"KDC" (space) message & send to 7575

اقتصادی راہداری اور سیف الرحمن

پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبہ حکومت کے مفاد پرستانہ رویے کی وجہ سے متنازع بنتا جا رہا ہے جس کا فائدہ مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک اور بھارت کو پہنچ سکتا ہے جو کسی بھی طرح پاکستان کو خوشحال اور معاشی طور پر مضبوط نہیں دیکھنا چاہتے۔ وزیر اعظم نواز شریف کل جماعتی کانفرنس کی بجائے آئینی طور پر مشترکہ مفادات کی کونسل کا اجلاس بلا کر چاروں صوبائی حکومتوں کو اعتماد میں لیں، اگر وزیر اعظم نواز شریف خاندانی حصار سے باہر نہ نکلے تو پھر پاکستان‘ چین کی حمایت سے محروم ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال پر چینی رہنماؤں کی بر ہمی قابل فہم ہے وہ پاکستان میں میگا پراجیکٹ کے منصوبوں پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں ‘ لیکن اُس پر مشکور ہونے کی بجائے‘ بعض عناصر سیاسی جماعتیں بشمول حکمران جماعت پاک چین معاشی راہداری کے بارے میں تنازعے کھڑے کر رہے ہیں۔ ہمارے سیاسی نظام اور نام نہاد جمہوری طرز عمل کو دیکھتے ہوئے انہیں (چینیوں کو)احساس ہو رہا ہے کہ ان کا یک جماعتی نظام کہیں زیادہ خوبیوں کا حامل ہے ۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے یک جماعتی نظام کے ذریعے ہی ملک میں معاشی انقلاب برپا کر دیاتھا۔ شریف خاندان شروع ہی سے سیاست اور کاروبار کو غیر معمولی طور پر چلا رہا ہے۔ تیس سالوں سے پاکستان کے عوام کو یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ ان کی سیاست کی سرحد کہاں ختم ہوتی ہے اور کاروبار کی کہاـں سے شروع ۔ برسوں پہلے شریف برادران کو یہ منطق سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ اقتدار میں آنے کے بعد بزنس سے کنارہ کشی کر لیں۔ پہلے اُن کی سیاست اور کاروبار کی راہیں جدا تھیں‘ لیکن اب ایسا نہیں رہا۔ راہداری منصوبے کے تحفظ کی ضمانت عسکری قیادت کے پاس ہے لیکن اُنہوں نے اس منصوبے کو‘ جس سے قوم کا روشن مستقبل وابستہ ہے ‘ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے۔ عوام حیران ہیں کہ فوج نے اس اہم ترین منصوبے پر اپنا چیک اینڈ بیلنس رکھنے کا فیصلہ کیوں نہیں کیا؟
اقتصادی راہداری کی تکمیل سے جہاں پاکستا ن کی معیشت کو فائدہ ہو گا، وہاں چین کو درآمدی و بر آمدی تجارت میں باربرداری کی مد میں اربوں ڈالر کی بچت ہو گی۔اس وقت چین مشرق وسطیٰ اور افریقہ کی منڈیوں تک اپنی مصنوعات پہنچانے کے لئے جو مال بردار جہاز استعمال کر تا ہے اُنہیں کم و بیش 14500 کلومیٹر کا اضافی سفر طے کرنا پڑ رہا ہے۔ چینی درآمدی و بر آمدی سامان کو شیاشینگ سے شنگھائی پورٹ تک 4500 کلومیٹر اور شنگھائی پورٹ سے دوبئی تک تقریباً دس ہزار کلومیٹر کا بحری سفر طے کرنا پڑتا ہے‘ لیکن اقتصادی راہداری کی تکمیل پر یہ مسافت کم ہو کر (کاشغر سے شاہراہ قراقرم ‘ حویلیاں‘ میانوالی‘ ڈی آئی خان‘ ژوب‘کوئٹہ‘ سوراب اور گوادر کے راستے )فقط تین ہزار کلو میٹر رہ جائے گی۔ گوادر پورٹ ‘مسقط اور امریکہ کی ایک ایک بندر گاہ کی طرح دنیا کی گہرے پانیوں کی تیسری بڑی بندر گاہ ہے۔ اس کی قدرتی گہرائی اٹھارہ سے بیس میٹر ہے جب کہ کراچی پورٹ کی گہرائی چینل بنا کر بارہ سے پندرہ فٹ کی گئی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مجوزہ اقتصادی راہداری کے باعث بلوچستان ہی نہیں پورے ملک کے عوام کیلئے روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا ہونگے۔
اقتصادی راہداری کے مثبت پہلوؤں کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کی جغرافیائی سلامتی کے حوالے سے بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں صدر اوباما نے کہا ہے کہ پاکستان صدیوں تک غیر مستحکم رہے گا؛ چنانچہ پاکستان کے ظاہری اور خفیہ دشمنوں نے اپنے ایجنٹوں کو دونوں ملکوںکے درمیان شکوک و شبہات پیدا کرنے کا ٹاسک دے دیا ہے! اسی طرح کا کھیل ہمارے مشرق وسطیٰ کے ایک قریبی دوست ملک نے کھیلا‘ اُس نے نواب اکبر بگٹی کے پوتے براہمداغ کو ورغلایا کہ نواب اکبر بگٹی کو متحدہ عرب امارات کی طرز پر متحدہ ریاست ہائے بلوچستان کی طرز پر نئی مملکت کا امیر مقرر کیا جا سکتا ہے جس پر محب وطن ، جہاندیدہ سیاست دان نواب اکبر بگٹی جھانسے میں آکر اپنی جان گنوا بیٹھے۔اب بھی امریکہ اور بھارت نے پاکستان کے اندر اپنے مخصوص ایجنٹوں کو ایسے ہی استعمال کرنا شروع کر رکھا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کی صوبہ خیبر پختون خوا میں برائے نام نشستیں ہیں ‘لیکن امریکہ نے ان کے لیڈر کو پینٹا گون کا دورہ کرایا جو ہماری وفاقی حکومت کے لئے سوالیہ نشان ہے۔ کیا یہ دورہ اٹھارویں ترمیم کے زمرے میں تونہیں آتا۔ اسی طرح ایک بھارتی اخبار کے مطابق پاک چین اقتصادی راہداری کو ناکام بنانے کے لئے بھارت نے ساٹھ کروڑ ڈالر مختص کر دیئے ہیں؛ لہذا بعض میڈیا ہاؤسز اور مخصوص ذہنیت کے حامل نام نہاد سیاسی رہنماؤں پر بھی نگاہ رکھنی چاہئے ۔
بادی النظر میں اقتصادی راہداری پرو زیر اعظم نواز شریف کی کل جماعتی کانفرنس مثبت نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ وطن عزیز کا روشن مستقبل ، ترقی اور خوشحالی اس منصوبے سے وابستہ ضرور ہے ‘ لیکن ہمارے عسکری اداروں کو چین اور پاکستان کی مشترکہ دستاویزات کا جائزہ لینا چاہئے کیونکہ پاکستان کے ممتازدو صحافی ان دستاویزات کے تناظر میں برملا خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ ہماری حکومت پوری سیاسی قیادت کو بے وقوف بنانے کے لیے مسلسل جھوٹ بول رہی ہے۔ بقول ایک معروف صحافی کے مطابق نومبر 2015ء میں جوائنٹ کو آپریشن کمیٹی میں وفاقی وزیر احسن اقبال نے مغربی روٹ کا ذکر تک نہیں کیا! اس میٹنگ کی مکمل روداد مذکورکے پاس موجود ہے۔ ان دستاویزات میں وزیر اعظم کے وعدے ‘ کل جماعتی کانفرنس کے فیصلوں کی طرف اس میں کہیں اشارہ بھی نہیں کیا گیا ‘گویا چینی دوستوں کی سرکاری دستاویز میں ابھی تک مغربی روٹ کا ذکر تک نہیں۔ اس حوالے سے اے پی سی میں وزیر اعظم کا اعلان اور پھر مغربی روٹ کے نام پرژوب مغل کوٹ روڈ کا افتتاح پاکستانی اور چینی عوام سے مذاق کے سوا کچھ نہیں‘چنانچہ چینی حکمران حیران اورپریشان ہیں کہ جس بات پر پاکستان میں طوفان کھڑا کر دیا گیا‘ اُس کا حکومت پاکستان نے متعلقہ فورم یعنی جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی میں ذکر تک نہیں کیا ۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ قوم ، سیاسی قیادت اور پارلیمنٹ کے سامنے حکومت کی طرف سے جھوٹ صرف روٹ سے متعلق نہیں بولا جا رہا ہے بلکہ ساری عمارت جھوٹ پر استوار کی گئی ہے۔ چینی دستاویزات کے مطابق پاک چین اقتصادی راہداری کے قلیل المیعاد منصوبوں کی تمام تفصیلات طے ہو چکی ہیں اور اکثر منصوبوں پر تیزی مگر خاموشی کے ساتھ کام ہو رہا ہے، اب حکومت پاکستان چاہے بھی تو اکیلے نہ روٹ تبدیل کر سکتی ہے اور نہ کسی اور منصوبے میں رد و بدل لا سکتی ہے۔ اورتو اور سٹیٹ بنک کے گورنر بھی منصوبے سے متعلق بیشتر حقائق اور معلومات سے بے خبر ہیں، ایک ایسا منصوبہ جس سے خطے کے تین ارب افراد کے اقتصادی ثمرات وابستہ ہیں‘ اسے وفاقی حکومت نے پر اسرار بنا کر فیڈریشن کی بنیادیں ہلا دی ہیں کیونکہ جب یہ عظیم منصوبہ 2030 ء تک مکمل ہو گا اس وقت تک پاکستان فیڈریشن سے کنفیڈریشن کا روپ دھار چکا ہوگا۔ 
وزیر اعظم نواز شریف کو کل جماعتی کانفرنس میں بلوچستان ‘ خیبر پختون خوا اور سندھ کے تحفظات کو دور کرنے ‘ مغربی روٹ کے حوالے سے پیدا کی جانے والی غلط فہمیوں کا مؤثر طور پر ازالہ کرنے میں کامیابی اس لئے ہوئی تھی کہ ان تین صوبوں کے رہنماؤں کو اس اہم معاہدے کے اندرونی خدوخال کے بارے میں ادراک ہی نہیں تھا ؛ البتہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے گرما گرم مباحثے اور کچھ تلخ تر نو ک جھونک کی نوبت پیدا کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کِہ جسے انہوں نے بڑی اہم کامیابی حاصل کر لی ہے، حالانکہ وفاقی حکومت کا موقف وہی ہے جو اس نے شروع دن سے اپنایا ہوا تھا! عمران خان کو چاہئے کہ وہ پاک چین اقتصادی راہداری کے روشن مستقبل کے لئے چین کا دورہ کریں اور ان اداروں اور افراد سے بریفنگ لیں جو 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں ۔نیز حقائق جاننے کے لئے جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی کی مکمل روئداد کا مطالعہ کریں۔ اُنہیں اپنے اُن ساتھیوں کو بھی پہچان لینا چاہئے جن کا بالواسطہ تعلق حکمران جماعت سے ہے۔
عوام میں یہ تاثر عام پایا جاتا ہے کہ حکومت اپنے مفادات کے تحت چین کے ساتھ معاہدے کی پاسداری نہیں کر رہی ہے ۔اگر ایسا ہے تو پھر چینی حکومت اب تک خاموش کیوں ہے؟ چین کو بھی چاہئے کہ وہ اس عظیم راہداری جس کے ذریعے چین نے امریکہ کے ارد گرد گھیرا ڈالنا ہے، اس میگا پراجیکٹ کے حوالے سے طے شدہ نقشہ جاری کرے ‘تاکہ عوام کو حقیقت کا علم ہو سکے ۔احسن اقبال جو نقشے ویب سائٹس پر جاری کر رہے ہیں وہ تو میٹرک کی سطح کی جغرافیہ کی کتابوں سے بھی حاصل کئے جا سکتے ہیں ۔ چین تک راہداری کا آغاز پاکستان نے 1963ء میں ہوائی راہداری اور 1964ء میںمعاہدہ استنبول کے ذریعے کر دیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں