"KDC" (space) message & send to 7575

مردم شماری اور اسمبلیوں کی نشستیں (آخر ی قسط)

مردم شماری کے اعداد و شمار کی روشنی میں کوٹہ سسٹم کے حوالے سے وفاق میں سرکاری ملازمتوں میں صوبے کے کوٹے پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے۔وفاقی بجٹ مردم شماری کے اعدادوشمار کی روشنی میں بنایا جاتا ہے۔ مردم شماری کا فیصلہ وفاقی وزیر اسحاق ڈار کی وزارت کو کرنے کے آئینی اختیارات نہیں ہیں۔مردم شماری آئین کے فورتھ شیڈول کی قانون سازی کی فہرست دوئم اور شق 6 میں درج ہے۔ کاروبار حکومت چلانے کے لئے آئین کے آرٹیکل 153 اور 154کو ملا کر پڑھیں، اس آرٹیکل کے تحت مردم شماری اصولی طور پر مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری سے کروائی جا سکتی ہے۔اب 17 سال بعد مردم شماری کرانے کا نیم دلانہ فیصلہ سامنے آیا ہے تو بادی النظر میں آئین کے ان متعلقہ آرٹیکلز کی صریحاً خلاف ورزی ہو رہی ہے اور حکمران جماعت، قومی اسمبلی ‘ صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے تمام ارکان آئین کے متعلقہ آرٹیکلز کی خلاف ورزی کرنے کے مرتکب ہوتے محسوس ہو رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 32 اور 140-A کے تحت انتخابات کرانے کے لئے فیصلے صادر کئے اور انہی کے دباؤ کے تحت بلدیاتی اداروں کے انتخابات ہوئے ۔ بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کے سائے تلے ان انتخابات کو من و عن تسلیم کرنا پڑا۔ میرے خیال میں سپریم کورٹ کو بلدیاتی انتخابات سے پیشتر مردم شماری کرانے کے لئے بھی سخت موقف اختیار کرتے ہوئے از خود نوٹس کے تحت سابق اور موجودہ حکمرانوں کے خلاف کارروائی کرنا چاہئے تھی۔مردم شماری 2008 ء میں کروانے سے 2013ء کے انتخابات میں بد انتظامی دیکھنے میں نہ آتی کیونکہ 1998 ء کی مردم شماری کے نتیجہ میں 2002ء 
میں حلقہ بندیاں کرائی گئی تھیں، اسی طرح دس سال بعد 2008 ء میں مردم شماری کا آئینی عمل شروع ہو جاتا تو اس کے نتیجہ میں 2012 ء میں حلقہ بندیاں مکمل ہو جاتیںاور انہی حلقہ بندیوں کے بل پر انتخابی فہرستوں کی نظر ثانی کا مرحلہ مکمل ہو جاتا تو پھر 2013 ء کے انتخابات میں ایک سو کے لگ بھگ حلقوں کے پولنگ سٹیشن الیکشن کی رات کوتبدیل نہ کرانے پڑتے ۔ نگران حکومت نے من پسند نتائج حاصل کرنے کے لئے ان انتظامی بے ضابطگیوں کا پورا پورا فائدہ اٹھایا اور اس کی پشت پر ایک ایسی غیر سرکاری تنظیم کھڑی تھی جو الیکشن کے مرحلہ وار پروگرام کے تحت 2004 ء سے انتخابی سسٹم سے منسلک تھی۔ سپریم کورٹ کےانکوائری کمیشن نے بھی اپنے فیصلے میں بے ضابطگیوں کا ذکر کیا ہے۔ مئی 2013ء کے انتخابات کی جو عمارت کھڑی کی گئی وہ غلط اعدادوشمار کی وجہ سے کمزور بنیاد وں پر کھڑی کی گئی۔ پھر بلدیاتی انتخابات کے لیے مفروضوں پر مبنی جو حلقہ بندیاں کرائی گئیں‘ وہ بھی حلقہ بندیوں کے مسلمہ اصولوں کے بر عکس تھیں۔ اسی طرح جون 2002ء میں جو انتخابی حلقہ بندیاں کرائی گئی تھیں، ان میں بھی عمودی اور افقی کے فارمولے کو نظر انداز کیا گیا۔اسی تناظر میں سابق وزیر اعظم اور موجودہ وزیر اعظم مع وزیر شماریات آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔ آئین کی خلاف ورزی پر عدالت عظمیٰ کو اس کا از خود نوٹس لینا چاہئے ۔ خوش قسمتی سے پاکستان کے چیف جسٹس حکومت کی گورننس پر ناپسندیدگی کاا ظہار کر چکے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات کے لئے جس انداز سے ریٹرننگ افسران نے پولنگ سکیموں اور پولنگ سٹیشنوں میں رد و بدل کیا‘ اس کی ایک وجہ انتظامی خامیاں بھی تھیں۔ ریٹرننگ افسران نے بڑی ہوشیاری سے الیکشن کمیشن کے نظام کو درہم برہم کرا دیا اور الیکشن کمیشن کو متنازعہ بنوا کر الگ تھلگ ہو گئے کیونکہ عدلیہ ان کی پشت پر کھڑی تھی۔اسی وجہ سے بین الاقوامی معیار کا سسٹم جو نتائج جمع کرنے کے لئے تیار کیا گیا تھا‘ وہ 2013ء کی رات کو مفلوج کر دیا گیا۔ 
آئین کے آرٹیکلز پر عمل درآمد کرانے اور ان کے تحفظ کا حلف عسکری قیادت نے اٹھایا ہوا ہے ۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی فل کورٹ نے 31 جولائی 2009 ء کو اپنے تفصیلی فیصلے میں بھی واضح اشارہ دیا ہے کہ آئین پر عمل درآمد کرنے کا عسکری قیادت کو آئینی حق حاصل ہے۔ جب ہمارے سول ادارے اور حکمران طبقہ آئین کی خلاف ورزی کو کوئی اہمیت ہی نہیں دے رہے، تو قوم فوج کی طرف دیکھتی ہے ۔ اسی پس منظر میں 23 مارچ 1956 ء کے دستور کے نفاذ کے بعد ڈھائی سال تک اس وقت کی حکومت انتخابی قوانین ہی بنانے میں ناکام رہی اورجداگانہ اور مخلوط انتخابی سسٹم کی راہ کا تعین کرنے میںناکامی کے نتیجہ میں ملک میں مارشل لاء کی راہ ہموارہو گئی۔اسی طرح 7 مارچ 1977 ء کے انتخابات حکمران جماعت نے آئین کے آرٹیکل 218 کے مطابق نہ کروائے اور انتخابات کرپٹ پریکٹس کی زد میں آگئے ۔ 12 اکتوبر1999 ء کا قومی سانحہ اس لئے پیش آیا کہ اس وقت کے وزیر اعظم نے آرمی ایکٹ 51 کو بادی النظر میں نظر انداز کر دیا تھا۔ اسی طرح مئی 2013 ء کے انتخابات بھی متنازعہ ہوئے اور جنرل راحیل شریف نے انتخابی احتجاجی تحریک کے محرکین کے وزیر اعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کے مطالبہ کے سوا دیگر مطالبات پر عمل درآمد کرانے کا عندیہ دیا تھا۔ اگر احتجاجی اس پر اتفاق کر لیتے تو سپریم کورٹ کے انکوائری کمیشن کے پاس 2013ء کے انتخابات کو کالعدم قرار دینے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔ ہمارے سیاسی رہنما آئین کو نہیں پڑھتے اور نہ ہی ان کو آئین کا ادراک حاصل ہے، جس کی وجہ سے آئین کی مسلسل خلاف ورزی ہو رہی ہے ۔ پاکستان کا آئین ترقی پسند اور لچکدار آئین ہے۔اب مردم شماری اگر فوج کی نگرانی میں ہوتی ہے تو کراچی میں جو لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی غیر ملکی آباد ہیں‘ ان کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنا پڑے گا ۔اسی طرح بلوچستان کے بعض حساس حلقوں میں افغانستان سے نقل مکانی کر کے آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور بلوچ ایریا میں آبادی کم ہوئی ہے، لہٰذا پشتون اور بلوچ ایریا میں بھی آبادی کے تناسب پر جھگڑا اور سیاسی تصادم ابھر کر سامنے آسکتا ہے کیونکہ1981-82ء کی مردم شماری میں صدر ضیاء الحق کے ایماء پر بلوچستان کی آبادی میں اضافہ کر دیا گیا تھا ۔ اسی طرح کراچی کی آبادی بھی انتظامی سیاست کی نذر ہو گئی اور صرف 70 لاکھ آبادی کو ریکارڈ پر لایا گیا تھا۔ اسی تناظر میں 1998 ء کی مردم شماری چونکہ افواج پاکستان کی نگرانی میں کرائی گئی تو اس مردم شماری کو تمام حلقوں نے من و عن تسلیم کر لیا تھا۔ اس کاکریڈٹ نواز حکومت کو دینا چاہئے!
مئی 2013 ء کے کراچی کے انتخابات کو بعض سیاسی عناصر حقیقی انتخابات اسی لئے تسلیم نہیں کرتے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی کے دس حلقوں میں نئی مردم شماری کرانے کے بعد غیر قانونی غیر ملکیوں کے شناختی کارڈ واپس لینے اور ووٹر فہرستوں میں سے ان کے نام نکالنے کا حکم صادر فرمایا تھا مگر سابق چیف الیکشن کمشنر کراچی کے سیاسی تناظر میں سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کرانے میں ناکام ہو گئے ۔ اب ملک و قوم کے مفادات کے تحت خانہ شماری اور مردم شماری فوج کی نگرانی میں کی جائے اور دیہی اور شہری حدود کا تعین کرنے کے بعد مردم شماری کا آغاز کیا جائے۔اگر ہم 2013 ء کے قومی انتخابات اور بلدیاتی انتخابات کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیں تو یہ انتخابات آئین کے مطابق حقیقی انتخابات کے زمرے میں نہیں آتے۔(ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں