"KDC" (space) message & send to 7575

فوری انتخابات کے لئے احتجاجی تحریک کا آغاز

بلدیاتی انتخابات نے واضح کر دیا کہ ایم کیو ایم کو کراچی، حیدر آباد اور میر پور خاص سے ختم کرنا ممکن نہیں۔ اس کی بنیاد انتہائی مضبوط ہے، پس اب ایم کیو ایم کو چاہیے کہ وہ اپنی سیاست پر مایوسی اور گھٹن کی چھائی دھند صاف کرے۔ سندھ حکومت کو کراچی آپریشن کی توثیق میں تحفظات کے ساتھ مشکلات کا سامنا ہے تو دوسری جانب ایم کیوایم سے بھی بلدیات کے اختیارات کی تقسیم پر تصادم کا خطرہ ہے۔ پھرمارچ 2016 ء میں انتہائی حساس معاملہ مردم شماری کا ہے۔جو فوج کی نگرانی میں ہو گی‘ جس کے نتائج کی بنیاد پر الیکشن کمیشن 2018ء کے انتخابات کے لیے 2017ء میں حلقہ بندیاں کرے گا ۔ پاکستان میں ایم کیوایم کے سوا کسی سیاسی جماعت نے اس اہم الیکشن ٹیکنالوجی کی طرف دھیان ہی نہیں دیا۔ بلدیاتی انتخابات سے قبل جو حلقہ بندیاں کرائی گئیں وہ پس پردہ صوبائی حکومتوں کی ایما پر ہی کرائی گئی تھیں، 7 اور 8 دسمبر کو صوبائی حکومت اور وفاقی وزارت داخلہ اطمینان بخش اطلاعات فراہم کرتے رہے، کہ افہام و تفہیم ہو گئی ہے اورر ات گئے تک نوٹیفکیشن جاری کر دیا جائے گا۔
سیاسی منظر بڑا تشویش ناک ہوتا جا رہا ہے، کراچی کے میئر کے اختیارات کے معاملے پر ایم کیوایم اور صوبائی حکومت کے درمیان شدید کشیدگی ہے، جس نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترمیم نہ ہونے کی صورت میں مہم چلانے کی دھمکی دی ہے۔ سندھ میں سیاست انتشار کا شکار ہے، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی میں محاذ آرائی کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا ہوگا، اگر ایم کیو ایم کے میئر اور لوکل گورنمنٹ کے چیئر مینوں کو سپریم کورٹ کے حکم کے تحت اختیارات تقویض کرنے پڑے تو میئر کی اجازت کے بغیر وزیر اعلیٰ ہاؤس کو واٹر سپلائی بھی روکی جا سکتی ہے۔ سندھ حکومت نے صوبائی اسمبلی سے منظور لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں میئر کے اختیارات کم کر دیئے ہیں جو نئے سیاسی اور قانونی بحران کا آغاز بن رہا ہے، موجودہ حالات میں سندھ حکومت آصف علی زرداری کی حکمت عملی کے تحت ایم کیوایم کو بڑی مراعات دینے سے گریزاں ہے۔ اگرایم کیوایم نے سندھ کی تقسیم کے لئے کراچی ، حیدر آباد اور میر پور خاص پر مشتمل نیا انتظامی صوبہ بنانے کی تحریک چلائی تو جنوبی پنجاب کے صوبے کے لئے دبی ہوئی چنگاری بھڑک اٹھے گی۔ اسی طرح ہزارہ صوبے کی تحریک کو بھی تقویت ملے گی۔ ملک میں نئے صوبے بنانے کی تحریک نے زور پکڑا تو وفاق کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ جائے گا۔ مستقبل کے منظر نامے میں معاملات تصادم کی جانب جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایم کیوایم کی پوزیشن مضبوط ہے، تا ہم انتشار اور لسانی تقسیم کی روشنی میں سیاسی اور فوجی قیادت کے لئے مردم شماری کرانا مشکل ترین مرحلہ ہوگا۔ آخری مردم شماری مارچ 1998ء میں ہوئی تھی اور وزیر اعظم نواز شریف موجودہ حالات میں تمام سیاسی جماعتوں کا اعتماد حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی غیر متوقع اور غیر معمولی کامیابی کے پیچھے کراچی، سندھ اور پنجاب کے عوام کی بھاری اکثریت کا وہ رد عمل ہے جسے انہوں نے مختلف حلقوں کی جانب سے ان تینوں جماعتوں کو 2013 ء کے انتخابات میں دیئے گئے مینڈیٹ سے محروم کر نے کی کوششوں کے خلاف دیا ہے، اس لئے تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کو بلدیاتی انتخابات میں مطلوبہ کامیابی حاصل نہ ہونے کے بارے میں 
تاثرات یہی ہیں کہ پنجاب اور سندھ کے ان بلدیاتی انتخابات کے ذریعے عام انتخابات کے نتائج پر مہر تصدیق ثبت کی گئی ہے‘ جن کی متنازع حیثیت ایک تحریک کی طرف بڑھ رہی تھی۔
عوام کی عدم دلچسپی کی وجہ سے عمران خان کی گزشتہ عام انتخابات 
میں مبینہ دھاندلی کے خلاف چلائی جانے والی احتجاجی تحریک اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکی۔ اس ناکامی میں ان کے پسندیدہ گیارہ کھلاڑیوں کا بالواسطہ اور بلا واسطہ کردار بھی مشکوک نظر آیا ۔ان کی ٹیم میں جارحانہ انداز اور عوام کے ساتھ براہ راست تعلق کا بھی فقدان تھا علاوہ ازیں تحریک انصاف کا باقاعدہ عوامی سیکریٹریٹ کا نہ ہونا بھی احتجاجی تحریک کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔اس لئے تحریک انصاف کو سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اور پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکمت عملی اور نگران سیٹ اپ کی در پردہ حمایت کی وجہ سے 2013ء کے انتخابات میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ‘انہی خامیوں کے باعث تحریک کو دوسری جماعتوں کے مقابلے میں تیسرے نمبر پر آنا پڑا۔عمران خان کی بھارتی وزیر اعظم مودی سے ملاقات سیاسی طور پر بڑی اہمیت کی حامل ہے اور ایک اچھی پیش رفت یہ ہوئی کہ عمران خان عالمی لیڈر کی حیثیت سے سامنے آئے ہیںوہ پاکستان میں حزب اختلاف کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور دہلی کانفرنس میں شرکت سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوگی۔
پیپلز پارٹی اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے حکومت کے خلاف جارحانہ پالیسی اپنائے اور پارلیمنٹ میں موثر اپوزیشن کا فیصلہ کر رہی ہے ۔ آصف علی زرداری کو پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کا صدر بنانے پر غور کیا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اپنے جارحانہ رویے سے عسکری قیادت کو سندھ کی طرز پر پنجاب میں بھی کارروائیاں کرنے پر آمادہ کرنے اور وفاق اور صوبے میں مسلم لیگ نون کی حکومتوں کی بے قاعدگیوں، بے ضابطگیوںاور اقربا نوازی کے خلاف تحریک چلانے کی پوزیشن میں ہے ۔زرداری صاحب عوام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر ملک میں فوری طور پر انتخابات کرانے کی احتجاجی تحریک بھی شروع کر سکتے ہیںکیونکہ عوام کرپشن اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی عوام بے زار پالیسی سے سخت نالاں ہو چکے ہیں ۔ اس موقع پر عمران خان کو بھی آصف علی زرداری کی طرف قدم بڑھانے ہوں گے‘ تاکہ حکومت کی موروثی سیاست کو زک پہنچے۔ تحریک انصاف نے سید خورشید شاہ کو اپنا اپوزیشن قائد تسلیم کر لیا ہے یعنی بالواسطہ طور پر انہوں نے آصف علی زرداری کی حکمت عملی کی تائید کر دی ہے۔ حکمران جماعت کے تین وزراء کے خلاف سنگین الزامات لگتے رہے ہیں ان کے خلاف احتساب بیورو اور ایف آئی اے کی تحقیقات کا شدید مطالبہ کیا جائے گا اور بد عنوانیوں کے چھپے ہوئے مقدمات اور کرپشن کاپردہ چاک کرنا پڑے گا۔
بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی وزیر اعظم نواز شریف کے اہل خانہ سے ملاقات کا حکومتی پالیسی سے بالاتر ہو کر نجی خاندانی ملاقات کرنے سے کئی سوال ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ متحدہ اپوزیشن کے لیڈر کو نواز شریف سے اسی طرح سے دو دو ہاتھ کرنے چاہئیں جس طرح بھارتی پارلیمنٹ سشما سوراج کی پاکستان میں سرگرمیوں کی وجہ سے ان کی درگت بنا رہی ہے۔وفاقی مشیر سرتاج عزیز کو بھی سشما سوراج سے مسکراہٹوں کے تبادلے میں احتیاط سے کام لینا چاہئے تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں