"KDC" (space) message & send to 7575

نگران حکومت بنانے کا وقت آن پہنچا؟

چار سدہ یونیورسٹی، جہاں تین ہزار سے زیادہ طلبہ و طالبات اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ملک بھر سے تقریباً چھ سو دانشور، شعرا اور ادیب باچہ خان کی برسی کے سلسلے میں وہاں موجود تھے، پرحملہ اپنی نوعیت کا انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ دہشت گرد کتنے منظم اور ان کے ارادے کتنے خطرناک ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان آج بھی دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ جنرل راحیل شریف نے نئے سال کے پہلے دن اپنے پیغام میں اور عسکری پالیسی پیغام میںکہا تھا کہ 2016ء دہشت گردی کے خاتمے کا سال ہوگا۔ انہوں نے عسکری ادارے کی جانب سے مثبت سوچ کا بیانیہ جاری کیا، لیکن چار سدہ یونیورسٹی کا المناک واقعہ بتا رہا ہے کہ یہ سب اتنا آسان نہیں ہوگا۔ دہشت گرد ہر بار نئے روپ میں حملہ کرتا ہے۔ پاکستان کے عوام دہشت گردی میں گھرے ہوئے ہیں۔ تحفظ اور امن و امان کے نام پر شہریوں کو تضحیک آمیز صورتحال سے گزرنا پڑتا ہے۔ دفاتر، ایئر پورٹ اور سرکاری عمارتوں کی شکلیں دوسری جنگ عظیم کا نقشہ پیش کرتی نظر آرہی ہیں، لیکن تلخ حقائق یہ ہیں کہ مستقبل قریب میں دہشت گردی کے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
آج ملک کی مسلح افواج سمیت تمام اداروں کی ایک ہی قومی سوچ ہے کہ دہشت گردی کو شکست دی جائے، ملک سے شدت پسندی کا خاتمہ ہو، لیکن ہر قسم کی کوشش کے بعد نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے کہ ملک کی وہ دشمن قوتیں جو پاکستان کا جغرافیائی نقشہ تبدیل کرنا چاہتی ہیں، نئی طاقت سے حملہ آور ہوتی ہیں۔ دہشت گردوں نے مثبت سوچ رکھنے والوں کو ہی نشانہ 
بنانے کے لئے چار سدہ یونیورسٹی پر خون ریز حملہ کیا۔ اگر پولیس، فوج اور یونیورسٹی انتظامیہ کے گارڈ الرٹ نہ ہوتے تو بہت بڑا سانحہ ہو سکتا تھا۔ اگر مشاعرہ شروع ہونے کے بعد حملہ ہوتا تو بڑا نقصان ہوتا اور شعرائے کرام اور دانشوروں کو نقصان پہنچنے سے ملک کی قومی یکجہتی کو متنازعہ بنانے والے انڈین مکتبہ فکر کے اینکر پرسنز پاکستان کی اساس پر حملہ کرتے۔ پاکستان کو خطرہ انتہا پسندانہ سوچ سے ہے جسے ختم کرنے کے لئے عسکری قیادت کو سپریم کورٹ آف پاکستان سے رہنمائی حاصل کرنا ہوگی کیونکہ انتہا پسندی میں اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، منشیات فروشی اور ڈکیتیوں سمیت ہر غیر قانونی کام آجاتا ہے۔ اس غیر قانونی 'دھندے‘ کو بعض سیاسی جماعتوں نے مذہبی شدت پسندی کے پردے میں چھپا یاہوا ہے۔ انہوں نے جمہوریت کے نام پر ڈاکٹر عاصم حسین اور دیگر کرپٹ شخصیات کو محفوظ راستہ دینے کے لئے آرمی کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے کے لئے جمہوری بریگیڈ کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں جس میں میڈیا کے بعض طاقتور اینکر پرسنز اور تجزیہ نگار بھی شامل ہیں جو اپنی دقیانوسیت کے اظہار کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ وہ پاکستان میں حقائق کا رخ موڑنے کی اعلیٰ مہارت سے لیس ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ اس قوم کو یکجہتی کی طرف لے جانے والا رہنما میسر نہیں۔ ملک کا سرکاری ٹیلی وژن بڑے بڑے سانحات کی کوریج نہیں کرتا اور پرائیویٹ چینلز کے اپنے اپنے کاروباری مفادات ہوتے ہیں۔ اس صورت حال میں ہمارا قومی رد عمل وہ نہیں جو ایک جنگ میں گھری ہوئی قوم اور اس کی قیادت کا ہو سکتا ہے۔ 
زمینی حقائق یہ ہیں کہ بعض وفاقی وزراء، سیاسی جماعتوں کے کلیدی رہنما اور چند میڈیا پرسنز اور اینکر پرسنز افواج پاکستان اور اس کے سربراہ کو نجی ملاقاتوں میں شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی اور فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑکانے والوں کو مختلف ممالک خفیہ مالی اور اسلحی امداد فراہم کرکے اپنے مفادات کی فصل کاٹ رہے ہیں۔ پاکستان کا بطور ریاست وجود خطرات میں گھر چکا ہے۔ پاکستان سفارتی فورمز اور مذاکرات کی میز پر مظلوم نظر آرہا ہے۔ ان حالات میں فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ ریاست ہی عوام کے جان و مال کی حفاظت کرتی ہے۔ میرے خیال میں اس کے وجود کی بقا کا ایک ہی طریقہ ہے کہ غیر ریاستی گروہوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی خاطر ملک میں آرٹیکل 234 کے تحت دو سال کے لئے ایمرجنسی نافذ کر دی جائے اور اسی طرح آرٹیکل 245کے تحت افواج پاکستان کو آئینی حق تفویض کر دیا جائے اور اس دوران پاکستان کو رسوا کرنے والی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں اور ان کے حواریوں، پارلیمنٹ کے ارکان اور میڈیا پرسنز کا بے لاگ اور بے رحمانہ احتساب کیا جائے، آصف علی زرداری کے پندرہ بلین ڈالر، نواز شریف کے چار بلین ڈالراور دیگر رہنماؤں کے بقول اسحاق ڈار کے سوئٹزر لینڈ میں پڑے تین کھرب ڈالر واپس لئے جائیں۔ انتخابی اصلاحات کے ضمن میں ایسے سیاسی رہنما اور پارلیمنٹرینز جن کے اثاثے غیر ممالک میں ہیں ان کو انتخابات میں حصہ لینے کے لئے نااہل قرار دے دیا جائے اور موروثی سیاست کے خاتمہ کے لئے پارٹی انتخابات الیکشن کمیشن کی نگرانی میں کرا کے ایسے سیاستدان کو ایبڈو کیا جائے جو تاحیات سیاسی جماعتوں کے سربراہ بنے ہوئے ہیں۔ ایمرجنسی کے دوران پاکستان میں بہترین طرز حکومت کی بنیاد رکھتے ہوئے ملک میں صحت مندانہ سیاسی جماعتوں کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ ملک میں قومی یکجہتی کے لئے ایک جھنڈا اور جناح کیپ کو قومی اہمیت دی جائے، سرکاری دفاتر میں صرف قائد اعظم اور ملک کے سربراہ اور وزیر اعظم کی ہی تصاویر آویزاں کی جائیں۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ پاکستان کی طاقتور فوج ہی ملک میں حتمی فیصلہ ساز عامل رہی ہے۔ پاک فوج کی موجودہ قیادت سیاسی حکومت کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے آپریشن ضرب عضب سے وزیرستان اور فاٹا میں انتہا پسندوں کا خاتمہ کر رہی ہے اور دوسری جانب کراچی میں سیاسی مافیا کے خلاف آپریشن کامیابی سے سر انجام دے رہی ہے۔ اس وقت فوج کو عوام کی بھر پور حمایت حاصل ہے۔ وہ دہشت گردی کو اصل دشمن سمجھتے ہوئے انتہا پسندوں کا خاتمہ کر رہی ہے۔ پاکستان میں داخلی طور پر امن و استحکام حاصل کرنے اور جمہوری اداروں میں آئین کے آرٹیکل 62-63 کے مطابق حقیقی معنوں میں عوامی نمائندگان کا انتخاب کرانے کے لئے دو سال کے لئے ایسی نگران حکومت کی تشکیل ملک کے مفاد میں ہوگی۔
بھتہ خوروں، اغوا برائے تاوان کے ملزموں، دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے، جس کا مقصد نیشنل ایکشن پلان کو جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت کے دوران منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔ میرے خیال میں فروری میں کراچی آپریشن فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہوگا جس میں بے رحمانہ احتساب شامل ہے۔ اس عرصے میں ایم کیو ایم کے علاوہ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے ارد گرد چند وزراء سمیت دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکن گرفت میں آ سکتے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کو آصف علی زرداری کے ہم نواؤں نے مذاق بنا دیا ہے۔ جنرل راحیل شریف کے آئندہ کے بارے میں پالیسی بیان کے بعد کراچی آپریشن کے لئے چند دنوں میں انتہائی اہم فیصلے سامنے آرہے ہیں۔ سندھ حکومت کے بارے میں عسکری قیادت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین پر ساڑھے چار کھرب روپے کی کرپشن کا الزام ہے اور یہ عالمی ریکارڈ ہے۔ الطاف حسین کے حوالے سے صورت حال مزید سنگین ہو گئی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے تقاریر میں وہ فوج اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے لئے جو زبان اور کلمات استعمال کر رہے ہیـں وہ افواج پاکستان کے لئے کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہوسکتے۔ ان حالات میں سندھ کو آئین کے آرٹیکل 245کے تحت افواج پاکستان کے حوالے کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ آئین میں ایسے آرٹیکلز موجود ہیں جن سے ان تمام مشکلات کا حل نکالا جا سکتا ہے، صرف عزم و ارادہ اور نیت کا فقدان ہے۔ اب وزیر اعظم نواز شریف کو اپنے ارد گرد کرپٹ ماحول اور کرپشن زدہ حکومتوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور وفاقی حکومت کے درمیان ذاتی مفادات کے تحت ہونے والے خفیہ معاہدے کے بارے میں انکشاف کر کے پارلیمانی نظام پر ناکامی کی مہر ثبت کر دی ہے۔ اس وقت وفاقی حکومت میڈیا، پولیس اور اپوزیشن کے سہارے چل رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں