"KDC" (space) message & send to 7575

اقتصادی راہداری پر خدشات

وزیر اعظم نواز شریف جمہوری اور آئینی وزیر اعظم ہیں۔ وہ میثاق جمہوریت کے اہم فریق ہیں جس کی پاسداری کا دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ہمیشہ دعویٰ کرتی رہی ہیں؛ حالانکہ میثاق جمہوریت پاکستان کو فیڈریشن کے بجائے کنفیڈریشن کی طرف لے جانے کا سفر تھا۔ اس کی بنیاد 1985ء میں مرحوم عبدالحفیظ پیرزادہ، ممتاز بھٹو، سردار عطاء اللہ مینگل اور سندھ کے بعض قوم پرست رہنماؤں نے رکھی تھی۔ عبدالحفیظ پیرزادہ نے کنفیڈریشن کے لیے راہ ہموار کرنے کی خاطر ملک گیر مہم بھی چلائی تھی لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس وقت کے حالات دیکھتے ہوئے اسے مسترد کر دیا تھا۔ بہرحال میثاق جمہوریت کے نتیجے میں 2008ء کے انتخابات میں پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اقتدار تفویض کیا گیا۔ بعد ازاں چیف جسٹس آف پاکستان کی بحالی کے مسئلے پر جب نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان اختلافات بڑھے تو فروری 2009ء میں، شریف برادران کی نااہلی کیس کا فیصلہ آنے کے بعد، پنجاب میں گورنر راج لگا دیا گیا۔ 2011ء میں نواز شریف میمو معاملے کو لے کر سپریم کورٹ چلے گئے۔ سلسلہ یونہی چلتا رہا، حتٰی کہ مئی 2013ء کے عام انتخابات کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) وفاق کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔
حالات کے مد و جزر میں آج وزیر اعظم نواز شریف خود غیر جمہوری طرز حکمرانی کے راستے پر چل پڑے ہیں۔ ان کے قریبی رشتے داروں اور ساتھیوں کی وجہ سے پاکستان کا بیرونی قرضہ 66 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے‘ جو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔ 2006ء سے2015 ء تک پچاس ارب ڈالر کے قرضے حاصل کیے گئے اور صرف نواز حکومت کے آنے کے بعد 27 ارب ڈالر کے قرضے لیے گئے۔ بیرونی قرضے لینے کے موجودہ رجحان اور قرضوں کی واپسی کے لیے مزید قرضے لینے کا سلسلہ جاری رہنے کی صورت میں پاکستان کا بیرونی قرضہ 2020ء میں 90 ارب ڈالر تک پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 21 ارب ڈالر ہیں‘ جسے وہ حکومت کی مثبت حکمت عملی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں‘ جبکہ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ذخائر میں یہ نام نہاد اضافہ بیرونی قرضے ملنے کی وجہ سے ہوا۔ صورت حال کا یہ پہلو تشویشناک ہے کہ پاکستان کی بر آمدات میں خاصی کمی آئی ہے‘ جسے 200 فیصد تک بتایا جاتا ہے۔ اسحاق ڈار کی حکمت عملی کے باعث قوم کو جکڑنے والی معاشی زنجیریں ملکی آزادی و سالمیت کے لیے خطرہ بن رہی ہیں۔ 
اقتصادی راہداری منصوبے سے پاکستان کے عوام نے اچھی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں، لیکن بدقسمتی سے وزیر اعظم نواز شریف کی بھارت سے متعلق نرم پالیسی کی وجہ سے یہ عظیم منصوبہ بھی کالا باغ ڈیم کی طرح متنازعہ بنتا جا رہا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ میں تبدیلی کے خدشات کے پیش نظر خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور صوبے کی متحدہ اپوزیشن نے مزاحمت کی حکمت عملی تیار کر لی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 28 مئی 2015ء کو کل جماعتی کانفرنس میں وزیر اعظم نے مغربی روٹ میں کوئی تبدیلی نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن اب وہ اپنے وعدے سے انحراف کر رہے ہیں۔ اقتصادی راہداری سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے اپوزیشن کے تحفظات کو درست قرار دیا ہے۔ اقتصادی راہداری اور اس کے مغربی روٹ کو ہی اصل روٹ بنانے کی صورت میں پاکستان کے پسماندہ علاقوں کی ترقی کا جو آخری موقع ہاتھ آیا‘ وہ 
ضائع ہوتا نظر آرہا ہے۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ اپوزیشن کی جائز شکایات کے ازالے کے لیے آئین کے آرٹیکل 153 اور156 کے مطابق مشترکہ مفادات کونسل اور قومی اقتصادی کونسل جیسے اداروں کے ذریعے فوری اقدامات کریں۔ جمہوری اور غیر جمہوری ہونے میں اصل فرق یہی ہے کہ غیر جمہوری وزیر اعظم من مانے فیصلے کرتے ہیں‘ جبکہ جمہوری حکومتیں تمام فیصلوں کے لیے پارلیمنٹ کے توسط سے مشاورت کا راستہ اختیار کرتی ہیں۔ پی آئی اے کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ذاتی کمپنی میں تبدیل کر نے پر پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا اعتراض یقیناً وزن رکھتا ہے اور فوری توجہ چاہتا ہے۔ وفاقی حکومت اپنے فیصلے کی توثیق پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے کروانے سے گریز کرے۔ اگر بھاری اکثریت کی آڑ میں سینیٹ کی قرارداد کو مسترد کیا گیا تو عوام کا پارلیمنٹ سے اعتماد اٹھ جائے گا۔
حکومتیں بالعموم مشترکہ مفادات کونسل اور قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس بلانے سے گریز کرتی ہیں؛ حالانکہ آئین کے آرٹیکل 154 کے مطابق مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہر تین ماہ میں طلب کرنا لازمی ہے۔ لیکن نواز شریف جیسے جمہوری وزیر اعظم بھی اس آئینی تقاضے کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ وفاقی حکومت اس حوالے سے عوام کو دھوکہ دے رہی ہے کیونکہ اس اہم قومی معاملے کو ڈھائی سال گزرنے کے باوجود مذکورہ آئینی فورم پر نہیں لایا جا رہا۔ عوام کی نظریں اس وقت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے متحرک صدر علی ظفر کی طرف لگی ہوئی ہیں‘ جو پاکستان کے مایہ ناز آئینی ماہر ایس ایم ظفر کے فرزند ہیں۔ علی ظفر ایڈووکیٹ کو چاہیے کہ مشترکہ مفادات کونسل اور اقتصادی کونسل کے اجلاس نہ بلانے اور آئین سے انحراف کرنے پر آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی پٹیشن داخل کریں کیونکہ اپوزیشن بھی عوام کی توقعات پر پوری نہیں اتر رہی، ان کے ذاتی اور پارٹی مفادات آڑے آرہے ہیں۔ 
چند روز پیشتر مغربی روٹ کے نام پر ژوب میں چند ارب روپے کی لاگت سے ایک عام سڑک کا سنگ بنیاد رکھنے کی جو تقریب منعقد کی گئی‘ وہ فریب کے سوا کچھ نہیں۔ ژوب ـ مغل کوٹ سیکشن‘ جسے مغربی راہداری کا نام دیا جا رہا ہے‘ کی کل لاگت صرف 9 ارب ہے جبکہ مشرقی روٹ‘ جس پر کام ہو رہا ہے‘ کے کراچی ـ لاہور موٹر وے کی لاگت 677 ارب روپے ہے۔ اسی طرح گوادر ـ رتو ڈیرو سڑک 18 ارب اور اسلام آباد ـ حویلیاں 33 ارب میں مکمل ہو گی ۔ اگر علی ظفر تمام حقائق کو یکجا کر کے سپریم کورٹ میں آئینی پٹیشن داخل کرا دیں تو اس منصوبے کے بارے میں اصل حقائق سامنے آ سکتے ہیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے معاہدہ استنبول کے تحت استنبول سے کاشغر تک کی اقتصادی راہداری متعین کی تھی‘ آج مغربی روٹ اسی راستے پر ہے جہاں 1964ء میں زمینی کام شروع ہونے والا تھا لیکن جو امریکی سازش کا شکار ہو گیا۔ 
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کے اس خط کو بھی بنیاد بنا سکتی ہے جو انہوں نے وزیر اعظم پاکستان کو چین پاکستان راہداری پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے۔ قومی اخبارات میں تسلسل کے ساتھ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ کراچی لاہور موٹر وے کے ٹھیکے میں 24 ارب روپے کی بدعنوانیاں ہوئی ہیں۔ گویا ایک سیکشن کے گھپلے کی رقم ژوب مغل خیل سیکشن کی کل لاگت یعنی 9 ارب روپے سے تین گنا ہے۔ گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو محروم رکھ کر پنجاب کے ساتھ نفرتیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی بھی اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے فیڈریشن پر گہرے کالے بادل چھا رہے ہیں۔ غالباً انہوں نے وفاق کی فیڈریشن گریز سیاست کو بھانپ لیا ہے۔ صوبہ خیبر بختونخوا کے وزیر اعلیٰ سادہ، شریف النفس سیاسی رہنما ہیں۔ ان میں چالاک، عیار، موقع پرست اور پراسرار کھیل کھیلنے والوں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں۔ وہ صوبہ خیبر پختونخوا کی بے اثر اپوزیشن کے ذریعے وفاق پر دباؤ ڈالنے کی صلاحیت سے بھی محروم نظر آتے ہیں اور انہیں پاکستان کے صف اوّل کے آئینی ماہرین کا بھی تعاون حاصل نہیں‘ لہٰذا قوم اقتصادی راہداری کو اس کے اصل منصوبے پر عمل درآمد کرانے کے لیے جنرل راحیل شریف کی طرف دیکھ رہی ہے۔ قوم ان کی 6 ستمبر 2015ء کے تاریخی خطاب کی روشنی میں اقتصادی راہداری پر عمل درآمد کرانے کے حوالے سے نظریں جمائے بیٹھی ہے۔ ان حالات میں جنرل راحیل شریف ہی قوم کے لیے امید کی کرن ہیں۔ اقتصادی راہداری کے عظیم الشان منصوبے کے لیے 46 ارب ڈالر کی یادداشت پر دستخط ہو چکے ہیں لیکن اس کے بارے میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا؛ حالانکہ آئین کے آرٹیکل 160 اور 164 کے تحت آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی منظوری ضروری ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں