"KDC" (space) message & send to 7575

آصف زرداری کو پارٹی عہدہ چھوڑنا پڑے گا؟

سابق صدر آصف علی زرداری پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر منتخب ہوگئے۔ الیکشن قوانین کے تحت وہ بیک وقت دو سیاسی جماعتوں کے عہدیدار نہیں ہو سکتے، لہٰذا انہیں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کے عہدے سے مستعفی ہونا پڑے گا۔ اگر انہوں نے دونوں پارٹیوں کے عہدے اپنے پاس رکھے تو یہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی ہوگی۔ موجودہ صورت میں بلاول زرداری محض کاغذی طور پر پارٹی چیئرمین ہیں۔ ان کی پارلیمنٹ اور سندھ حکومت میں قانونی آواز نہیں ہے، تمام اختیارات آصف علی زرداری کے ہاتھوں میں ہیں۔ وہ بڑی آسانی سے پارلیمنٹ اور صوبہ سندھ پر اپنا کنٹرول قائم کریںگے۔ بلاول زرداری کی پیپلز پارٹی کی حیثیت غیر سرکاری تنظیم کی بن کر رہ گئی ہے۔ اگر آصف علی زرداری، بلاول کو سیاسی اورانتظامی اختیارات تفویض کرنے میں سنجیدہ ہوتے تو وہ انہیں پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کا صدر منتخب کراتے۔ اس حکمت عملی کے تحت بلاول زرداری پاکستان کے دوسرے بڑے سیاسی رہنما تصور کئے جاتے۔ آصف علی زرداری نے بظاہر گہری سوچ بچار کے بعد بلاول کو پیپلز پارٹی کا چھوٹا سا کھلونا دے کر سیاسی امورکے بارے میں بے دست و پا کر دیا ہے۔ اب آصف علی زرداری ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی طرز پر پاکستان میں سیاست کریں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کی مرکزی مجلس عاملہ کے جن ارکان نے آصف علی زرداری کو صدر منتخب کیا، ان کی قانونی حیثیت کا جائزہ بھی لینا ہوگا کیونکہ ان میں بیشتر دو سیاسی جماعتوں کے ارکان ہیں۔
سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے سیاست میں آنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کے نزدیک پاکستان کے مسائل کا حل صدارتی نظام میں مضمر ہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ فرانس، امریکہ اور سری لنکا کی طرز پر صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دے کر ہی پاکستان کو متحد رکھا جا سکتا ہے۔ موجودہ انتخابی نظام دولت کا کھیل ہے، متوسط طبقے کا کوئی فرد اس نظام انتخاب میں الیکشن جیتنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ 9 مارچ 2007ء کو صدر پرویز مشرف نے چوہدری افتخار سے بلا وجہ خطرہ محسوس کر کے انہیں فارغ کر دیا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ تقریباً 200 ارکان پارلیمان کو خطرہ تھا کہ وہ ان کی وجہ سے نا اہل ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ کثیر تعداد میں دہری شہریت کے حامل ارکان پارلیمنٹ تھے، انہیں بھی یہی خطرہ لاحق تھا۔ اُن دنوںاسلم خاکی ایڈووکیٹ کی طرف سے متحدہ مجلس عمل کے72 ارکان قومی اسمبلی اور پچاس سے زیادہ ارکان صوبائی اسمبلی کے خلاف جعلی ڈگریوں کے بارے میں دائر آئینی پٹیشن چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے زیر سماعت تھی جس پر تین برسوں سے ناگزیر حالات کی وجہ سے پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔ بادی النظر میں صدارتی نظام سے متعلق افتخار محمد چوہدری کا موقف درست ہے۔ انہوں نے جس انتخابی نظام کو ناقص قرار دیا ہے، اسی کو لے کر ڈاکٹر طاہر القادری نے 23 دسمبر 2012 ء کو لاہور کے تاریخی اجتماع میں اس کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا۔ جب وہ اس انتخابی نظام سے نجات حاصل کرنے کے لیے سپریم کورٹ گئے تو انہیں تضحیک کا نشانہ بنایا گیا اور ان کی آئینی درخواست مسترد کر دی گئی۔ اگر اس آئینی درخواست پر، جو ملک کے چوٹی کے آئینی اور قانونی ماہرین کی معاونت سے تیار کی گئی تھی، فیصلہ آجاتا تو اس کے نتیجے میں مئی 2013ء کے کرپٹ انتخابی عمل کے بجائے صاف شفاف اور آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے مطابق عوامی نمائندگان کا چناؤ ہوتا اور عدالتی افسران بھی کرپٹ انتخاب کا حصہ نہ بنتے۔ راقم الحروف نے انتخابات سے چند ماہ پیشتر عدالتی ریٹرننگ افسران کے بارے میں جو کالم لکھے تھے، ان کی کاپیاں چیف جسٹس کو بھجوائی تھیں۔ ان میں ریٹرننگ افسروں کے کرپٹ طریقہ کار کی نشان دہی کرتے ہوئے واضح کیا گیا تھا کہ ریٹرننگ افسر قانونی طور پر الیکشن کمیشن کے تابع نہیں ہوتے۔
صدارتی نظام حکومت کے حوالے سے افتخارمحمد چوہدری کی سوچ مثبت ہے اور راقم نے اسی نظام حکومت کے حق میں روزنامہ دنیا میں مسلسل کالم لکھے اور الیکٹرانک میڈیا میں اپنے اس موقف کی وضاحت کی۔ سابق چیف جسٹس عوام کو اس کرپٹ نظام سے نجات دلانے کی ہمت و حوصلہ رکھتے ہیں، لیکن اس کے لیے انہیں ماضی کی تلخیوں، رنجشوں اور ذاتی عناد سے پیچھے ہٹنا ہوگا اور ہم خیال سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر مضبوط اتحاد بنانا ہوگا۔ جس طرح تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما 'کاک ٹیل پارٹی‘ میں اکٹھے ہوتے ہیں اور دن کے اجالے میں نام نہاد مخالفت کرتے ہیں، اسی طرح افتخار محمد چوہدری کو بھی اپنے مخالفین سے رابطہ کرکے ان سے مفاہمت پیدا کرنی ہو گی تاکہ پاکستان کے عوام کو کرپٹ سیاسی نظام سے نجات دلائی جا سکے۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری کو اللہ تعالیٰ نے عزت و وقار کی دولت سے نوازا تھا۔ وہ بطور چیف جسٹس کرپٹ حکمرانوں کو این آر او کالعدم کرتے ہوئے فارغ کر سکتے تھے۔ انہوں نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ساڑھے تین گھنٹے کی ملاقات کے نتیجے میں حکومت کو ساڑھے تین سال کے لیے ریلیف دے دیا اور این آر او پر کوئی حتمی فیصلہ نہ دیا جس کی عوام توقع کر رہے تھے۔ 
قدرت نے افتخار محمد چوہدری کو ایک اور موقع دیا ہے کہ وہ اپنی ماضی کی کوتاہیوں اور مصلحت پسندی کا ازالہ کر کے ملک کی آزاد اپوزیشن کو نواب زادہ نصراللہ خاں کی حکمت عملی کے مطابق یکجا کریں۔ نواب زادہ نصر اللہ خاں نے ذوالفقار علی بھٹو کی شدید مخالفت کی اور ان کی سزائے موت کے بعد ایم آر ڈی تشکیل دے کر بیگم نصرت بھٹو کو اس کا پہلا صدر مقرر کروا دیا۔ اسی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کا خاتمہ کروا کے انہی کی حمایت میں سیاسی اتحاد قائم کیا اور انہیں اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ اسی طرح نواز شریف کی حکومت کے خلاف گرینڈ اپوزیشن اتحاد میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو شامل کر کے ان کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی تھی کہ 12اکتوبر 1999ء کا واقعہ پیش آگیا۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بھی اپنے تمام اختلافات فراموش کر کے پاکستان کے صف اول کے اپوزیشن رہنماؤں سے روابط قائم کرنے چاہئیں۔ فی الحال ان کی پارٹی میں پاکستان کے ناراض وکلا کو ہی اہمیت حاصل ہے۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ماضی کے بارے میں خوشگوار یادیں نہیں ہیں۔ 
سیاسی طور پر فعال ہونے کے بعد انہیں شدید تنقیدکی زد میں لایا جائے گا اور میڈیا ان کا بے رحمانہ احتساب کرے گا۔ انہوں نے31 جولائی 2009ء کو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے تقریباً ایک سو بیس ججوں کو آئین کے آرٹیکل 209 سے انحراف کرتے ہوئے سبکدوش کر دیا تھا۔ ان کے اس غیر آئینی اقدام سے عدالتیں تجربہ کار اور معزز ججوں سے محروم ہوگئیں۔ یہاں چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کے دہرے معیارکی جھلک نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے دو دفعہ صدر پرویز مشرف سے حلف لیا تھا۔
9 مارچ2007 ء کو جو افسوس ناک واقعہ پیش آیا اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ صدر پرویز مشرف کو باورکرایا گیا تھا کہ ستمبر2007 ء کو ہونے والے صدارتی الیکشن میں چیف جسٹس بین الاقوامی سازش کے تحت ان کے صدارتی کاغذات نامزدگی اس بنیاد پر مسترد کر دیں گے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 62 کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ صدرکے قریبی ساتھی انہیں چیف جسٹس سے بدظن کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ میمو گیٹ سکینڈل پر میاں نواز شریف خود مدعی بن کر عدالت میں پیش ہوئے اور یوں اہم اور حساس نوعیت کا مقدمہ اپنی افادیت کھو بیٹھا۔ اسی طرح اٹھارویں ترمیم کے بارے میں فل کورٹ کا فیصلہ محفوظ کر کے پاکستان کی فیڈریشن کوکنفیڈریشن کی طرف جانے کا راستہ ہموارکر دیا گیا۔اگر یہ فیصلہ بر وقت آجاتا تو اٹھارویں ترمیم کی بیشتر خرابیوں کا ازالہ ہو جاتا۔ خواتین کی مخصوص نشستوں اور آئین کے آرٹیکل 62-63 کی بھی تشریح ہو جاتی۔ بہرحال چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری سیاسی میدان میں اترے ہیں تو انہیں ملک و قوم کی بہتری اور معاشرے کو کرپشن سے سے نجات دلانے کے لیے سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں