"KDC" (space) message & send to 7575

سندھ میں آئینی اور سیاسی بحران

وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کا وفاق سے انحراف پر مبنی یہ موقف درست نہیں جس میں انہوں نے رینجرز کی قربانیوں کا مذاق اڑایا اور ڈاکٹر عاصم حسین کی میگا کرپشن بے نقاب ہونے پر سندھ حکومت اورکراچی آپریشن کو متنازع بنا دیا ہے۔ چوہدری نثار علی خان وفاقی حکومت کی طرف سے مضبوط نقطہ نظر رکھتے ہیں اور ان کے پاس چند متبادل طریقے موجود ہیں جن میں آئین کے آرٹیکل 148,147اور234 کارروائی کے اختیارات تفویض کرتے ہیں۔31 جولائی2009ء کو سپریم کورٹ کا فل بنچ بھی ریمارکس دے چکا ہے کہ مملکت اور آئین کے آرٹیکلز پر عمل درآمد کرانے کے لیے چیف آف آرمی سٹاف کو مکمل اختیارات حاصل ہیں۔ اسی طرح کے حالات 1952ء میں مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ شیخ عبداللہ کے دور میں بھی پیش آئے تھے جب انہوں نے مرکزی حکومت کے اختیارات کو چیلنج کر دیا تو وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے آئین کے انہی آرٹیکلز(جو پاکستان کے آئین میں بھی شامل ہیں) کو بروئے کار لا کرمقبوضہ کشمیر میں ہنگامی حالات کا اعلان کر کے شیخ محمد عبداللہ کو گرفتارکر لیا تھا۔ شیخ محمد عبداللہ نے اپنی سرگزشت''آتش چنار‘‘ میں ان آرٹیکلزکا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔
چوہدری نثار علی خان کو ان حالات میں نہرو کی حکمت عملی کے تحت آگے بڑھنا ہوگا۔ ہمارے میڈیا پرسنز اور اینکر حضرات کی چونکہ کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے موقف سے آہنگی ہوتی ہے اس لیے ان کے تجزیوں اور تبصروں کا رخ کسی خاص سمت کی جانب ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ رائے عامہ کی سوچ کو اپنے طرز پر لانے کے لیے ایک مخصوص سکرپٹ پرکام کر رہے ہوتے ہیں۔ 
اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اور وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کا یہ کہنا کہ اگر سندھ کے خلاف کارروائی کی گئی تو بات دور تک جائے گی، کسی حد تک درست ہے کیونکہ اسی طرح کا بھرپور ایکشن پنجاب میں بھی ناگزیر ہو جائے گا اور حکمران طبقے کے جن لوگوں نے بھارت میں دو ارب ڈالر کی جو مبینہ سرمایہ کاری کر رکھی ہے انہیں بھی اس کا حساب دینا ہوگا۔ البتہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کو احساس ہونا چاہیے کہ بھارتی وزیر اعظم کے حکم پر دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال کے دفتر پر چھاپہ بھارتی آئین کے تحت ہی مارا گیا تھا۔
پیپلز پارٹی کے آئینی ماہرین کو سندھ کی سنگین صورت حال کا ادراک ہے۔ رینجرز اور فوج کو امن عامہ برقرار رکھنے کے لیے صوبائی حکومت کی دعوت پر طلب کیا جا سکتا ہے اور یہ فورسز اپنے اختیارات آئین کے آرٹیکل 245کے تحت استعمال کرتی ہیں، انہیں اس کے علاوہ صوبائی اسمبلی کی قرار داد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سندھ حکومت کو احساس ہونا چاہیے کہ پاکستان میں دو مختلف قوانین ہیں۔۔۔۔ ایک انسداد دہشت گردی ایکٹ اور دوسرا تحفظ پاکستان ایکٹ 2014ء۔ یہ دونوں وفاقی قوانین ہیں اور ان میں وفاق کے تحت اختیارات دیے گئے ہیں۔ ان قوانین کے تحت رینجرز اور فوج کو امن عامہ کے حالات ٹھیک کرنے کے لیے صوبائی حکومت کی درخواست اور وفاق کی رضامندی پر ہی بلایا جا سکتاہے۔ جب رینجرز یا فوج علاقے میں آجائے تو انہوں نے اپنے اختیارات وفاقی قوانین کے تحت استعمال 
کرنے ہوتے ہیں۔ صوبائی حکومت کو یہ آئینی حق حاصل ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رینجرزکو واپس بلانے کی استدعا کر ے۔ موجودہ حالات میں وزیر اعلیٰ سندھ نے وفاق اور فوج سے تصادم کی راہ اختیارکرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 147کو اپنے مفادات میں استعمال کرنے کی راہ نکالنے کی کوشش کی ہے۔ آئین کے اس آرٹیکل کے تحت صوبائی اختیارات وفاقی اداروں کو دیے جاسکتے ہیں بشرطیکہ صوبے کی اسمبلی صوبائی معاملات سے تعلق رکھنے والے امور میں قرارداد پاس کر دے۔ اس وقت آرٹیکل 147 کا غلط سہارا لیتے ہوئے رینجرزکے اختیارات محدود کیے گئے ہیں جو غیر آئینی اقدام تصور ہوگا۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے افواج پاکستان سے تصادم کی راہ اپنانے کی جو پالیسی بنائی تھی، صوبائی اسمبلی کی معاونت سے رینجرز کے اختیارات محدود کرکے اور سندھ میں نیشنل ایکشن پلان عملًا معطل کر کے وہ اس میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ غیرجانبداری سے جائزہ لیا جائے تو قومی اسمبلی کی اکیسویں آئینی ترمیم کے بعد صوبائی اسمبلی ایسا کوئی قانون منظور نہیں کر سکتی۔ آئینی ماہرین اپنے مفادات کے پیش نظر اس ضمن میں اپنا مضبوط موقف پیش نہیں کر 
رہے ہیں۔ سندھ اسمبلی کی قرارداد کے نتیجے میں آئینی اور سیاسی بحران شدت اختیار کرے گا۔اس قرارداد کی منظوری سے ظاہر ہوتا ہے رینجرز سے اختیارات اس لیے واپس لیے گئے ہیں کہ ڈاکٹر عاصم حسین سے ہونے والی تفتیش کے نتیجے میں صف اول کی سیاسی قیادت، چند صوبائی وزرا کے علاوہ کچھ اہم سینئر سرکاری افسروں کواربوں روپے کی سرکاری اراضی کی الاٹمنٹ اور دہشت گردوں کی اعانت کے الزامات سے بچایا جائے۔ 
اسلام آباد کے حلقوں میں یہ تاثر پھیلا ہوا ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین کی 200 گھنٹوں پر محیط آڈیو ٹیپ وفاقی حکومت کی تحویل میں ہے اور عزیر بلوچ کی آڈیو سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس دوران آصف علی زرداری اور سابق وزیر داخلہ رحمان ملک دبئی سے سعودی عرب چلے گئے ہیں، جس سے حکومتی غلام گردشوں میں محسوس کیا جا رہا ہے کہ وہ محفوظ راستے کی تلاش میں ہیں۔ وہ اسی صورت میں ہی 27 دسمبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کی تقریبات میں شرکت کر سکتے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارے قومی وسائل کا بہت بڑا حصہ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے کو اب قومی ایکشن پلان کے تحت بندکرنا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے سیاستدانوں پرگرفت کے ساتھ ساتھ انتظامیہ، عدلیہ اور میڈیا سمیت کرپشن میں ملوث تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد کا محاسبہ، لوٹے گئے وسائل کی قومی خزانے میں واپسی ضروری ہے۔ اس تناظر میں سندھ کے بزرگ سیاستدان سید قائم علی شاہ اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ وہ اپنے چند ساتھیوں کو بچانے کے لیے پورے سسٹم کو داؤ پر نہ لگائیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ رینجرز کو پہلے سے بھی زیادہ اختیارات دے کر جمہوریت میں حقیقی رنگ بھر دیں اور دیگر صوبوں کے لیے مثالی کردار ادا کریں۔ کرپشن کی جس قدر صفائی ہوگی ان کی حکومت کی جڑیـں اس قدرعوام تک پہنچیںگی۔ کوئی بھی ایسا قدم جو سیاسی خلفشار کا باعث بن سکتا ہے یا ملک کے اندر اور باہر ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والے عناصرکو سازگار حالات فراہم کر سکتا ہے،ان کا قلع قمع کرنا بہت ضروری ہے، لہٰذا سندھ حکومت کو رضاکارانہ طور پر رینجرزکو مزید اختیارات سے لیس کر کے اپنی صفوں میں سے کرپٹ وزرا اور سول بیورو کریٹس سے نجات حاصل کر لینی چاہیے۔ سیدقائم علی شاہ کو قائد ملت لیاقت علی خان کے بارے میں بھی تضحیک آمیز کلمات ادا نہیں کرنا چاہئیں تھے۔ شاہ صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ شہید ملت کی یو پی کے ضلع مظفر نگر میں جاگیر سے ریل آٹھ گھنٹوں میں گزرتی تھی۔دہلی میں رعنا پیلس کو انہوں نے پاکستان کو تحفہ میں پیش کر دیا تھا۔اسی میں پاکستان کے ہائی کمشنر کی رہائش گاہ ہے اور اس وقت اس کی مالیت 5 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ تحریکِ پاکستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تمام اخراجات مرحوم لیاقت علی خان ہی ادا کرتے رہے۔
سندھ اسمبلی کی قرارداد کا اثرکم کرنے کے لیے پنجاب میں مبینہ کرپشن کے حوالے سے اہم سیاسی شخصیات کے خلاف کارروائی ناگزیر ہے تاکہ یہ تاثر ختم ہو سکے کہ کرپشن کے خلاف یک طرفہ کارروائی ہو رہی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں