاں ان کا سامنا ایم کیو ایم جیسی منظم جماعت سے تھا۔ بدقسمتی سے اس طرح کی متحرک انتخابی فورس سے تحریک انصاف محروم ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو 30 نومبر کواسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کی قیادت نے اپنے امیدواروں کو تنہا چھوڑ رکھا ہے‘ کوئی بھی قد آور رہنما وفاقی دارالحکومت کے اکھاڑے میں نظر نہیں آیا۔ عمران خان کو ادراک ہونا چاہیے کہ اگر ان کی پارٹی وہاں کسی پوزیشن میں نہ آئی تو بین الاقوامی حلقوں میں ان کی مقبولیت کا گراف ناقابل تصور حد تک گر جائے گا۔
بغور جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر فیڈریشن کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے بطور صدر پاکستان مسلم لیگ (ن) سندھ میں بلدیاتی انتخابات کی مہم چلانے سے گریز کیا اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بلاول زرداری نے پنجاب کا رخ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ بلدیاتی انتخابات کے نتائج کا ایک قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ ملک کی دو بڑی پارٹیاں مقبولیت کے لحاظ سے اپنا قومی امیج برقرار نہیں رکھ سکیں۔ نواز لیگ کو سندھ میں ناقابل تلافی انتخابی نقصان پہنچا اور پیپلز پارٹی کا پنجاب میں تقریباً صفایا ہو گیا۔ تیسری بڑی سیاسی قوت تصور کی جانے والی پارٹی تحریک انصاف بھی غیر معمولی کارکردگی نہ دکھا سکی۔ اس طرح نواز لیگ بتدریج پنجاب اور پیپلز پارٹی سندھ کے دیہی علاقوں کی جماعت بنتی جا رہی ہیں جبکہ تحریک انصاف خیبر پختونخوا تک محدود ہو رہی ہے۔ اس سے ان کا ملک گیر پارٹیاں ہونے کا تاثر مجروح ہو رہا ہے۔ اگر یہ صورت حال مستقبل میں بھی برقرار رہی تو فیڈریشن کی قوت کمزور ہو جانے کا خدشہ ہے کیونکہ اس طرح قومی کی جگہ علاقائی سوچ کو فروغ ملے گا‘ جو ہر گز ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ بھارت میں اندرا گاندھی 1980 ء میں 568 کے ایوان میں چند نشستیں ہی حاصل کر سکی تھیں جبکہ 1984ء کے انتخابات میں ان کو دو تہائی اکثریت سے حکومت کا مینڈیٹ ملاتھا۔ اسی طرح بی جے پی کے لیے 1988ء کے انتخابات میں صرف دو نشستوں کا حصول ہی ممکن ہو سکا تھا جبکہ 1998ء ، 2002ء اور 2014ء میں اقتدارمیں آتی رہی۔ اس تناظر میں پاکستان مسلم لیگ (ن) ‘ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو اپنی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہیے ‘ بہتر تنظیمی ڈھانچے اور منشور کے ساتھ پوری قوم کے لیے خود کو قابل قبول بنانا چاہیے اور تمام صوبوں کے عوام کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ اس کی شروعات انہیں بلدیاتی انتخابات میں نچلی سطح سے کرنی چاہیے تھی جس کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے ملک گیر تشخص کو مضبوط بنانا چاہیے اور قوم کی اجتماعی فکرکو مثبت سمت دے کر علاقائی کی بجائے قومی مفادات کی بنیاد پر ملکی سیاست استوار کرنی چاہیے۔
حرف آخر کے طور پر قوم کی توجہ اس معاملے کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ آزاد امیدواروں کا کسی بھی سیاسی پارٹی پر اعتماد نہیں ہے۔ انہوں نے پارٹی سیاست سے بالا رہ کر اپنے آپ کو غیر جانبدار رکھا۔ حکمران جماعتوں نے انہی حلقوں کو ترجیح دی‘ جہاں ان کی پسندیدہ بیوروکریسی تھی۔ اب آزاد امیدواروں کوعوام کے مفاد کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ کسی جماعت میں شمولیت کے لیے قانون ان کی راہ میں مانع نہیں ہے، لیکن عوام نے ان کو سیاسی جماعتوں کی کرپشن اور ان سے بیزاری کی وجہ سے منتخب کیا ہے۔ اگر ہزاروں آزاد امیدواروں نے اپنے ضمیر کا سودا کیا تو عوام کا انتخابی عمل سے اعتماد اٹھ جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں