"KDC" (space) message & send to 7575

جوہری صلاحیت محدود کرنے کی سازش

بعض امریکی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق اعلیٰ امریکی حلقے اس کوشش میں ہیں کہ پاکستان کے سیاست دان اور اشرافیہ ملک کی ایٹمی صلاحیت کو ایران کی طرز پر محدود کرنے پر رضامند ہو جائیں گے۔ اگرچہ یہ خبر ابھی بہت واضح نہیں، مگر اس پر کام ہو رہا ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان پر دن بدن بڑھتے ہوئے قرضے، مستقبل میں اس کے لئے مشکلات پیدا کر دیں گے۔ ایران نے اپنے جوہری پروگرام کی قیمت پر عالمی پابندیوںسے نجات حاصل کی، لیکن مالی معیشت بہتر ہونے کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان شدید ترین دہشت گردی کا شکارہے، اندرون ملک دہشت گردوں کے خلاف آپریشن زوروں پر ہے، مگر دہشت گردی اور کرپشن میں اضافے سے فیڈریشن کمزور ہو رہی ہے۔ اشرافیہ اور سیاستدان کھربوں روپے بیرون ممالک بھجوا رہے ہیں جس سے عام پاکستانیوں کی تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے سیاستدانوں اور اشرافیہ کو جمہوریت نے بے پناہ قوت دی ہے اور جمہوریت کا کردار ایک سہولت کار کا سا نظر آتا ہے۔ یہ جمہوریت عوام کے مفادات کو نظر انداز کر کے ملک کی آزادی و خود مختاری کو متاثر کر رہی ہے۔ جمہوری نظام کے سبب اختیارات چند کرپٹ سیاستدانوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہو کر رہ گئے ہیں اور وہ غیر ملکی مفادات کی زیادہ نگرانی کر تے نظر آتے ہیں۔ جوہری صلاحیت کو روبہ زوال کرنے کے لئے عالمی سازشی عناصر آئی ایم ایف کے قرضوں کی آڑ میں ملک کی معیشت کو کمزور سے کمزور تر کر رہے ہیں۔ ایک طرف آئی ایم ایف کے قرضے حاصل کرنے کے لئے ملک کے اہم ادارے فروخت کئے جا رہے ہیں اور دوسری طرف آئے دن اس کی طرف سے نئے مطالبات سامنے آ رہے ہیں۔ وہ ہمارے ملک میں ایسا سیاسی نظام لانا چاہتے ہیں جس کا اندازہ کرنا مشکل ہے، کوئی سیاسی رہنما موجود نہیں جو حکومت کو لگام ڈال سکے۔ پاکستان کے تمام مالیاتی اختیارات وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ہاتھ میں ہیں۔ بظاہر پاکستان کو بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر اسے ایران کی سطح پر لانے کی سازش ہو رہی ہے۔
امریکہ اور دوسری عالمی طاقتوں نے طویل مذاکرات کے بعد ایران میں اپنی خواہش کے مطابق انتخابات کے ذریعے قیادت تبدیل کرا دی اور نئی قیادت کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنی بقا اور عوام کے مفادات میں اپنی ایٹمی صلاحیت کو حد درجہ محدود کر دے۔ ایرانی حکومت نے اس معاملے پر طویل عرصہ غور و فکر بھی کیا مگر چونکہ عالمی پابندیوں کی وجہ سے ایران میں ترقی کا عمل محدود ہو رہا تھا۔ چنانچہ ایرانی قیادت نے متعدد شرائط پر عالمی سہولت کاروں سے مشاورت کی اور آخر کار ایک مناسب سودا کر لیا۔ اپنی ایٹمی صلاحیت محدود کر کے عالمی پابندیوں سے نجات حاصل کر لی۔ اب عالمی طاقتوں کی نظر یں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں۔ پاکستان چونکہ جمہوری ملک ہے، اس لئے اپنی پسند کی قیادت منتخب کرانے کے لئے انہوں نے یورپی یونین کے انتخابی سسٹم کو پیش رکھا۔ دوسری طرف پاکستان کی سول سوسائٹیز (این جی اوز) جن کو یورپی ممالک سے فنڈنگ ملک رہی ہے، کے ذریعے نام نہاد انتخابی سروے کروائے اور عوام کو یہ تاثردیا گیا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) مقبول ترین سیاسی جماعت ہے جبکہ تحریک انصاف دوسرے نمبر پر ہے۔ اس طرح مئی 2013ء کے انتخابات کے خدوخال مرتب کئے گئے اور 11 مئی 2013ء کی شب عالمی معیار کے انتخابی رزلٹ سسٹم کو مفلوج کرا دیا گیا۔
عالمی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے نیشنل ایکشن پلان کی راہ میں حائل رکاوٹیں ہمیشہ کے لئے دور کرنا ہوں گی۔ وفاقی حکومت کے اختیارات آئین میں متعین ہیں اور اس کے آرٹیکل 234 کے تحت مملکت کو کرپشن زدہ حکومتوں سے بچانے کے طریقے کی نشاندہی کر دی گئی ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف ساڑھے چار کھرب کی کرپشن کا الزام ہے جس سے مملکت کا مالیاتی ڈھانچہ لرز گیا ہے۔ اس وقت سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس زر مبادلہ کے جتنے ذخائر ہیں، ڈاکٹر عاصم کی کرپشن سے حاصل کی گئی رقوم اس کی ایک تہائی بنتی ہے۔
جنرل راحیل شریف کی وجہ سے وزیر اعظم نواز شریف اور آصف علی زرداری دباؤ محسوس کر رہے تھے۔ جنرل راحیل یقیناً حکومت کے لئے خطرہ نہ تھے، لیکن حکمران جماعت ان کی مقبولیت سے خائف تھی، اسے عوام کی طرف سے ان کی مقبولیت ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے مشاہد اللہ خان ، خواجہ آصف اورمحمد زبیر اور دوسرے لیڈر دبے لفظوں میں نامعلوم خدشات کی گردان کرتے سنائی دیتے تھے۔ ادھر سرکاری ٹیلی وژن کی تجربہ کار ٹیم نے سوچے سمجھے طریقہ کار کے مطابق جنرل راحیل کے ارد گرد میڈیا کا جال بچھا دیا تھا۔ نتیجتاً جنرل راحیل شریف نے آئندہ کے بارے میں اپنا عندیہ ظاہر کر دیا جس کے بعد حکمران جماعت کی سانسیں بحال ہو گئیں۔ لیکن واضح امکان ہے کہ عزیر بلوچ کی گرفتاری اور بیان کے بعد پیپلز پارٹی کے اہم رہنما گرفتار ہوں گے اور چند روز بعد پنجاب میں بھی گرفتاریاں شروع ہوں گی۔ ذرائع کے مطابق وفاق اور پنجاب کی تقریباً دس اہم شخصیات کو گرفتاری کا سامنا کرنا ہوگا۔
جنرل راحیل شریف کی طرف سے ریٹائرمنٹ کا قبل از وقت اعلان سول ملٹری تناؤ کی موجودگی بلکہ اس میں شدت کی علامت ہے۔ اور معاملہ یوں زیادہ خطرناک ہے کہ نام نہاد جمہوری نظام میں سرے سے کوئی اپوزیشن ہی نہیں۔ ایم کیو ایم، اے این پی، اختر مینگل کی بی این پی، فنکشنل مسلم لیگ اور جماعت اسلامی جیسی جماعتوں کے علاوہ تمام قومی جماعتیں بالواسطہ یا بلا واسطہ حکومت میں ہیں اور یہ سب عوام کی نظروں میں بے وقعت ہوتی جا رہی ہیں۔ سندھ اسمبلی شعر و شاعری کی بزم بن کر رہ گئی ہے اور وزیر اعلیٰ سندھ پیپلز پارٹی کے تابوت میں آخری کیل ٹھنکنے کے در پے ہیں ۔ ان حالات میں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے منافقت کا ایسا زہر گھول دیا ہے کہ سیاست اور منافقت یکجان ہو گئے ہیں۔ وطن عزیز کی حالت دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان وہ ماں ہے جس کا کوئی ہونہار بیٹا نہیں۔
پیپلز پارٹی اور نواز مسلم لیگ کے درمیان خلیج پیدا کرنے کے ذمہ دار وزیر اعظم نواز شریف اور آصف علی زرداری ہیں۔ چوہدری نثار علی خان پارٹی ڈسپلن کے تحت وزیر اعظم کے ایما پر کام کرنے کے پابند ہیں۔ فوج ، رینجرز اور سیاسی جماعتوں کے بارے میں وزیر اعظم نے ڈبل گیم کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے، شاید اسی لئے چوہدری نثار علی خان اب وزیر اعظم کے قریبی حلقوں میں شامل نہیں رہے۔ لیکن چوہدری نثار اب بھی شہباز شریف سے زیادہ قربت رکھتے ہیں۔ ادھر وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی کا حکومت اور فیصلہ سازی میں کلیدی کردار ہو گیا ہے۔ میڈیا اور حکمران جماعت کے حلقوں کے مطابق وہ چوہدری نثار علی خان کے لائحہ عمل کو زیادہ پسند نہیں کرتیں۔ ڈاکٹر عاصم حسین سے متعلق ڈبل گیم کی پالیسی بھی وزیر اعظم کی سطح پر کار فرما ہے۔ وفاقی حکومت کو خوف لاحق ہے کہ اگر سندھ میں آپریشن آگے بڑھا تو کہیں رینجرز کی کارروائیاں پنجاب تک اور احتساب کا دائرہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت تک نہ پہنچ جائے۔ لہٰذا وفاقی حکومت نے اس معاملے پر ڈبل گیم شروع کر دی ہے۔وزیراعظم نواز شریف کے اسی پالیسی کی زد میں آنے کا امکان ہے کیونکہ جنرل راحیل شریف ریاست کو مضبوط کرنے کا جوہری ارادہ رکھتے ہیں۔ ریاست کو بچانے کے لئے کچھ بھی کیا جاسکتا ہے۔ جمہوری حکومتیں عوام کی رائے معلوم کئے بغیر اٹھارویں ترمیم کے ذریعے آئین کی دو سو سے زائد شقیں تبدیل کرکے فیڈریشن اور ریاست کا جنازہ نکال چکی ہیں۔ مفاہمت، منافقت اور خاندانی مفادات کے بر عکس چند مہینوں میں ریاست کی تصویر ہی تبدیل ہونے والی ہے۔ دور اندیش اور صاحب بصیرت حضرت مولانا محمد بشیر فاروق قادری، سرپرست اعلیٰ سیلانی ویلفیئر انٹر نیشنل ٹرسٹ جو نوجوان عالم دین ہیں نے ایک ملاقات میں کہا کہ مایوسی کے اندھیروں میں امید کا چراغ روشن ہو گیا ہے۔ انہوں نے سرگوشی کے انداز میں کہا کہ قوم کو دل گرفتہ نہیں ہونا چاہئے، یہ حکمت عملی کا حصہ ہے، اب جنرل راحیل شریف کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں اور حقیقی احتساب کا وقت آن پہنچا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں