"KDC" (space) message & send to 7575

سندھ اسمبلی تحلیل ہونے کا خدشہ

جب بھی غیر جمہوری حکومتیں برسراقتدار آئیں، انہوں نے بلدیاتی ادارے قائم کیے جن کے نتیجے میں نچلی سطح پر عوام کے مسائل کم ہوئے۔ ان حکومتوں کے خلاف جمہوری تحریکیں بھی چلیں جن میں یونائیٹڈ ڈیموکریٹ فرنٹ، ایم آر ڈی اور اے آر ڈی قابل ذکر ہیں، لیکن ان کے خلاف کوئی بڑی عوامی بغاوت نہیں ہوئی۔ ان حکومتوں نے منتخب بلدیاتی اداروں کی وجہ سے نہ صرف عوامی مزاحمت کوکسی حد تک روکا بلکہ انہیں اپنی حمایت میں متبادل سیاسی قوت کے طور پر بھی استعمال کیا۔ اس کے بر عکس جمہوری حکومتوں نے ملک میں بڑے بڑے ترقیاتی کام کیے لیکن نچلی سطح پر مسائل موجود رہے، عوام کو ان کا براہ راست فائدہ محسوس نہ ہوا، فوائد مخصوص مفاداتی گروپس تک محدود رہے۔ سابق بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اپنے دس سالہ دور حکومت میں بھارت کو منی اقتصادی پاور بننے کے راستے پر لا کھڑا کیا تھا لیکن نچلی سطح پر عوام سہولت سے محروم رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی بر سر اقتدار آگئی۔ اسی طریق کارکے مطابق لاہور میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے کھربوں روپے کے پراجیکٹ شروع کر رکھے ہیں، لیکن حلقہ 122میں جب فوج کی نگرانی میں ضمنی الیکشن ہوا تو سردار ایاز صادق بمشکل 2400 ووٹوں کی برتری سے کامیاب ہوئے جسے ٹیکنیکل بنیاد پر چیلنج کیا جا چکا ہے۔ اس وقت چین کے بینک آف چائنا کے ذریعے تقریباً پونے دو کھرب روپے مالیت کے اورنج لائن میٹرو ٹرین پراجیکٹ پرکام ہو رہا ہے۔ یہ قرضہ اتارنے کے لیے قوم کو سو سال کی قربانی دینی پڑے گی اور غربت کی لکیر اوپر نہیں آئے گی۔
سول حکومتوں نے بلدیاتی اداروں کو ہمیشہ اپنا حریف تصورکیا۔ سیاسی قوتوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ وہ بلدیاتی اداروں کو اپنی سیاسی طاقت کے طور پر استعمال کر سکتی ہیں کیونکہ یہ نچلی سطح پر جمہوریت کہ 
بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ بلدیاتی اداروںکا تصور جمہوریت سے منسلک ہے۔ سندھ کی سیاسی صورت حال میں بلدیاتی انتخابات کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1979ء کے ایکٹ سے زیادہ مختلف نہیں ہے، اس میں بلدیاتی اداروں کے اختیارات بہت کم ہیں۔ یوں تو پورے ملک میں بلدیاتی اداروںکو مزید اختیارات دینے کی ضرورت ہے، لیکن سندھ میں اس کی ضرورت زیادہ ہے کیونکہ وہاں کے بلدیاتی ادارے اختیارات کے حوالے سے غیر فعال اور غیر موثر ہیں۔ پاکستان کی طرح کئی ممالک کا نظام وفاقی ہے۔ ایشیا میں بھارت اور ملائیشیا کی مثال دی جا سکتی ہے، افریقہ میں نائیجریا کی مثال سامنے ہے جہاں ہماری طرح ایک وفاقی حکومت ہے۔ ان ممالک میں بھی مقامی حکومتوں کو زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی رہنماؤں پر عوام کا اعتماد نہیں رہا کیونکہ یہ کرپشن سے آلودہ ہیں۔ عوامی حلقوں کا یہ بھی تاثر ہے کہ انہیں پولیس اور انتظامیہ کے اختیارات تفویض کیے گئے تو یہ اپنے اختیارات سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کریں گے اور فنڈز بھی خورد برد کریںگے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب بالائی سطح پر اربوں کی کرپشن ہو رہی ہو تو نچلی سطح پر اس کے اثرات لازمی طور پر آتے ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ قومی احتساب بیورو کو ضلعی سطح تک پھیلایا جائے اور اس کا مانیٹرنگ سسٹم مضبوط و فعال بنا کرکرپشن پر قابو پایا جائے۔ ان احتسابی اداروں کا انتخاب بھی لوکل کونسل کی طرز پرکروایا جائے۔ سننے میں آیا ہے کہ وزیر اعظم لوکل گورنمنٹ کے منتخب چیئر مینوںکے کنونشن میں بلدیاتی اداروں کو اختیارات تفویض کرنے کا اعلان کریںگے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملکی حالات عام انتخابات کے 2018ء سے پہلے انعقاد کی طرف جا رہے ہیں۔ قومی حکومت کے قیام کی راہ بھی ہموار ہو رہی ہے۔ ادھر کراچی کے نامزد میئر وسیم اختر نے سندھ حکومت کو وارننگ دی ہے کہ ایم کیوایم میئرکے اختیارات سندھ حکومت سے چھین لے گی کیونکہ یہ آئین کے آرٹیکل 140-A کے مطابق ان کا آئینی حق ہے۔
رینجرزکے اختیارات کے حوالے سے سندھ اسمبلی کی قرارداد کے نتیجے میں کراچی آپریشن میں ابہام اور سنگین پیچیدگی پیدا ہو گئی ہے جسے دور کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر نیم دلانہ غور وغوض شروع ہو چکا ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے سابق صدر آصف علی زرداری کے ایما پرکراچی آپریشن کے حاصل شدہ فوائد ضائع کرا دیے ہیں۔ سندھ حکومت نے اٹھارہویں ترمیم کو مدنظر رکھتے ہوئے رینجرزکے اختیارات محدود کرنے کے علاوہ ایف آئی اے اور قومی احتساب بیورو کو بھی کھل کر کارروائیاں کرنے سے روک دیا ہے اس لیے کہ دہشت گردی میں مالی معاونت اور کرپشن کے الزامات میں بعض اہم سیاسی شخصیات اور سندھ کے طاقتور بیوروکریٹس کی گرفتاریاں متوقع تھیں۔ سندھ حکومت کو ریموٹ کنٹرول کے ذریعے دوبئی سے چلایا جا رہا ہے۔ بلاول زرداری کو اعتزاز احسن نے بطور مبصر سینیٹ کے اجلاس میں مدعو کیا۔ ہماے ہاں بعض بڑے بڑے ادارے موروثی سیاست کرنے والوں کے زیر سایہ ہیں۔ اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ جب ان کے لاڈلے صاحبزادگان بڑے ہوں تو اقتدار میں آنے کے لیے ان کو سینیٹ، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور دیگر اہم اداروں کی کارروائی کا علم ہو۔
ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف مقدمہ رینجرز اور سابق صدر آصف علی زرداری دونوں کے لیے اہم ہے۔ سندھ حکومت ڈاکٹر عاصم کے معاملے کو سیاسی نقطہ نظر سے دیکھ رہی ہے۔ صوبائی حکومت کو گمان ہے کہ اگر ڈاکٹر عاصم حسین جیسے اہم ترین شخص کوگرفتار کر لیا گیا ہے تو پھر اس کی آنچ آصف علی زرداری تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ اس لیے سندھ حکومت آصف علی زرداری کو بچانے کے لیے سندھ اسمبلی کو داؤ پر لگا رہی ہے۔ ادھر رینجرز اپنے قومی موقف سے پسپا ہوتے ہیں تو عسکری اداروں کا مورال متاثر ہوگا اور اس سے آپریشن ضرب عضب اور قومی ایکشن پلان کو زک پہنچے گی۔ وزیر اعظم کراچی آپریشن جاری تو رکھنا چاہتے ہیں لیکن ان کی یہ خواہش نظر نہیں آتی کہ ڈاکٹر عاصم حسین کو مثال بنا کر وفاقی حکومت کے طاقتور وزراء پر بھی ہاتھ ڈالنے کی راہ ہموار ہو جائے۔ لیکن وفاقی حکومت ڈاکٹر عاصم حسین کیس میں بے بس نظر آرہی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو عوام کی تائید و حمایت حاصل ہے اس لیے ان کی پراسرار خاموشی کو معنی خیز قرار دیا جا رہا ہے۔ رینجرز کو پہلے والے اختیارات تفویض نہ کیے جانے کی صورت میں وفاقی حکومت پر الزام لگ سکتا تھا کہ وہ کرپٹ 
سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو تحفظ دے رہی ہے۔(وفاقی حکومت نے رینجرز کو یہ اختیارات دے دیے ہیں) سندھ میں گورنر راج لگانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر مرحوم کے ایما پر پنجاب میں گورنر راج لگانے کا تجربہ ناکامی سے دو چار ہو چکا ہے۔ سندھ میں آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت کارروائی کر کے صوبہ فوج کے حوالے کرنے کا فیصلہ ہوا تو قوی امکان ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری اسی لمحے سندھ اسمبلی کو تحلیل کروا دیںگے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کو عدالتی حکم کے تحت دہشت گردوں کو سہولت فراہم کرنے کے الزام میں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ہے اس لیے آصف علی زرداری کو ایک اور خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ انسداد دہشت گردی کی شق بحال ہونے پر سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ارکان میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی ہے اور ان میں سید قائم علی شاہ اور سپیکر صوبائی اسمبلی آغا سراج درانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکیں لانے کی سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے وہ ارکان جوکرپشن کی آلودگی سے دور رہے ہیں ، قائم علی شاہ کو وزارت اعلیٰ سے معزول کرانا چاہتے ہیں۔ اس وقت سندھ اسمبلی میں ایسے ارکان کی تعداد دو درجن کے لگ بھگ ہے، لہذا آصف علی زرداری قائم علی شاہ اور ڈاکٹر عاصم حسین کو بچانے کے لیے سندھ اسمبلی تحلیل کرانے سے نہیں ہچکچائیںگے۔ اگر ڈاکٹر عاصم حسین وعدہ معاف گواہ بن گئے تو پھر اس کے اثرات پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت تک بھی پہنچ جائیں گے اور دھیرے دھیرے حکومتی ستون گرنے شروع ہو جائیںگے۔ گمان یہی ہے کہ دہشت گردی کی معاونت کے الزام کی لپیٹ میں آنے کے بعد ڈاکٹر عاصم حسین وعدہ معاف گواہ بن جائیں گے۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین کے نانا ڈاکٹر ضیاء الدین قائد اعظم کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں