"KDC" (space) message & send to 7575

عرب ممالک کی سرحدیں تحلیل ہونے والی ہیں؟

1945ء سے 1985ء تک سرد جنگ کا دور رہا۔اس دوران کسی نئی تیسری جنگ عظیم کے امکانات اور حالات پیدا نہیں ہوئے۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد 1985ء سے2015 ء تک کا 30 سال کا عرصہ ایسا ہے ، جس میں امریکہ نے واحد سپر پاور کے طور پر نیو ورلڈ آرڈر نافذ کیا۔ اس عرصے میں وہ حالات پیدا ہوئے جنہوں نے دنیا کو تیسری جنگ کے خطرات سے دو چار کر دیا۔ دنیا سرد جنگ کے زمانے سے زیادہ غیر محفوظ ہوگئی اور اب ایک عالمی جنگ کے امکانات پر کھل کر بات کی جا رہی ہے۔ 13 نومبر 2015 ء کو فرانس کے دارالحکومت پیرس میں پر اسرار حملوں کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادی تیسری جنگ کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
داعش نے 2014ء کے اوائل میں ویڈیو جاری کی جس میں ایک بلڈوزر دکھایا گیا تھا جو عراق اور شام کے درمیان بنی اس ریت کی دیوار کو مسمار کر رہا تھا جو دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کو ظاہر کرتی تھی۔ ویڈیو میں ریت پر ہاتھ سے لکھا ہوا ایک پوسٹر بھی نمایاں کیا گیا تھا جس پرتحریر تھا'' سائیک پائیکوٹ معاہدہ کا خاتمہ‘‘۔ مشرق وسطیٰ کے عربوں کے لئے سائیک پائیکوٹ ایک ناسور کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانوی اور فرانسیسی سفارت کاروں مارک سائیک اور فرانکوئس جارج پائیکوٹ نے خفیہ طور پر جو سرحدیں ترتیب دی تھیں، ان کے مطابق شام، ماؤنٹ لبنان اور شمالی عراق فرانسیسیوں کو جب کہ فلسطین ، اردن تک کا علاقہ اور باقی عراق برطانیہ کو دے دیا گیا تھا۔ اس خونی سازش کوعلاقے کا ہر عرب مسلمان بڑی اچھی طرح جانتا ہے۔ برطانیہ، فرانس نے سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کر دیئے اور مصنوعی قومیں تشکیل دیں ۔داعش نے علامتی طور پرسائیک پائیکوٹ کا خاتمہ کر
کے ایسی کامیابی حاصل کر لی ہے جسے عرب سو سال سے تلاش کر رہے تھے۔ برطانوی اور فرانسیسی استعمار نے اس خطے میںنہ صرف مصنوعی سرحدیں مسلط کیں، بلکہ جعلی حکومتیں اور جمہورتیں بھی۔ ان سارے اقدامات نے عربوں کی زندگیوں میں زہر گھول دیا۔
برطانویوں اور فرانسیسیوں نے عرب میں بادشاہوں کو تلاش کرنے کے لئے آل شریف کی خدمات حاصل کی۔ انہوں نے 1922ء میں عراق میں آل شریف ہی کے شاہ فیصل کے لئے مصنوعی ریفرنڈم کا اہتمام کیااور اس کے حق میں 96فیصد ووٹ دلوائے۔ برطانیہ اور فرانس نے شام ، لیبیا، عراق اور مصر کے عوام کو طاقتور آمر فراہم کئے۔ انیسویں صدی میں ان علاقوں پر برطانیہ نے لشکر کشی کی تھی اور بتدریج ان کو ظالم حکومتیں، بے رحم پولیس، جھوٹے اخبارات اور مصنوعی انتخابات عنائت کئے ۔ مصر کے حسنی مبارک نے تو الیکشن میں عراق کے شاہ فیصل سے بھی زیادہ کامیابی حاصل کی۔ جولائی 1958ء میں عراق کے شاہ فیصل کو ان کے شاہی خاندان سمیت قتل کر دیا گیا اور لیبیا میں کرنل قذافی نے اپنے بادشاہ کا تختہ الٹ دیا ۔1951ء میں کرنل ناصر نے مصر کے شاہ فاروق کو جلا وطن کر دیا اور بعد ازاں 1979 ء میں آیت اللہ خمینی نے شاہ ایران کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔
2011ء میں عرب بہارانقلاب کی اصطلاح اختراع کی گئی جس نے پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ قاہرہ، تیونس، دمشق اور یمن میں سڑکوں پر لگائے گئے پوسٹروں میں وقار، عزت اور انصاف کا تقاضا کیا جاتا رہا، جب کہ یہی دو چیزیں مغربی طاقتوں نے عربوں کے لئے ممنوع قرار دی تھیں۔ اب عرب گہری نیند سے جاگ گئے ہیں۔
برطانیہ اور فرانس نے سو سال پہلے مصنوعی سرحدوں کے ذریعے جن ممالک کی تشکیل کی تھی وہ مہمل اور بیکار ثابت ہوئیں اوریہ ریاستیں گلوبل ورلڈ میں انتشار اور خلفشار کا باعث بنیں۔ اب عرب عوام اس سارے مصنوعی نظام کو مسترد کر رہے ہیں جو ان پر پہلی جنگ عظیم کے بعد مسلط کیا گیا۔ غزہ میں حماس اور اخوان المسلمون ایک ہو گئے ہیں۔ سینائی غزہ سرحد معدوم ہونے کے قریب ہے۔ لیبیا میں قذافی حکومت کے سقوط کے بعد لیبیا کی سرحدیں آزاد ہو گئی ہیں اور صدر قذافی نے جو جدید ترین ہتھیار مغربی ممالک سے خریدے تھے ‘وہ مصر، شام اور عراق کے متحارب گروپوں کو فروخت کر دئیے گئے۔ لیبیا اور الجیریا کے ساتھ اس کی سرحدیں انتہا پسندوں کو ہتھیاروں کی ترسیل کے لئے بالکل کھلی ہیں۔ اگر داعش نے ان بغیر سرحدوں والے علاقوں پر قبضہ جما لیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کی بقاء یقینی ہو گئی۔ عراق میں فالوجہ سے شام کے شہر حلب تک اور نائیجیریا اور چاڈ تک کا سارا علاقہ اس کے تسلط میں چلا جائے گا۔ یہ چنگیز خانی لشکر جس ملک سے گذرے گا ‘وہاں معیشت کا ستیا ناس کر کے رکھ دے گا۔ صدر صدام حسین اور صدر قذافی کے دور میں داخلی سکیورٹی کی وجہ سے معاملات قابو میں تھے‘ مگر اب تیونس، مصر، شام، عراق اور سعودی عرب کی کمزور فوجیں اپنی سرحدوں کی حفاظت کے قابل نہیں ہیں۔
اب عرب عوام نے مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں اور امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کے سازشی کھیل کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے۔ مغربی ممالک کتنی آسانی سے فراموش کر دیتے ہیں کہ جدید دور میں سرحدوں کو پامال کرنے والے خود یورپی ہیں۔ وہ یورپی جو یورپ کے یہودیوں کو تباہ کرنا چاہتے تھے، انہوں نے اس عمل میں عربوں کو بھی شامل کر لیا ۔ سابق صدر جارج بش اور سابق وزیر اعظم برطانیہ ٹونی بلیئر نے 2003 ء میں عراق کی طرف پیش قدمی کرکے اور مشرق وسطیٰ کے جابر حکمرانوں کی حمایت کر کے داعش کو فروغ پانے میں مدد دی ہے۔امت مسلمہ کو معلوم ہونا چاہئے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی دہشت گردی ختم نہیں کرنا چاہتے بلکہ ان دہشت گرد تنظیموں کو مزید مضبوط کر کے وہ اپنی عالمی سپر میسی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ دہشت گردی امریکہ کے مفاد میں ہے۔ امریکہ اور اس کے حواریوں نے ہی ساری دنیا پر ایک طرح سے جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ القاعدہ کو ختم کرنے کا پہلے دعویٰ ہوا اور پھر طالبان کو کمزور کرنے کی بات ہوئی۔ اب ایک نئی تنظیم داعش کے نام سے سامنے آگئی ہے۔ امریکی دنیا کو باور کرا رہے ہیں کہ داعش کو ختم کرنے میں مزید 20 سال لگیں گے۔تب تک یہ عذاب جھیلنا ہو گا‘ پھر کوئی اور تنظیم پیدا ہو جائے گی۔
دوسری جنگ عظیم جرمنی ، اٹلی اور جاپان کی فسطائی پالیسیوں کی وجہ 
سے اٹل ہو گئی تھی۔ آج دنیا امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کی وجہ سے بد ترین فاشزم کا شکار ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پالیسیاں جنگ عظیم کے متحارب ممالک سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ اب ان ممالک کے فاشزم کو شکست دینے کے لئے تیسری عالمگیر جنگ چھڑ سکتی ہے اور اس جنگ کے نتیجہ میں مشرق وسطیٰ اور بعض ممالک کی مصنوعی سرحدیں تحلیل ہو جائیں گی اور ہمیشہ کے لئے جنگ ، خون ریزی اور بد امنی سے نجات حاصل ہو جائے گی۔ قدرت کی حکمت عملی اسی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ جب عرب ممالک کے مابین ریت کی مصنوعی سرحدیں معدوم ہوں گی تو اس کے اثرات بھارت کی تین ریاستوں جموں و کشمیر، جونا گڑھ اور حیدر آباد تک جائیں گے اور بھارت کی مملکت بھی خطرے سے دو چار ہو جائے گی۔ اسی طرح بلوچستان اور ایران کی سرحدیں بھی از سر نو متعین کرنا ہو ں گی کیونکہ فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت نے 1962 ء میں غیر قانونی طور پر 1300 سے زائد گاؤں ایران کے حوالے کر دیئے تھے ۔ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ بھی دوبارہ گرم ہو جائے گا۔ لہٰذا امریکہ کی غلط حکمت عملی نے پورے خطے کو آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ پاکستان کو اس گرم اور سرد جنگ سے الگ تھلگ رہنا ہوگا ۔ عالم اسلام کے خلاف امریکی سازش کو فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے 1962ء کے اوائل میں بھانپ لیا تھا۔انہوں نے صدر کینیڈی کو امریکہ میں پاکستان کے سفیر عزیز احمد کے ذریعے جو اہم مراسلہ بھجوایا تھا، اس میں اس قسم کے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا ‘چنانچہ صدر کینیڈی نے اس اہم مراسلہ کو سو سال کے لئے کلاسیفائید قرار دے دیا تھا ۔ جنرل راحیل شریف اور وزارت خارجہ کو اس اہم مراسلے کو وزارت خارجہ کے آرکائیو ڈیپارٹمنٹ سے حاصل کرنا چاہئے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں