"KDC" (space) message & send to 7575

سندھ حکومت بے یقینی کا شکار ہے

پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا آخری مرحلہ بڑی حد تک پر امن ماحول میں تکمیل کو پہنچا۔ واضح ہوا کہ الیکشن کمیشن، انتظامیہ اور سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ؛البتہ یہ شکایت ہوئی ہے کہ کراچی میں پولنگ بوتھوں پر بڑی تعداد میں جعلی انتخابی عملہ تعینات کیا گیا۔ سیاسی جماعتوں کے الیکشن ایجنٹوں کو پولنگ کے آغاز ہی میں یہ شکایات رینجرز حکام اور الیکشن کمیشن تک پہنچانا چاہیے تھیں؛ بہرحال انتخابی عذر داریوں کا راستہ کھلا ہوا ہے۔ انتخابی عمل مکمل ہوا لہٰذا مقامی حکومتوں کا قیام جلد از جلد عمل میں لایاجائے اور ان اداروں کو ترقی یافتہ ملکوں کی طرح عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرنے کے لئے تمام ضروری اختیارات دیئے جائیں۔ حکمران جماعتیں حکومتی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے کامیاب ہوئیں‘البتہ آزاد امیدوار دوسری بڑی جمہوری قوت بن کر سامنے آئے لہٰذا یہ خوش فہمی دور ہو جانی چاہئے کہ عوام نے انہیں سیاست سے بالا تر ہو کر اوردوسری سیاسی جماعتوں کی قیادت پر عدم اعتماد کرتے ہوئے کامیاب کرایا ۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) محمد رضا اور سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب فتح محمد نے نامساعد سیاسی حالات میں اپنی آئینی ذمہ داریاں پایہ تکمیل تک پہنچا دیں۔
پنجاب کے بلدیاتی ایکٹ کے حوالہ سے سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ آیا ہے کہ بلدیاتی نمائندے صادق اور امین نہیں ہوں گے تو کرپشن کا نیا بازار گرم ہو جائے گا کیونکہ نچلی سطح کی قیادت ہی آگے چل کر قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لے گی۔ پنجاب حکومت نے آئین کے آرٹیکل 62 کی شرط کو اپنے بلدیاتی قوانین سے حذف کر دیا ہے۔بلدیاتی ایکٹ صوبائی اسمبلی سے منظور کرا یاگیا تھا، یوں ایکٹ کی منظوری ‘آئین کی خلاف ورزی ہے جبکہ سندھ ‘ بلوچستان اور خیبر پختون خواکی حکومتوں نے اپنے اپنے بلدیاتی قوانین میں آرٹیکل 62 کے معیار پر پورا اترنے کو لازم قرار دیا ہے۔پنجاب حکومت کے بلدیاتی قوانین کے خلاف سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت آئینی پٹیشن دائر ہو جائے تو بادی النظر میں صوبہ پنجاب کے لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کالعدم ہو سکتے ہیں کیونکہ سپریم کورٹ کے اپنے ہی ریمارکس ہیں کہ بلدیاتی ایکٹ میں آئین کے آرٹیکل 62 کے حذف ہونے سے کرپشن کا بازار گرم ہو جائے گا۔
بین الا قوامی سازشوں کے تناظر میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ڈاکٹر عاصم حسین کے گرم بیانات سے پاکستان کے سیاسی نظام کی بساط لپٹنے کے دن اب زیادہ دور نہیں رہے۔ موجودہ حکومت کی نا اہلی اور ناکامیوں کے ثمرات کہ آصف علی زرداری ایس جی ایس اور کوٹیکنا سے کمیشن کے مقدمات سے بری ہو گئے ہیں‘ حالانکہ ان دونوں کمپنیوں نے سوئس عدالت کے سامنے رشوت دینے کا اعتراف کیا تھا۔ ان حالات میں توقع رکھنا کہ نیشنل ایکشن پلان سیاستدانوں‘ بیوروکریٹوں اور صنعت کاروں کے بیرون ملک اثاثوں کا سراغ لگائے گا، عبث ہے۔ دوسرے درجے کے سکینڈلوںکو پکڑ کر قوم کی توجہ بڑے بڑے مگرمچھوں سے ہٹائی جا رہی ہے۔ سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں پاکستانیوں کے دو کھرب ڈالرز کی واپسی کے اسحاق ڈار کے دعوے کی تکمیل اب خواب ہی لگتی ہے ۔کیونکہ ڈھائی سال میں تو کچھ نہیں ہوا، حالانکہ اس رقم کو واپس لا کر قوم کو دس سال کے لئے ہر قسم کے ٹیکس سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ بظاہر خوش کن ہے‘ لیکن غیر ملکی نیوز ایجنسی کی خبر کے مطابق 46 ارب ڈالرز کی چینی سرمایہ کاری دراصل قرض ہوگی ، ہمیں سود بھی ادا کرنا ہوگا اور اصل رقم بھی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ قوم کو اصل حقائق بتانے سے گریز کیا جا رہا ہے کیونکہ نوازلیگ نے 2018ء کے انتخابات‘ اقتصادی راہداری کے نعرے پر لڑنے ہیں۔
سندھ میں رینجرز کے اختیارات میں توسیع کا نوٹیفکیشن تادم تحریر جاری نہیں ہو سکا۔ دوسری طرف جنرل راحیل شریف نے وفاقی اور سندھ حکومت کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ کراچی آپریشن غیر جانبدارانہ اور غیر سیاسی ہے؛چنانچہ خدشہ ہے کہ اب سابق حکمرانوں اور ان کے حواریوں کی صفائی نہ ہو جائے۔ زرداری صاحب کے رویے نے ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف رینجرز کا کیس کمزور کر دیا ہے۔ سندھ حکومت نے رینجرز اور قومی ایکشن پلان کی حکمت عملی کو نام نہاد جمہوری عمل کی آڑ میں سائڈ لائن کر دیا ہے۔ ادھر کراچی میں ایم کیو ایم کی بلدیاتی انتخابات میں کامیابی سے الطاف حسین کے خلاف درجنوں ایف ا ٓئی آر درج کرنے والوں کو اب شرمندگی اٹھانا پڑ رہی ہے۔ قومی ایکشن پلان اور رینجرز کے اختیارات میں توسیع نہ کر کے سندھ حکومت نے عسکری اور وفاقی حکومتوں کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔ دراصل کراچی میں سیاسی اور غیر سیاسی مفادات ٹکرا رہے ہیں۔ آصف علی ذرداری دبئی میں بیٹھ کر حکومت سندھ کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے 6 ستمبر کو قوم سے جو وعدہ کیا تھا‘ پوری قوم کی نگاہیںاس پر لگی ہوئی ہیں۔ آرمی چیف صحیح کہہ رہے کہ آپریشن غیر جانبدارانہ اور غیر سیاسی ہے‘ کارروائی کے دوران یہ نہیں دیکھا جا رہا کہ کس کا تعلق کس سے ہے‘ صرف قصوروار پکڑا جا رہا ہے۔ سندھ حکومت نے رینجرز کے اختیارات میں توسیع نہ کی تو 
گورنر راج یا مار شل لاء لگانے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ گورنر راج لگانا اٹھارویں ترمیم نے بہت مشکل بنا دیا ہے، وزیر اعظم اور ان کی کچن کابینہ میں وژن اور صلاحیتوں کا فقدان ہے! وہ بغیر دلیل کے کہے جا رہے ہیں کہ سندھ حکومت کے تحفظات کو دور کرنے کے لئے حسب روایت کمیشن مقرر کر دیتے ہیں۔
عمران فاروق قتل کی ایف آئی آر اسلام آباد میں درج کرانے سے قانونی حلقوں میں نئی بحث چھڑ گئی ہے، 5 دسمبر کو بلدیاتی انتخاب کے روز الطاف حسین کے خلاف ایف آئی آر کا مقصد بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ متحدہ کے کروڑوں ووٹروںکو باورکرایا جائے کہ الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کا وقت قریب آگیا‘ لہٰذا ایم کیو ایم کو ووٹ دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
نیشنل ایکشن پلان کمیٹی کو انتخابی دہشت گردی کی طرف توجہ دینی ہو گی۔ مئی 2013ء کے انتخابات میں ساری انتخابی مشینری پنجاب حکومت اور نون لیگ کے کنٹرول میں تھی ، انہی کے اشاروں پر 35 سیٹوں پر جادوگری ہوئی ۔جس امیدوار کو نگران حکمرانوں نے چاہا وہ کامیاب ہو گیا اور جسے ناپسند کیا گیا وہ کامیاب ہو کر بھی ہار گیا۔ اس طرح دھاندلی زدہ حکومتیں قائم ہو گئیں۔ مزیدبرآں سازشوں کے ذریعے عمران خان کے اپوزیشن لیڈر بننے کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی۔ اس مقصد کے لیے پیپلز پارٹی کو دھاندلی سے چند نشستیں زیادہ دلائی گئیں ۔ کسی جمہوری ملک کی واحد پارلیمنٹ ہے جس میں متحدہ اپوزیشن لیڈر‘ حکمران جماعت کا ترجمان ہے۔ سید خورشید شاہ حکومت کو محفوظ راستے دینے کے لئے حکومت کے حق میں باربار ووٹ دیتے ہیں۔ حالانکہ جمہوری اصولوں کے مطابق سید خورشید شاہ شیڈو کابینہ کے وزیر اعظم ہوتے۔ زرداری صاحب نے محاسبے اور مواخذے سے بچنے کے لئے‘ لیڈر آف دی اپوزیشن کو حکومت کا محافظ بنا رکھا ہے اور لگتا ہے کہ عمران خان نے بھی ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں