"KDC" (space) message & send to 7575

حکومت مردم شماری کے نتائج سے خوفزدہ کیوں؟

پاکستان میں مردم شماری کا معاملہ موجودہ حکومت کی روش کی وجہ سے انتہائی حساس نوعیت کی طرف جاتے دکھائی دے رہا ہے۔ جنوبی پنجاب، کراچی اور سندھ میں لسانی و قومی گروہ اپنی آبادی زیادہ ظاہر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور بلوچستان میں کچھ گروہوںکو اقلیت میں تبدیل ہونے کا خدشہ ہے۔ ماضی میں بھی مردم شماری کے عمل میں کچھ حلقے اثر انداز ہوتے رہے۔ اب امن و امان کی صورت حال بظاہر بہتر نظر آ رہی ہے تو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی خواب غفلت سے جاگ اٹھے ہیں اور مردم شماری مارچ میں شروع کرانے کے لئے افواج پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اگر آئین کے مطابق ہر دس سال بعد مردم شماری کروائی جاتی تو آج شاید یہ معاملہ اتنا حساسیت اختیار نہ کرتا۔ مردم شماری کی باقاعدہ آئینی طور پر مشترکہ مفادات کونسل سے منظوری لی جانی چاہئے تھی لیکن یہ دوسال سے سوئی ہوئی ہے۔
برٹش انڈیا میں 1931,ء 1921 ,ء, 1911 ء اور 1941 ء کی مردم شماری کے دوران مسلم قومیت نے اس کی اہمیت پر زیادہ سوچ بچار نہ کی اور کانگرس کے ایما پر ہندو دانشوروں اور سیاسی ذہن کے شاطر ہندوؤں نے مسلمانوں کی آبادی کم ظاہر کی اور ان کی تعداد کے بارے میں غلط اعداد و شمار سرکاری ریکارڈ میں دکھائے گئے، خاص طور پر متحدہ پنجاب میں دانستہ طور پر مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازشیں کی گئیں۔ جتنی بھی مردم شماریاں ہوئیں وہ حقائق کے بر عکس تھیں۔ اسی طرح متحدہ بنگال میں بھی آسام اور سلہٹ میں مسلمانوں کی تعداد کے بارے میں غلط حقائق پیش کئے گئے جس کے نتیجے میں پنجاب کی تقسیم کی گئی اور آسام کو مشرقی بنگال میں شامل نہیں کیا گیا اور وہاں نام نہاد ریفرنڈم کے ذریعے سلہٹ کو بھی تقسیم کروا دیا گیا۔
اسی طرح1951ء ،1961ء ، 1972 ء اور1982 ء کے برسوں میں جو مردم شماریاں کروائی گئیں ان میں بڑی بے قاعدگیاں ہوئیں اور اعداد و شمار حکومتوں کی خواہش کے مطابق مرتب کئے گئے۔1951ء کی مردم شماری میں پنجاب میں ممتاز دولتانہ اور گورنر جنرل غلام محمدکی مداخلت سے آبادی کے تناسب میں گڑ بڑ کروائی گئی۔ اس طرح ان چاروں مردم شماریوں میں مختلف زبانیں بولنے والوں کے تناسب میں انتہائی غیر منطقی کمی بیشی دکھائی گئی۔ جنوبی پنجاب میں راجن پور، ڈیرہ غازی خان، لیہ، ملتان، رحیم یارخان، شجاع آباد اور خان پورکے علاقوں میں جو آباد کار مغربی پنجاب سے آبادی کے تبادلہ کے نتیجے اور لیاقت نہرو معاہدے کے تحت آئے تھے ان کی تعداد کو کم دکھایا گیا اور مردم شماری کے فارم سے ان کی مادری زبان کے بارے میں بھی خانہ حذف کر کے ان کو پنجابی ہی ظاہر کیا گیا۔ بادی النظر میں تو متحدہ پنجاب سے مغربی پنجاب آنے والے مسلمانوں کو پنجابی ہی تصور کیا جاتا رہا حالانکہ ان کی اکثریت کی مادری زبان ہریانوی ہے۔
ان تمام قباحتوں کے باوجود یہ مردم شماریاں متنازعہ نہیں ہوئیںکیونکہ آئین کے مطابق یہ عمل جاری رہا اور اس کی اہم وجہ یہ بھی رہی کہ ان مردم شماریوں کے عرصے میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا وجود برائے نام ہی تھا اور ملک میں مارشل لا کی وجہ سے سیاسی رہنماؤں کی زیادہ توجہ بنیادی حقوق کی بحالی کی طرف ہی مبذول رہی اور صدارتی اور پارلیمانی نظام حکومت ہی زیر بحث رہے۔ 1981ء کی مردم شماری بلوچستان اور کراچی کے حوالے سے متنازعہ رہی۔ 1981ء کی مردم شماری کے دوران راقم الحروف کو بلوچستان میں الیکشن کمشنر کی حیثیت سے مردم شماری کی ساری کارروائی بہت نزدیک سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اگرچہ مردم شماری سے الیکشن کمیشن کا تعلق نہیں رہا لیکن بلوچستان کے محکمہ مردم شماری کے حکام سے ذاتی طور پر میرا تعلق رہا تھا۔ ان کے ذریعے معلوم ہوا کہ بلوچستان کی آبادی کو جب حقائق کے مطابق ظاہر کیا گیا تو اس کے ڈرافٹ کو دیکھتے ہوئے گورنر بلوچستان اور چیف سیکرٹری بلوچستان سلیم عباس جیلانی چونک پڑے اور جب تمام ڈرافٹ دستاویزات صدر ضیاء الحق کو پیش کئے گئے تو بقول حکام (مردم شماری) ان کی خواہش پر بلوچستان کی آبادی میں خاطر خواہ اضافہ کرا دیا گیا تاکہ عالمی فنانشل اداروں سے مالی فوائد حاصل کئے جا سکیں۔ اسی طرح کراچی میں مہاجر کمیونٹی کی تعداد حقائق
سے کم دکھائی گئی۔ غیر سرکاری ریکارڈ میں اس وقت کراچی کی آبادی غالباً اسی لاکھ کے لگ بھگ تھی جسے پچاس لاکھ کے قریب دکھایا گیا۔ پھر 1998ء میں چونکہ آرمی کی نگرانی میں مردم شماری کروائی گئی، اعداد و شمار میں زیادہ چھیڑ خانی نہیں کروائی جا سکی۔اس وقت وزیر داخلہ چوہدری شجاعت حسین تھے، انہوں نے ہی نادرا کی بنیاد رکھی تھی اور نادرا کا فارم بین الاقوامی معیار کے مطابق تھا۔ نادرا کے فارم میں ایسے سوالنامے مرتب کئے گئے تھے جن کی رو سے جعل سازی کا عنصر نہ ہونے کے برابر تھا۔ بلوچستان کے پشتون حلقوں میں یہ فارم ناپسندیدگی سے دیکھے گئے چنانچہ مقامات پر یہ فارم نذر آتش کئے گئے اور ریکارڈ تلف بھی کروایا گیا۔ بہر حال حالات کنٹرول میں رہے، اس لئے 1998ء کی مردم شماری میں تمام شفافیت کے باوجود بہت سے اعداد و شمار غیر منطقی رہے۔
ان تمام مردم شماریوں کی بدولت منصوبہ ساز اداروں کو آبادی اور اس کے حقیقی مسائل کے بارے میں اعداد و شمار میسر تھے۔ اب اٹھارہ سال کا طویل عرصہ گزر گیا ہے لیکن ہم ابھی تک مردم شماری کے بارے میں خوف میں مبتلا ہیں اور اپنے اپنے اضلاع کی نشستوں کی فکر میں مردم شماری نہ کروانے کے لئے انتہائی بد نیتی سے2011ء میں شماریات ایکٹ میں ترمیم کر کے دس سال میں مردم شماری کرانے کی پابندی ختم کرا دی ہے۔ یہ بات اور زیادہ تشویشناک ہے کیونکہ اب مردم شماری آئینی ضرورت کے تحت نہیں بلکہ کسی بھی حکومت کی وقتی سیاسی ضرورت کے تحت ہوگی۔ بطور اپوزیشن لیڈر نواز شریف نے بھی اس ایکٹ کے خلاف مزاحمت اس لئے نہیں کی کہ انہیں جنوبی پنجاب صوبہ بنتے دکھائی دے رہا تھا اور یوسف رضا گیلانی کی حکومت نے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے لئے پنجاب اسمبلی سے قرار داد بھی منظورکروالی تھی۔ اگر 2011ء میں مردم شماری کا انعقاد ہو جاتا تو 2013 ء کے انتخابات سے پہلے جنوبی پنجاب کو صوبے کا درجہ لازمی حاصل ہو جاتا کیونکہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مشترکہ صوبائی کمیشن کی سر براہی سینیٹر فرحت اللہ بابر کو مل چکی تھی اور وہ جنوبی پنجاب کے صوبے کے لئے تمام آئینی و قانونی پیش رفت مکمل کر چکے تھے۔ راقم الحروف نے مشترکہ صوبائی کمیشن میں صوبہ پنجاب کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم کے بارے میں آئین و قانون کے مطابق فارمولہ بھی پیش کر دیا تھا جسے کمیشن کے سربراہ (فرحت اللہ بابر) نے زمینی حقائق کے عین مطابق قرار دیا تھا۔ جنوبی پنجاب کے مجوزہ صوبہ میں چونکہ بہاول پور بھی شامل تھا اور شہباز شریف کی حکومت سیاسی دباؤ کا شکار تھی، لیکن بعد ازاں یوسف رضا گیلانی کو اس لئے بھی عدالت کے ذریعے نااہل قرار دلوایا گیا کہ صدر زرداری یوسف رضا گیلانی کے تجویز کردہ صوبے کی تحریک کے خلاف تھے اور اس کے اثرات سندھ اور صوبہ خیبر پختونخوا پر پڑنے کے قوی امکانات تھے۔ مستقبل میں اسی لائن آف ایکشن کے تحت سندھ کی تقسیم بھی ناگزیر ہو جاتی اور ہزارہ صوبہ بنانے کی راہ بھی ہموار ہو جاتی۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں