"KDC" (space) message & send to 7575

غیر انسانی وی آئی پی کلچر اور کرپشن کی انتہا

گزشتہ ہفتے کے روز سندھ میں حکمران پیپلز پارٹی کے چیئر مین اور کراؤن پرنس بلاول زرداری کراچی میں سول ہسپتال کے نئے قائم کردہ ٹراما سینٹر کے افتتاح کے لیے تشریف لائے۔ ان کی سکیورٹی اور پروٹوکول کے باعث لیاری کی بیمار بچی بسمہ کی موت واقع ہو گئی ۔اس کی وجہ بلاول ہوں یا سکیورٹی اور پروٹوکول کا انتظام کرنے والے عملدار، یہ ایک انتہائی افسوسناک واقعہ بلکہ جرم ہے اور اس سنگین جرم پر نثار کھوڑو نے جو لب و لہجہ اختیار کیا، وہ انتہائی شرمناک ہے۔ نثار کھوڑو بسمہ کی المناک موت پر بلاول کو پاکستان کی سلامتی قرار دے رہے ہیں ۔ پاکستان اتنا کمزور اور نحیف نہیں ہے کہ وہ کسی شخصیت کے عدم تحفظ کی بنا پر ٹوٹ جائے۔سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے عام لوگوں اور ان کے بچوں کی زندگیاں ان کے جانوروں جتنی بھی اہم نہیں؟۔صرف بلاول ہی نہیں ان جیسے دیگرنام نہاد وی آئی پی پاکستان کے عوام کو محترم شہری نہیں تو انسان تو سمجھیں۔ان حکمرانوں کے پروٹوکول کے دوران رکشے میں بچے پیدا ہوتے رہے اور حکمرانوں نے ایسے واقعات کوہنسی و مذاق میں اڑا دیا۔
وی آئی پی کلچر ہمارے معاشرے میں کینسر کی طرح پھیل چکا ہے۔اگر نام نہاد عوامی نمائندگی کے دعویداروں کی کارچیکنگ کے لئے روک لی جائے تو ان کا استحقاق مجروح ہو جاتا ہے اور وہ تحریک استحقاق پیش کر دیتے ہیں، لیکن لیاری کی بیٹی کے غریب والدکو تو ایف آئی آر درج کرانے کی ہمت بھی نہیں ہوئی۔ اگر سول سوسائٹیوں کے دباؤ میں آکر کوئی ایسا قدم اٹھائے تو اس غریب کو جان کے لالے پڑ جائیں گے۔کیا نام نہاد سول سوسائٹی کی تنظیمیںغیر ملکی امداد حاصل کرنے کے لئے اس واقعہ پر ملالہ کی طرز کا ہنگامہ کھڑا کر سکتے ہیں؟ بین الاقوامی فنڈز حاصل کرنے والی ایک نام نہاد تنظیم جمہوریت کے پھیلاؤ کے لئے نام نہاد سروے کروانے کی شہرت کی حامل ہے ۔کیا اس تنظیم نے لیاری میں حکمرانوں کے بارے میں سروے کرانے کی زحمت کی؟
پاکستان میں پروٹوکول کو ختم کرنے کا عملی اور جرأت مندانہ قدم مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے اٹھایا تھا۔ انہوں نے اپنے دور میں وفاقی، صوبائی وزراء اور مشیران کی کاروں پر قومی پرچم لگانے کی ممانعت کر دی تھی۔ صرف صدر، وزیر اعظم ، گورنر اور وزیر اعلیٰ کو اس کا استحقاق تھا اور چیف جسٹس آف پاکستان صرف سپریم کورٹ کا ہی جھنڈا لگانے کے مجاز تھے۔ اسی طرح مسٹر بھٹو نے 1973 ء کے آئین میں ایک شق متعارف کرائی تھی کہ صرف سائنس، کھیل، نرسنگ اور شجاعت پر ہی کسی کو قومی ایوارڈ دیے جائیں گے ۔ مرحوم بھٹو نے 1950 ء سے 1970ء تک جاری کئے گئے سول ایوارڈ اور مراعات جو بیوروکریٹس کو دی گئیں انہیں منسوخ کر دیا تھا۔ لیکن بد قسمتی سے جنرل ضیاء الحق کے دور یہ سلسلہ پھر شروع کر دیا گیا ۔ اسی طرح وزیر اعظم محمد خان جونیجو مرحوم نے وی آئی پی کلچر کے خاتمہ کے لئے بڑی گاڑیوں کے استعمال پر پابندی عائد کر دی تھی۔بھارت میں وی آئی پی کلچر کا خاتمہ 1950ء سے ہی کر دیا گیا تھا اور وزراء کو چھوٹے گھروں تک محدود کر دیا گیا تھا۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے 16 اگست 1947 ء کو اپنی کابینہ کے پہلے اجلاس میں فیصلہ صادر کر دیا تھا کہ مرکزی اور صوبائی وزراء آٹھ سو سی سی کی گاڑیاں استعمال کریں گے ا ور چھوٹے اور سادہ گھروں میں رہیں گے، عام لباس زیب تن کریں گے، اور گھروں میں ڈرائینگ رومز بھی انتہائی سادہ ہوں گے۔
پاکستان میں نام نہاد وی آئی پیز اور وی وی آئی پیز کی تعداد میں گزشتہ 20 برسوں کے دوران 300 فیصد اضافہ ہوا ہے ‘اور وی آئی پیز نے نام نہاد سکیورٹی کے خوف سے عوام کا جینا حرام کر دیا ہے۔ ہمارے ہاں ہر وزیر اعلیٰ نے سپیشل سکیورٹی کو متعارف کرا یا ہوا ہے جو قانون سے بالا تر ہے۔ بلاول کے لئے سکیورٹی ایس ایس یو کمانڈوز فراہم کر رہے ہیں۔ یہ غیر قانونی فورس سندھ میں جون 2008 ء میں آصف علی زرداری کے خصوصی حکم کے تحت ان کے صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے قائم کی تھی جس کا سربراہ شاید ایک ریٹائرڈ کرنل ہے‘ حتیٰ کہ آئی جی پولیس سندھ کو بھی آصف علی زرداری اور ان کے خاندان کی سکیورٹی کے معاملے میں اسی فورس کی ہدایات پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ فورس کی تعداد اور بجٹ کا علم بھی آئی جی سندھ کو نہیں ہے ۔ اس فورس کے اخراجات شاید عسکری قیادت کے بھی علم میں نہ ہوں۔ سندھ ہائی کورٹ کو از خود نوٹس لینے کی استدعا ہے کہ بلاول اور قائم علی شاہ کے روٹ کا ذمہ دار کون ہے اورجس نے سول ہسپتال اور ملحقہ علاقوں کے محاصرے کا حکم دیا تھا، وہی اس سانحہ کا ذمہ دار ہے۔ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کو اس فورس کے کرنل کے خلاف ایف آئی آر درج کرانی چاہیے کیونکہ انتہائی گنجان آبادی کے علاقے میں وی آئی پیز کی آمد سے ٹریفک جام ہو گئی اوربسمہ کے والد کسی طرح سول ہسپتال تک پہنچ گئے تو گیٹ پر روک دیا گیا ۔ اس سب میں ایک گھنٹہ لگ گیا اور بچی چل بسی! سول ہسپتال کے بے حس سپرنٹنڈنٹ کے ریمارکس بھی بڑے معنی خیز ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ کے از خود نوٹس سے پاکستان میں ہمیشہ کے لئے وی آئی پی کلچر کی وباء ختم ہو جانے کا امکان ہے۔ اسی طرح شریف خاندان کے بھی وی آئی پیز روٹس ختم کئے جائیں۔حمزہ شہباز اور خاندان کے دیگر ارکان کو عام شہری ہی تصورکیا جائے ۔ سکیورٹی اور وی آئی پیز کے کلچر میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں قانون ساز سب سے بڑے قانون شکن ہیں۔بسمہ کی موت سے ہمارے معاشرے اور حکمرانوں کو بیدار ہو جانا چاہیے وہ اس غیر انسانی وی آئی پیز کلچر میں تبدیلی لائیں۔
میرا خیال ہے کہ بلاول زرداری کو اس ٹراما سنٹر کا نام بسمہ کے نام پر رکھ دینا چاہئے جس کی المناک موت نے کروڑوں دلوں کو صدمے سے دو چار کر دیا ہے۔ بلاول زرداری اپنی والدہ محترمہ اور نانی محترمہ نصرت بھٹو کی ہی لاج رکھ لیں اور قائم علی شاہ اس وقت کو بھی یاد کریں جب نثار کھوڑو بھٹو خاندان کے بد ترین مخالف تھے۔ تب دادو لاڑکانہ روڈ پر محترمہ بیگم نصرت بھٹو ایک بچے کی لاش خود اٹھوا کر قریبی گاؤں میں بچے کے گھر پہنچی تھیں۔ گاؤں اورنزدیک و دور کے دیہات میں جب لوگوں کو معلوم ہوا تو بیگم نصرت بھٹو کو اپنے درمیان دیکھ کرلوگ اور بچے کے والدین اپنی اولاد کا غم بھول گئے تھے ۔بلاول زرداری کے حاشیہ برداروں کو اس تاریخی واقعہ کی رپورٹ بنا کر بلاول زرداری اور نثار کھوڑو کو پیش کرنی چاہئے۔ بلاول زرداری سوشل میڈیا اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے جاندار دباؤ کے تحت بسمہ کے گھر تشریف لے گئے اور ان کی دعائیں حاصل کر کے نثار کھوڑو کے طرزعمل کی تلافی کرنے کی کوشش کی۔ 
رینجرز کے اختیارات سے متعلق وفاقی اور صوبائی دونوںحکومتوں کی طرف سے تصادم کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری وفاق سے تصادم کا راستہ اختیار نہیں کر سکتے ۔وہ اندرونی طور پر ڈاکٹر عاصم حسین کو دوبئی بھجوانے کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔وزیر اعظم نواز شریف اور آصف علی زرداری اس اہم آئینی اور قانونی بحران میں میثاق جمہوریت کو ڈھال بنانا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے رینجرز اختیارات کے معاملات میں مداخلت کرنا اور سندھ حکومت سے معاملہ فہمی کرنا سکرپٹ کا حصہ ہے ‘اس لئے وزیر اعظم نواز شریف سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ سے رابطے میں ہیں۔ 18 فروری 2008 ء کے انتخابات کے نتیجہ میں بر سر اقتدار آنے کے بعد آصف علی زرداری اور ان کے مفاد پرست گروپس نے حکومت سندھ میں ہر اہم عہدے کی قیمت اور ٹائم فریم مقرر کر رکھا ہے۔ اکثر وزراء اہم عہدے میرٹ کے بجائے اپنے پسندیدہ لوگوں کو آمدنی کے لحاظ سے ایک عرصے کے لئے فروخت کرتے ہیں۔رقم ادا کرنے کے بعد بیورو کریٹس کرپشن کے لئے من مانی رقم وصول کرکے کام کرتا ہے اور کروڑوں روپے اوپر والوں کو ادا کر کے ملک سے فرار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح رینجرز نے چند وزراء کے گھروں سے اربوں روپے نقد برآمدکئے تھے۔ کرپشن کی انتہا جتنی سندھ میں پیپلز پارٹی کے دور میں ہوئی ‘اس نے 60 سال کے ریکارڈتوڑ دیئے ۔اسی طرح پنجاب میں حکمران جماعت میں جرائم پیشہ ، ریپ کے شیدائی ، قبضہ گروپس، مافیا گروپس اور ٹھگ باز داخل ہو چکے ہیں ۔ عسکری قیادت کو کرپشن کے خلاف آپریشن شروع کرتے ہوئے اسے ملک گیر سطح پر بڑھانا ہو گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بد عنوانیوں کے بازار گرم ہیں۔ اب خرابی آخری کناروں کو چھو رہی ہے۔ کوئی بھی غلطی حکومت کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے ۔آئین کے آرٹیکل 149-148 کے تحت عسکری اداروں کو مکمل تحفظ حاصل ہے ۔اس آرٹیکل کے تحت ان اداروں کو ہر کرپٹ محکمے میں مداخلت کا پورا اختیار ہے اور سپریم کورٹ بھی اپنی رولنگ کے تحت اس میں مداخلت نہیں کرے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں