"KDC" (space) message & send to 7575

بلدیاتی سربراہوں کا انتخاب: شو آف ہینڈ غیر آئینی ہے!

پنجاب اور سندھ حکومت نے بلدیاتی اداروں کے میئرز اور چیئر مینوں کا انتخاب شو آف ہینڈ کے ذریعے کرانے کے لیے صوبائی اسمبلیوں سے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترمیم کرا لی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے سپیشل نشستوں پر انتخاب غیر جماعتی بنیادوں پر کرانے کے فیصلے پر پنجاب حکومت نے تحفظات کا اظہارکیا اور ان پر براہ راست کے بجائے متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخاب کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس طرح خواتین، ٹیکنوکریٹس، ورکرز، کسانوں اور اقلیتی نشستوں پر تمام جماعتوں کو ان کے کامیاب نمائندوں کے تناسب سے حصہ ملے گا۔ شو آف ہینڈ اور سپیشل نشستوں پر متناسب نمائندگی کے تحت انتخاب سے متعلق حکومت پنجاب کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل 226کے منافی ہے۔ پنجاب حکومت کا موقف ہے کہ بلدیاتی اداروں میں سپیشل نشستوں کے انتخاب کا شیڈول جاری ہونے کے باوجود آرڈیننس جاری کر کے قانون میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے جو الیکشن کمیشن کے اختیارات کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ غیر جمہوری دور میں لوکل گورنمنٹ الیکشن کے آخری مرحلہ پر جب الیکشن کمیشن نے ناظمین کے انتخابات کا شیڈول جون 2002ء میں جاری کر دیا تھا۔ اچانک ایوان صدر کے طاقتور حلقوں نے ناظمین کا انتخاب سیکرٹ بیلٹ کے بجائے شو آف ہینڈ کے ذریعے کرانے کے لیے چیف ایگزیکٹو آرڈر 2002 ء جاری کرنے کا فیصلہ کیا اور صدر پرویز مشرف کے پرنسپل سیکرٹری نے راقم الحروف کے ذریعے الیکشن کمیشن کو حکومتی فیصلے سے آگاہ کیا۔ جب راقم الحروف نے چیف الیکشن کمشنر جسٹس عبدالقدیر چوہدری کو حکومت کے فیصلے سے مطلع کیا تو انہوں نے حکومتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ ان کا قانونی موقف یہ تھا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے شیڈول جاری کرنے کے بعد کسی قسم کی ترمیم کر کے الیکشن شیڈول کو متاثر کرنا غیر قانونی اقدام تصور کیا جائے گا۔ ان دنوں چونکہ چند روز پیشتر ہی صدر رفیق تارڑ کو معزول کر دیا گیا تھا اور جنرل پرویز مشرف نے صدر مملکت کی حیثیت سے اگلے روز بھارت جانا تھا، اس لیے راقم الحروف نے لیفٹیننٹ جنرل غلام احمد اور لیفٹیننٹ جنرل اکرم ذکی کو صورت حال سے آگاہ کیا اور انہیں بتایا کہ چیف الیکشن کمشنر کے مستعفی ہونے پر لوکل گورنمنٹ الیکشن کی ساکھ مجروح ہوگی اور ناظمین کا انتخاب شو آف ہینڈ کے ذریعے کرانے سے عالمی سطح پر یہ تصور کیا جائے گا کہ حکومت اپنے ہم خیال اشخاص کو ناظم بنوانا چاہتی ہے۔ علاوہ ازیں غیر جمہوری طریقہ اختیار کر نے سے لوکل گورنمنٹ کا ڈھانچہ ہی زمین بوس ہو جائے گا۔ قارئین حیران ہوںگے کہ غیر جمہوری دور کے صدر مملکت نے چیف الیکشن کمشنر سے براہ راست معذرت کی اور ناظمین کا انتخاب الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق خفیہ طریقہ کار کے تحت ہی کرانے کی یقین دہانی کرائی۔ اب جبکہ جمہوری دور ہے، بلدیاتی اداروں میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے آرڈیننس کے اجرا اور اسمبلی کے ذریعے ترامیم کر کے پورے نظام کو مضحکہ خیز بنا دیا گیا ہے۔ ان حالات میں الیکشن کمیشن پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انتخاب سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے کروانے کے فیصلے پر کار بند رہے اور سابق جسٹس (ر) عبدالقدیر چوہدری کی پیروی کرتے ہوئے یہ انتخابات شو آف ہینڈ کے ذریعے کروانے سے دستبردار ہو جائے۔
سندھ کریمینل پراسیکیوشن بل اور حکومتی موقف بھی سمجھ سے بالا ہے۔ بظاہر اس قانون کا مقصد مختلف عدالتوں میں زیر سماعت بعض قریبی ساتھیوںکے مقدمات واپس لینا ہے۔ یہ اقدام عسکری اداروں میں پسند نہیں کیا جائے گا اور اسے کراچی آپریشن اور قومی ایکشن پلان کے لیے بھی نقصان دہ سمجھا جائے گا۔
انڈین الیکشن کمیشن کی مستعدی کا یہ عالم ہے کہ ان کے ہاں ہم سے دس گنا زیادہ ووٹروں (یعنی82 کروڑ) کو مرحلہ وار اِس سرعت اور حکمت عملی سے انتخابی عمل سے گزارا جاتا ہے کہ کوئی دھاندلی کی شکایت نہیں کرتا۔ وہاں بیلٹ بکس، مہریں، مقناطیسی سیاہی اور طویل انتخابی فہرستیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں، الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا بول بالا ہے۔ 2004ء کے بعد تمام انتخابات مکمل طور پر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی مدد سے کرائے گئے۔ وہاں چیف الیکشن کمشنر سمیت ہر سطح کے انتخابی عملے کو ہماری طرح انتخاب کے بعد مجرموں کی طرح عدالت اور میڈیا کے سامنے کھڑا نہیں کیا جاتا، بلکہ ان کی پارلیمنٹ کے ذریعے تعریف و توصیف کی جاتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہمارے برعکس بھارت نے انتخابی عمل کو ابتدا ہی سے سنجیدگی سے لیا اور غیر ضروری تجربات نہیں کیے جبکہ ہم آج تک یہ فیصلہ ہی نہیں کر پائے کہ آیا انتخابی عمل ایک طرح کی عدالتی کارروائی ہے یا یہ ایک انتظامی معاملہ ہے۔ بھارت نے روز اول سے ہی اسے خالصتاً انتظامی معاملہ قرار دے دیا تھا اور یہ ذمہ داری انتظامی افسروں کو سونپی گئی تھی۔ آزادی کے بعد پہلے عام انتخابات کا معاملہ سامنے آیا تو ملک کے سویلین چیف الیکشن کمشنر کے طور پر سکمار سین کا انتخاب ہوا جن کا تعلق انڈین سول سروس سے تھا۔ وہ تقرر کے وقت مغربی بنگال میں چیف سیکرٹری کے طورپر خدمات انجام دے رہے تھے۔ الیکشن کمشنرز کے انتخاب کے لیے انہیں فری ہینڈ دیا گیا جس کے لیے انہوں نے اپنے ماتحت ڈویژنل کمشنروں کو ترجیح دی۔ مارچ1950 ء میں نیا عہدہ سنبھالنے کے بعد سکمار سین وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو سے ملاقات کے لیے گئے تو انہیں انتخابات کے فوری انعقاد کے حوالے سے پر جوش پایا۔ وزیر اعظم چاہتے تھے کہ سال ختم ہونے سے پہلے انتخابات کا عمل مکمل ہو جائے مگر سکمار سین نے آہستہ روی کا مشورہ دیا۔ سکمار سین ایک ریاضی دان بھی تھے اور لندن یونیورسٹی سے اس مضمون میں گولڈ میڈل لے رکھا تھا؛ چنانچہ انہوں نے حساب کتاب لگا کر وزیر اعظم کو بتایا کہ ایک برس تو انتخابات کی تیاریوں میں ہی لگ جائے گا۔ اٹھارہ کروڑ کے لگ بھگ ووٹرز ہیں اور زیادہ تر ان پڑھ، ان کی شناخت، رجسٹریشن، انتخابی عملے کا تقرر و تربیت، انتخابی نشانات کا چناؤ، بیلٹ پیپرز کی چھپائی، بیلیٹ بکسوں کی فراہمی، انمٹ سیاہی اور دیگر انتخابی دشواریاں اور مسائل وزیر اعظم کو پیش کر دیئے ۔ وزیر اعظم ان کے شیڈول سے بے حد متاثر ہوئے اور ان کے انتخابی ٹائم ٹیبل کے قائل ہو گئے۔ چنانچہ مکمل اور جامع تیاریوں کے ساتھ بھارت کے پہلے عام انتخابات کا آغاز1951ء کے آخر میں ہی ہوا اور یہ عمل1952 ء کے اوائل تک چلتا رہا۔ انتخابات کی شفافیت کی بات شروع ہوئی تو وزیر اعظم نہرو نے کہا: ''الیکشن کمیشن اپنے رولز اینڈ ریگولیشنز خود بنائے، بد عنوانی کی سب راہیں بند کرنے کی دستاویزات خود تیار کرے، انہیں قانونی شکل میں لانے کی ذمہ دار مرکزی حکومت 
ہوگی‘‘۔ یوں بھارت ابتدا ہی سے ایک نہایت معتبر و موثر الیکشن کمیشن کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو گیا اور یہ اصولی فیصلہ بھی ہو گیا کہ آئندہ بھی چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنرز انڈین ایڈمنسٹریشن سر وس سے ہی آیا کریں گے۔ اس فیصلے پر اس شدومد سے عمل ہوتا آیا ہے کہ اِس وقت تک بھارت میں بیس چیف الیکشن کمشنر آچکے ہیں اور تقریباً سبھی کا تعلق انڈین سروس سے ہے۔ یہاں وزیر اعظم نہرو کا تاریخی جملہ بھی لکھتا جاؤں، انہوں نے بھارتی الیکشن کمیشن کو انڈیا کی وحدت قرار دے دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی وحدت انڈین الیکشن کمیشن میں پوشیدہ ہے، جس دن بھارتی الیکشن کمیشن کی عمارت کمزور ہوئی، انڈیا ٹوٹ جائے گا۔ اس کے بر عکس ہمارے ہاں مستقل اور قائم مقام ملا کر آج تک 26 چیف الیکشن کمشنرز کا تقرر ہوا جن میں سے ابتدائی چار ایف ایم خان، اختر حسین، جی معین الدین اور این اے فاروقی کا تعلق سول سروس سے تھا اور باقی سب عدلیہ سے آتے رہے۔ ایک روایت جو جنرل یحییٰ خان نے مارشل لاء آرڈر کے تحت جولائی 1969ء میں شروع کی تھی، اس کو توڑنا مشکل ہو گیا۔ بین الاقوامی مبصرین کا کہنا ہے کہ انتخابات کا انعقاد خالصتاً ایک انتظامی معاملہ ہے، مخصوص تربیت اور تجربے کے اعتبار سے جج صاحبان جس کے لیے موزوں نہیں ہوتے۔ پاکستان میں یہ آواز پہلی بار جولائی 2014ء میں سامنے آئی۔ چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ خالی ہوا تو سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس جواد خواجہ کو قائم مقام چیف الیکشن کی پیش کش ہوئی، انہوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک جج ہیں بیوروکریٹ نہیں۔ ان کے اس تاریخی جملے سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ انہوں نے کمیشن کی سربراہی کے حوالے سے اپنا فیصلہ بیورو کریٹس کے حق میں دیا اور یہ کہ انتخاب ایک انتظامی معاملہ ہے نہ کہ عدالتی۔ اب انتخابی اصلاحات کمیٹی اس اہم نکتے پر غور و غوض کر رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں