"KDC" (space) message & send to 7575

پانچ دسمبر کے انتخابات اور ایم کیو ایم

اسلام آباد کی تاریخ کے پہلے بلدیاتی انتخابات میں حکمران جماعت پہلے، تحریک انصاف دوسرے اورآزاد امیدوار تیسرے نمبر پر رہے! امن و امان کے ساتھ انتخابات کا انعقاد ‘ الیکشن کمیشن‘ حکومت ، انتظامیہ اور سیاسی جماعتوں‘ سب کے لئے دوسرا بڑا چیلنج تھا ۔ شفاف اور منصفانہ انتخابات کرانے کا کریڈٹ چیف الیکشن کمشنر اور سیکرٹری الیکشن کمشن سردار محمد رضا اور بابر یعقوب فتح محمد کو جاتا ہے۔ اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کے بعد واضح تبدیلی آنے کا امکان ہے‘ کیونکہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسلام آباد شہر کے معاملات منتخب میئر چلائے گا۔ اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے بعد سی ڈی اے شہر کے ترقیاتی کاموں کی صرف منصوبہ بندی کا کام کرے گی‘ جب کہ واٹر سپلائی، سیوریج، سڑکیں اور پارکس کی دیکھ بھال منتخب میئر کے سپرد ہوگی۔ اسلام آباد کے دیہی علاقے بلدیاتی نظام کی بدولت ترقی کر سکیں گے اور منتخب نمائندے دیہی اور شہری تقسیم کے درمیان پُل کا کام کریں گے، لہٰذا اس حوالے سے یہ انتخابات مستقبل میں بہتر نتائج دیں گے ۔ 
پانچ دسمبر کو کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں بھی عوام اپنا رجحان کسی حد تک تبدیل کریں گے لیکن اکثریت متحدہ قومی موومنٹ پر اعتماد کا اظہار کرے گی۔ کراچی میں 2 جنوری 1965ء کو فیلڈ مارشل ایوب خاں کے صدارتی انتخاب میں کامیابی کے بعد سے کراچی کے عوام ہمیشہ اُن کی حکومت کے خلاف تحریکیں ہی چلاتے رہے اور طلبہ کی منظم قوت صدر ایوب کے لئے درد سر بنی رہی۔ اسی طرح کراچی کے عوام نے ایوب خاں کی پالیسیوں سے بے زار ہو کر ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ دیا۔جب وزیر اعظم بھٹو نے کراچی کے عوام کو لسانی گروہوں میں تقسیم کر دیا اور زبان کے مسئلہ پر سندھ دیہی اور شہری علاقوں میں تقسیم ہو گیا تو مارچ 1977 ء کے انتخابات کو متنازع قرار دینے پر عوام نے قومی اتحاد کی طاقتور تحریک کا ساتھ دے کر وزیر اعظم بھٹو کی حکومت کو گرا دیا۔ حکمرانوں کے خلاف ووٹ دینے کے سبب کراچی شہر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور ان کا سیاسی کردار منہدم کر دیا گیا ۔ 7 دسمبر اور 17 دسمبر 1970ء کے قومی و صوبائی انتخابات میں کراچی کا مینڈیٹ تقسیم ہو گیا مذہبی جماعتوں اور پیپلز پارٹی کے درمیان نشستیں تقیسم ہو گئیں‘ پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی 8 نشستیں جیتیں ۔ بعد ازاں مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک کم ہوتا گیا۔ 1987 ء کے بلدیاتی انتخابات میں مہاجر قومی موومنٹ کو کامیابی ملی تو کراچی کے پہلے میئر ڈاکٹر فاروق ستار منتخب ہوئے بعدازاں بھی یہ رجحان کم یا زیادہ قائم رہا‘ تاہم 2002 ء اور 2013ء کے قومی انتخابات ایم کیو ایم کے لیے مشکل رہے‘ دسمبر 2001ء میں ایم کیو ایم نے سیاسی غلطی کی اور بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ اس خلا نے جماعت اسلامی کو اپنی پوزیشن بحال کرنے کا موقع دے دیا۔ جماعت اسلامی کے امیر مر حوم قاضی حسین احمد کی انتخابی حکمت عملی کے تحت متحدہ مجلس عمل نے کراچی کی نصف کے قریب قومی اسمبلی کی نشستیں جیت لیں اور پھر مفاہمت کے تحت صدر پرویز مشرف کا ساتھ دیا۔ ایم کیو ایم نے 18 فروری 2008 ء کے انتخابات میں کراچی اور حیدر آباد سے اپنی انتخابی حیثیت برتر بنالی۔!تقریباً سات سال بعد پانچ دسمبر کو متحدہ قومی موومنٹ ایک بار پھر خاصے مشکل حالات میں انتخاب لڑ رہی ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے پہلے، دوسرے مرحلے اور اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات میں آزاد امیدواروں کا بالا دستی حاصل کرنا بڑا معنی خیز ہے۔ اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ عوام نے موجودہ سیاسی نظام پر عدم اعتماد کر دیا ہے اور اُن کی بھاری اکثریت موجودہ سیاسی سیٹ اپ سے دلبرداشتہ ہے۔ اب اگر آزاد امیدواروں نے دولت اور عہدہ کی چمک سے وفاداریاں تبدیل کیں تو عوام کا اس سسٹم پر سے ہمیشہ کے لئے اعتماد اٹھ جائے گا ۔اس نوعیت کی بے چینی، بیزاری اور مایوس کن فضا انقلاب کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہے جس کا ذکر پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف بھی اپنی تقاریر میں کرتے رہتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات اور ضمنی انتخابات میں آزاد امیدواروں نے عوام کے جذبات و احساسات کو اہمیت نہ دی تو پھر 2018ء کے انتخابات سے پیشتر ہی عوام موجودہ سسٹم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔
بلدیاتی اور ضمنی انتخابات میں میڈیا نے نتائج کا جس طریقے سے اعلان کیا (کہ کبھی ایک پارٹی کو کامیاب قرار دے دیا اور کبھی حریف پارٹی کے ہاتھ میں کامیابی کا رزلٹ تھما دیا) وہ بھی عوام کے ذہنوں میں خلجان پیدا کرنے کا باعث بنا۔ممکن ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ پریذائیڈنگ اور ریٹرننگ افسروں نے حقائق (نتائج) کو میڈیا سے چھپانے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہو۔ انتخابی افسروں نے نتائج کی کاپی پولنگ سٹیشن کے باہر چسپاں کرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ ریٹرننگ افسران بھی حکمران جماعت کے دباؤ میں ا ٓکر رزلٹ کو آشکار نہ کرنے کی پالیسی پر گامزن رہے اورنتائج کمیشن کو بھیجنے میں سست روی کا شکار رہے۔ اس قسم کے ووٹوں اور پالیسیوں سے الیکشن کی شفافیت متاثر ہونے کے امکانات بڑھتے اور کنفیوژن پھیلتا ہے۔ الیکشن کمیشن کو 2008ء کے انتخابات کی طرز پر اپنے سسٹم کو خودکار اور ذمہ دار بنانا چاہئے تھا اور اپنے وفاقی سیکرٹریٹ کو نتائج سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ کرتے رہنا چاہیے تھا؛ تاکہ میڈیا براہ راست کنٹرول روم سے نتائج حاصل کرتا۔ ایسا سسٹم افواہوں اور قیاس آرائیوں کو پیدا ہی نہیں ہونے دیتا۔ 
عوام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی بے رخی کے باعث مایوس ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں انڈسٹری لگانے کی بجائے سیاسی جماعت تشکیل دینے کا رجحان بڑھ گیا ہے کیونکہ سیاست اچھا خاصا منافع بخش کاروبار بن گئی ہے، جہاں تک پانچ دسمبر کے انتخابات کا تعلق ہے ‘ایم کیو ایم معمولی اکثریت سے ہی کامیاب ہوگی کیونکہ ان کے مخالفین میں عمران خان، سراج الحق اور ذوالفقار مرزا شامل ہو گئے ہیں اور ایم کیوایم اپنے قائد کی تقاریر سے بھی محروم ہو گئی ہے‘ جو ان کے جذبات کو گرماتے رہتے۔ بہر حال ایم کیوایم کو گھر گھر دستک دینے میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور میڈیا بھی اسی حوالے سے ان کو نظر انداز کر رہا ہے۔ مہاجربرادری دیگر سیاسی جماعتوں کے رویے اور لاابالی پن کے باعث دوبارہ سمٹ کر ایم کیوایم کی طرف آ رہی ہے ۔سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے بلدیاتی اداروں کے پچاس فیصد سے زائد اختیارات منتخب نمائندوںسے ہائی جیک کر کے بیورو کریسی کے حوالے کر دیئے ہیں۔یوں محسوس ہو رہا ہے‘ کہ اختیارات کے موضوع پر بیورو کریسی اور بلدیاتی اداروں کے درمیان سخت اختلافات پیدا ہوں گے‘ کیونکہ بلدیاتی اداروں کا اب عروج ہو رہا ہے جب کہ حکمران جماعتیں غروب کی طرف جا رہی ہیں۔2018ء کے عام انتخابات کے موقعہ پر حکمران جماعتیں تحلیل ہو جائیں گی تو بلدیاتی سربراہ اپنے اپنے اضلاع میں حکمرانی کرتے نظر آئیں گے۔ اسی لئے جونہی میئر کے انتخابات مکمل ہو جائیں گے تو چاروں صوبوں کے میئر یکجا ہو کر وزرائے اعلیٰ کے آدھے اختیارات چھین لیں گے اور وہ اپنا آئینی حق آرٹیکل 140-A کے مطابق سپریم کورٹ کے ذریعے حاصل کر لیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں