"KDC" (space) message & send to 7575

نواز اور مودی کی خفیہ ملاقات

آئین کی تمام اسلامی دفعات کا مقصد ایک مثالی معاشرہ قائم کرنا ہے۔مثالی معاشروں میں رفاہِ عامہ، مساوات اور اخوت پر بہت زیادہ زور دیا جاتاہے‘ساتھ ہی کرپشن، افراط و تفریط اور نمودونمائش کی بھی سخت حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اگر آئین کی ان دفعات (39,38,37,19,7,3) پر ان کی روح کے مطابق عمل کیا جائے تو ایک ایسا مثالی معاشرتی نظام قائم ہو جائے گا جس کی خصوصیت میں سادگی، فرض شناسی ، ایثار اور بنی نوع انسان کی خدمت کا جذبہ شامل ہوگا۔ ان دفعات اور اسلامی تصورات میں کوئی تضاد نہیں ہے، بشرطیکہ ان پر نیک نیتی سے عمل کرتے ہوئے اختیارات کو کام میں لایا جائے۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے قوم کی ترجمانی کرتے ہوئے درست نشان دہی کی ہے کہ قومی وسائل کا جس بے دردی سے ضیاع کیا گیا ہے اس کی مثال پوری دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ بد انتظامی اور کرپشن کے باعث ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے، بحیثیت قوم ،بے یقینی کا شکار ہیں، لا قانونیت تمام حدیں پار کر چکی ہے۔ ہم بے شمار وسائل کے باوجود غربت ، جہالت ، بے روزگاری ، نا انصافی اور لاقانونیت کی دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم آج تک صحیح معنوں میں قوم کیوں نہیں بن سکے؟ کیوں اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے اندرونی اور بیرونی خلفشار کا شکار ہیں اور کرپشن کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔
سندھ کی سطح پر سکیورٹی اور سیاسی انتظامیہ کے حلقوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا فطری امر ہے۔ محترم چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے حکومت کی کارکردگی کے بارے میں ریمارکس سے ملتے جلتے ریمارکس عسکری قیادت کی طرف پریس ریلیز کے ذریعے سامنے آ چکے ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے اقتصادی ہدف کو پورا کرنے کے لئے اب عوام پر 40 ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کر دئیے ہیں۔ اُن کی عوام بے زار مالی پالیسیوں سے معیشت پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ حکومت کے مالی اقدامات سے ملکی و غیرملکی قرضوں کا حجم تیزی سے بڑھے گا۔ عوام کی تکالیف و محرومیاں بڑھیں گی۔ وزیرخزانہ کی مالیاتی پالیسیاں نواز لیگ کو 2018ء کے انتخابات میں عوامی مینڈیٹ سے محروم کرسکتی ہیں۔
پاکستان میں نہ صرف قیادت کا فقدان ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ قحط الرجال ہے۔بھٹومرحوم کے بعد ملک کو کوئی ایسا لیڈر نہیں ملا جو ملکی اور بین الاقوامی حالات کا بھرپور ادراک رکھتا ہو‘ بھارتی صحافی برکھادت نے اپنی تازہ کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ وزیر اعظم نوازشریف نے کٹھمنڈو میں سارک سربراہ میں کانفرنس کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے خفیہ ملاقات کی تھی۔کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ملاقات کاروباری نوعیت کی تھی۔ افغانستان کے صوبے بامیان میں دو ارب ٹن لوہے کے ذخائر موجود ہیں جنہیں نکالنے کے لئے افغان آئرن اورسٹیل کنسورشیم اور بھارت کے جندل گروپ کے درمیان معاہدے کی بات چیت آخری مراحل میں ہے۔ جندل گروپ کی خواہش ہے کہ پاکستان صوبہ بامیان اور حاجی گاک کے خام لوہے کو افغانستان سے براستہ پاکستان، بھارت لے جانے کی اجازت دے۔ عمران خان نے اس خفیہ ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ لیڈر چھپ کر ملاقاتیں نہیں کرتے! عمران خان کو انتخابی بے ضابطگیوں کے سراب سے نکل کر نواز شریف اور نریندر مودی کے درمیان خفیہ ملاقات کے حوالے سے سپریم کورٹ کو ریفرنس بھجوانا چاہئے۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت بھارتی صحافی برکھادت کو گواہ کے طور پر طلب کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح بے نظیر بھٹو کے مقدمہ قتل میں مارک سیگل اپنا ویڈیو بیان ریکارڈ کرا رہے ہیں۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ تقریباً سبھی سیاست دان ملک کے سماجی اور سیاسی تضادات ‘علاقے کی تاریخ، ادب، لوگوں کی نفسیات، ثقافت اور ان کے سیاسی نظریات سے ناواقف ہیں۔ اسی طرح وہ اس خطے اور دنیا کی بدلتی ہوئی صورت حال کے بارے میں بھی کوئی ماہرانہ علم نہیں رکھتے۔ مدبر قومی رہنما اس طرح نہیں بنتے جس طرح پاکستان کے موجودہ رہنمائوں کی کھیپ پیدا ہوئی ہے۔
قومی رہنما وہ ہوتا ہے جو اپنی قوم اور اپنے خطے کے حقائق سے آگاہ ہوتا ہے اوراس کے مفادات کے لئے کام کرتا ہے ،وہ کسی بھی مرحلے پر غیر ملکیوں سے سودے بازی ، خفیہ معاہدات اور بیرونی کاروباری ٹائی کونز سے ملاقات نہیں کرتا۔ بد قسمتی سے کوئی بھی ایسا لیڈر نہیں ہے جسے پاکستان دشمن ، ملکی اور بین الاقوامی طاقتیں اپنے لئے چیلنج سمجھیں۔ اس وقت ہمارے سیاستدان قومی نہیں بلکہ یونین کونسل کی سطح کے لیڈر بن گئے ہیں۔ پاکستان کا مسئلہ صرف حقیقی قیادت کا فقدان نہیں ہے، بلکہ اس سے بڑا مسئلہ جعلی اور بونے رہنما ہیں جن کی سوچ کسی مال شاپ میں چھوٹی سی دکان لینے کی تڑپ سے آگے نہیں بڑھتی۔
سیاسی جماعتوں میں عوام کی عدم دلچسپی کی وجہ سے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں آزاد امیدوار بھاری تعداد میں کامیاب رہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ عوام نے آزاد امیدواروں کو کامیاب کرا کے سیاسی پارٹیوں پر برملا عدم اعتماد کر دیا ہے ۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اب بعض آزاد ارکان جمہوریت کو فروغ دینے کے نام پر عوام کی امنگوں اور سوچ کے برعکس اپنی قیمت لگواتے ہوئے حکمران جماعتوں میں شامل ہو جائیں گے۔ اس طرح کے رویوں کے باعث اقتدار چند گھرانوں اور اداروں تک محدود ہو گیا ہے۔ ان حالات میں‘ خدانخواستہ اگر عالمی سازشوں کے ذریعے پاکستان کے خلاف داعش کی آڑ میں جارحیت ہوئی تو عوام کو مملکت اور کرپٹ طبقوں کو بچانے میں کوئی دلچسپی نہیں رہے گی اور نہ ہی 6 ستمبر 1965ء کی طرح کا جذبہ عود کر آئے گا۔ ایسے ہی ملک ہوتے ہیں جہاں بیرونی جارحیت آسانی سے کامیاب ہو جاتی ہے۔ 1980ء میں روسی جارحیت کے موقع پر افغانستان کے حالات بھی ایسے ہی تھے ۔ حکمران ٹولہ عوام سے کٹ کر کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ رہی سہی کسر وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 40 ارب روپے کے ٹیکس لگا کرپوری کردی۔ اپنی مدت کا نصف پورا کرنے اور بری طرح کی گورننس کا بوجھ اٹھانے والی حکومت سے عوام کی فلاح و بہبود کی توقع کرنا عبث ہے۔خدشہ ہے کہ حکومت کے مالی بقراطوں کے فیصلوں سے ڈالر بہت اوپر چلا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں