"KDC" (space) message & send to 7575

نجکاری کی سیاست: جمہوری بساط لپیٹی جا سکتی ہے!

پی آئی اے کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی پانچ رکنی وفد کا وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے مذاکرات پر اتفاق خوش آئند اقدام تھا۔ امید واثق ہے کہ وزیر اعلیٰ اپنی معاملہ فہمی سے مسئلے کو خوش اسلوبی سے طے کرا دیں گے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے چیئرمین سہیل بلوچ نے شراکت اور جزا و سزا کے جس نظام کی جانب اشارہ کیا ہے اسے آزمانا سود مند ہو سکتا ہے۔ ماضی میں صدر ایوب خان کی حکومت کے خلاف جاندار مہم چلانے میں قومی ایئرلائن کی یونین کے طفیل عباس کا اہم کردار تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کی ہمہ گیر تحریک میں بھی طفیل عباس، مزدور لیڈر کنیز فاطمہ اور مرزا ابراہیم نے بھرپور حصہ لیا تھا۔ اب ایسے رہنما ناپید ہو چکے ہیں۔ جزا و سزا کا نظام اپنانے کے لئے موجودہ رہنماؤں کو وہی طرز عمل اختیار کرنا پڑے گا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پی آئی اے کو خسارے سے نکال کر ماضی کی طرح ''باکمال لوگ لاجواب سفر‘‘ کا عملی نمونہ بنایا جائے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا 2013ء کا انتخابی منشور مرتب کرنے والی کمیٹی میں موجودہ صدر ممنون حسین کے علاوہ اسحاق ڈار، سرتاج عزیز، احسن اقبال، سردار ایاز صادق، پرویز رشید، خواجہ محمد آصف، خواجہ سعد رفیق، شاہد خاقان عباسی، خرم دستگیر، اسماعیل مفتاح، محمد زبیر، جنرل (ر) عبدالقیوم اور جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ شامل تھے‘ جنہوں نے پی آئی اے کو منافع بخش اور خطے کی ممتاز ایئرلائن بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ منشور میں کہا گیا تھا کہ پی آئی اے کی نجکاری نہ کرنے اور معیشت میں پائیدار بہتری لانے کی موثر حکمت عملی موجود ہے۔ لیکن اب خاندان اور دوستوں کے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لئے اس حکمت عملی سے یکسر انحراف کیا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کے ریمارکس سے پی آئی اے تصادم کی راہ پر آ کھڑی ہوئی۔ وزرا اور حکومت کے ترجمان بھی اس قومی مسئلہ کو حل کرنے کی راہ نکالنے کی بجائے ہڑتال کے کمر توڑ اثرات پر مبنی خطرناک صورتحال کی طرف لے جا رہے تھے۔ یہ تحریک اس انداز میں ابھرتی دکھائی دے رہی تھی جس طرح مارچ2007 ء میں چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کی معزولی کے بعد صدر پرویز مشرف کے خلاف ملک گیر صورت اختیار کر گئی تھی۔ ماضی میں حکمران خود جبر و تشدد کا شکار رہ چکے ہیں، مگر وہ اپنی جلاوطنی کے ایام سے سیکھنے کی بجائے منتقم مزاجی کی طرف مائل ہو گئے ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کی جارحانہ حکمت عملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پی آئی اے کی وہ یونین بھی احتجاج میں شامل ہو گئی جو پہلے حکومت سے مفاہمت پر آمادہ تھی۔ پی آئی اے کے چیئرمین ملازمین سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے مستعفی ہو چکے ہیں۔ جب کوئی حکومت دھمکیوں اور پرتشدد کارروائیوں سے احتجاج کو روکنے کی کوشش کرتی ہے تو اپنی حکومت کی دستبرداری سے دوچار ہو جاتی ہے۔ ماضی میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو اور پرویز مشرف انہی طور طریقوں کی وجہ سے منظر سے غائب ہوئے تھے۔
وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندانی دوستوں کی نگاہیں نیو یارک، پیرس اور لندن میں پی آئی اے کے ان فور سٹار ہوٹلوں پر ہیں‘ جو صدر ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی حکومتوں نے خریدے تھے۔ یہ پرشکوہ عمارتیں اربوں ڈالرز کا قیمتی سرمایہ ہیں جن کی فروخت سے آئی ایم ایف کا قرضہ یکمشت ادا کیا جا سکتا ہے۔ یہ عمارتیں ہمیشہ نیلام ہونے کی افواہوں کی زد میں رہتی ہیں۔ نیو یارک میں روز ویلٹ ہوٹل کی دوسری منزل پر شاہ خرچ حکمرانوں کی امریکہ آمد کے موقع پر سرکاری وفود کی سرگرمیاں ہوتیں ہیں۔ اسی ہوٹل کے بارے میں میاں نواز شریف نے کہا تھا کہ اقتدار میں آکر وہ پی آئی اے کا خسارہ نیو یارک کا یہ ہوٹل فروخت کر کے پورا کریں گے۔ آج پاکستان پر دو خاندان اور ان کے ہمنوا حکومت کر رہے ہیں۔ ان کے گھرانے کے افراد نے 99 فیصد پاکستانیوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ پی آئی اے کے سابق چیئرمین شہزادہ احسن اختر شیخ نے‘ جو نگران حکومت میں وفاقی وزیر صنعت وکیبنٹ ڈویژن تھے، ایک نجی ٹیلی وژن کے پروگرام میں اشارہ دیا تھا کہ 2012ء میں حسین نواز نیویارک ہوٹل میں دلچسپی رکھتے تھے۔
حکومت نے قومی اسمبلی میں جس طرح اپوزیشن کو سنے بغیر بل منظور کروایا وہ انتہائی نامناسب تھا۔ حکومت نے اب نئی فضائی کمپنی بنانے اور پی آئی اے کے معاملے کو بظاہر معلق چھوڑ دینے کی جو حکمت عملی اپنائی ہے وہ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچ بچار کا نتیجہ نظر نہیں آتی۔ پی آئی اے کے بارے میں وزیر اعظم نواز شریف کے ریمارکس اس بات کی غمازی کر رہے ہیـں کہ پی آئی اے کا سودا ہو چکا ہے۔ ان حالات میں وزیر اعظم کو یہ حقیقت ملحوظ رکھنی چاہئے کہ ان کے جارحانہ رویے سے پاکستان عدم استحکام سے دوچار ہو سکتا ہے۔ پھر یہ بھی نہیں معلوم کہ پی آئی اے کے 26 فیصد حصص کس قیمت پر، کس بھارتی ذہن رکھنے والے سرمایہ کار کو فروخت کئے جا رہے ہیں کیونکہ بھارت، دبئی اور لبنان میں اپنی سرمایہ کاری پاکستان کے سرمایہ کاروں کی اوٹ میں کر رہا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے کئی سابق حکومتی وزرا بھی انڈین ملٹی نیشنل کارپوریشنوں میں مالیاتی مشیر اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے ان کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔
میرے خیال میں سپریم کور ٹ کو از خود نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کو توہین عدالت کرنے پر طلب کرنا چاہئے۔ بقول سپریم کورٹ کے ایک معزز جج کے وزیر اعظم کو بلایا تو واپس دفتر نہیں جا سکیں گے، اڈیالہ جیل میں بہت گنجائش ہے۔ حکومت جس انداز میں نجکاری کر رہی ہے، اس کو نجکاری کا نام نہیں دیا جا سکتا کیونکہ نجکاری میں حکومت ہی مالک رہتی ہے۔ پاکستان کی قومی ایئرلائن پر پاکستان کے بھارتی نواز سرمایہ کار قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح پاکستان کی دفاعی لائن کی شہ رگ پر بھارتی نواز سرمایہ کار قابض ہو جائیں گے۔ ان حالات میں جنرل راحیل شریف کو چاہئے کہ وہ پی آئی کو نیشنل ایکشن پلان کے ایجنڈے میں شامل کر لیں اور پاکستان کے اس انتہائی حساس ادارے کی از سر نو تعمیر کریں۔ باکمال حکمران مصنوعی خسارہ پیدا کر کے نجی ایئرلائن بنانے کی گنجائش پیدا کر رہے ہیں۔ اس سے ایک نیا تنازع کھڑا ہو جائے گا اور صورت حال مزید خراب ہو جائے گی۔ جس بیوروکریٹ نے نئی ایئرلائن کی تجویز دی ہے وہ وزیر اعظم نواز شریف کو 12 اکتوبر 1999ء کی نہج پر لے جانا چاہتا ہے۔ پی آئی اے کے تین ملازموں کی قیمتی جانیں ضائع ہونے کے بعد یہ معاملہ مزید پُراسرار صورت اختیار کر گیا ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کی تحقیقات سے جو کچھ حاصل ہوا ہے اس کے مطابق چار ملزمان کی نشاندہی ہو گئی ہے۔ انہیں گرفتار بھی کر لیا گیا ہے۔ اس میں پیپلز پارٹی سے وابستہ پیپلز یونٹی کے رہنماؤں کی حراست کا تعلق بھی مذکورہ واقعہ سے بتایا جا رہا ہے اور ان میں سے ایک کو اپوزیشن رہنما کا نہایت قریبی بتایا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں نئی ایئرلائن کی تجویز مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ کچھ نادان بیوروکریٹس نے نئی ایئرلائن کے نام پاکستان ایئرویز اور نیشنل ایئرلائن تجویز کئے ہیں۔ انہوں نے موجودہ حکومت کا چراغ گل کرنے کی راہ ہموار کر دی ہے کیونکہ پی آئی اے کے 19 ہزار ورکرز جن کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں سے ہے، وہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے اور ایسی افراتفری پھیلے گی کہ پاک چائنہ اقتصادی راہداری پس منظر میں چلی جائے گی۔ 
طویل عرصے سے آتش فشاں کی طرح دہکتا ہوا ملک جنرل راحیل شریف کی حکمت عملی کے سبب دنیا کی نظر میں ایک محفوظ، طاقتور ملک کا روپ اختیار کرنے جا رہا ہے۔ اگر جنرل راحیل شریف نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہوتی تو وہ وزیر اعظم نواز شریف کی ہر قومی معاملے میں پوری ایمانداری کے ساتھ تعاون نہ کرتے بلکہ انہیں کسی گہری کھائی میں گرنے دیتے۔ وزیر اعظم کا ایک ذرا سا غلط قدم ملک کو تباہی کی کسی گہری خندق میں پھینک سکتا ہے۔ ان حالات میں وزیر اعظم کو میڈیا مینجمنٹ کی پُراسرار سرگرمیوں پر نگاہ رکھنی چاہئے کیونکہ اس سیل میں ایسے ایسے ماہر رکھے گئے ہیں جنہوں نے نواز شریف کو 12 اکتوبر 1999ء تک پہنچا دیا تھا‘ اور میاں محمد شریف مرحوم نے 15 اکتوبر 1999ء کے اخباری انٹرویو میں ان اشخاص کے نام بھی ظاہر کر دیے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں