"KDC" (space) message & send to 7575

حکومت مردم شماری کے نتائج سے خوفزدہ کیوں؟ ( آخری حصہ)

مردم شماری میں جتنی تاخیر ہو گی، یہ معاملہ سیاسی طور پر اتنا ہی زیادہ حساس اور متنازع بنتا جائے گا۔ اس قومی فریضے سے عدم دلچسپی پاکستان کے لئے معاشی اور سیاسی طور پر انتہائی نقصان دہ ہو گی۔ سیاسی اور ذاتی تنازعات کی وجہ سے مردم شماری کو مؤخر کرنا قومی مفاد میں نہیں۔ تنازعات ختم کرنے کے لئے مردم شماری کا انتہائی شفاف اور فول پروف طریقہ کار وضع کیا جا سکتا ہے اور اس امر کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ کچھ سیاسی جماعتیں اور مقامی سیاسی گروہ مردم و خانہ شماری پر اثر انداز نہ ہوں، جیسے 2010ء میں خانہ شماری میں ہوئے اور یہ مشق بے کار چلی گئی؛ حالانکہ خانہ شماری کے عمل میں الیکشن کمیشن آف پاکستان اور مردم شماری کے محکمہ میں مکمل ہم آہنگی تھی‘ اور الیکشن کمیشن نے انتہائی شفافیت سے یہ عمل اپنی نگرانی میں کروایا تھا۔
پاکستان کو اب پہلی مرتبہ درست اور شفاف مردم شماری کروانا پڑے گی۔ اس بات کی پروا نہ کی جائے کہ سابق مردم شماریوں کے اعداد و شمار غلط ثابت نہ ہوں۔ جس کی جتنی آبادی ہے، اسے تسلیم کرنا پڑے گا۔ لیکن بادی النظر میں ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ حکومت کی کوشش ہو گی کہ جن اضلاع میں ان کے مخالف گروہوں کو برتری حاصل ہے، وہاں آبادی کو مخصوص طریقوں سے نظر انداز کرا دیا جائے، نادرا کے شناختی کارڈ سے فائدہ اٹھایا جائے اور مستقل پتہ اور موجودہ پتہ کی آڑ میں آبادیوں میں رد و بدل کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ چونکہ مخالف سیاسی جماعتوں کا انتظامی ڈھانچہ موجود نہیں، ان کے ہاں ریسرچ اور تھنک ٹینک کی سہولت موجود نہیں جبکہ ان کے سیاسی رہنمائوں کو ٹیلی وژن کے ٹاک شوز سے ہی فرصت نہیں ملتی، لہٰذا حکمران جماعت اپنے وسائل سے بھرپور فوائد حاصل کرنے کے لئے سرگرم ہے اور اس نے مردم و خانہ شماری کی نگرانی کے لئے مردم شماری کمیشن میں اپنے پسندیدہ اشخاص کا تقرر کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔
بھارت میں 2011ء میں قومی مردم شماری ہوئی جس میں سابقہ مردم شماری کے مقابلے میں ہندؤوں کی آبادی 0.7 فیصد کم ہو کر کل آبادی کا 79.8 فیصد رہ گئی جبکہ مسلمانوں کی آبادی 0.8 فیصد بڑھ گئی اور وہ کل آبادی کا 14.2 فیصد ہو گئے۔ یہ بات بھارتی سرکار کے لئے صدمے کا باعث ضرور ہو گی لیکن مردم شماری ہوئی اور اسی کے مطابق گزٹ نوٹی فکیشن جاری کر دیا گیا۔ کوئی بھی ملک اس کام کو غیر ضروری سمجھ کر مؤخر نہیں کرتا جبکہ پاکستان کے ہر آئینی و قانونی ادارے میں ذاتی مفادات کے پیش نظر نقب زنی ہو چکی ہے۔ اس پس منظر میں انتخابی اصلاحات کمیٹی انتہائی سست روی سے کام کر رہی ہے۔ پاکستان میں عوام کو حقائق سے آگاہ کر دیا جائے اور انہیں ان حقائق کو تسلیم کرنے کے لئے آمادہ کیا جائے تو بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ اس کے بر عکس حکمران جماعت کو باور کرایا جا رہا ہے کہ مردم شماری کے نتیجے میں لسانی بنیادوں پر پنجاب تقسیم ہو جائے گا؛ حالانکہ حقیقت میں ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ بھارت میں مردم شماری کے نتائج کو مد نظر رکھتے ہوئے صوبے بنائے جاتے ہیں۔ آزادی کے وقت گیارہ صوبے تھے اور اب وہاں تقریباً 32 ریاستیں یا صوبے ہیں۔ پاکستان میں اب صوبے بنانے کی تمام تحاریک صرف کالموں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں، عملی طور پر کوئی نیا صوبہ بنانے کا وقت نکل چکا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں برطانوی ہند کی بنیاد پر تقسیم کا فارمولہ طے ہوا۔ بھارت میں ساڑھے چھ سو سے زائد ریاستیں تھیں جہاں نیم صوبائی خود مختاری کے تحت حکمرانی ہوتی تھی، ان کے رقبہ جات کو علیحدہ رکھا گیا۔ پاکستان کا رقبہ 16 دسمبر 1971ء تک تین لاکھ 54 ہزار مربع میل تھا جبکہ 15 اگست 1947ء کو برطانوی ہند کے تحت بھارت کا رقبہ نو لاکھ مربع میل تھا۔
یورپی ممالک میں ہر دس سال بعد مردم شماری میں حیرت انگیز حد تک آبادیوں کے تناسب بدل جاتے ہیں۔ وہاں مسلمانوں کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، لیکن وہ اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں۔ مردم شماری پر اثر انداز ہونے والے سیاسی رہنماؤں کو روکنا ہوگا کیونکہ وہ پاکستان کی ترقی کو روکنا چاہتے ہیں۔ 
سابق صدر زرداری اور موجودہ حکومت میں بعض مفاد پرست بیوروکریٹس یہ تجویز دے رہے تھے کہ پاکستان میں قومی مردم شماری سیاسی حساسیت کی وجہ سے ایک مشکل مشق ہے۔کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ ، جنوبی پنجاب اور بلوچستان میں پختون بیلٹ کی جانب سے مزاحمت کا خطرہ ہے اور بلوچ ایریا میں سیاسی جماعتیں پاک چائنہ اقتصادی راہداری سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لئے اپنی آبادی میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ظاہر کرنے کے لئے دباؤ ڈالے گی، لہٰذا دیگر اعداد و شمار پر انحصار کیا جائے۔ ان کے منصوبے کے مطابق مختلف ادارے جو سروے کرتے ہیں، ان کے اعداد و شمار کو تسلیم کر لیا جائے۔ یہ تجویز کسی بھی طرح معقول قرار نہیں دی جا سکتی کیونکہ یہ قانونی تقاضے پوری نہیں کرتی۔ بہرحال اب حکومت نے مارچ میں مردم و خانہ شماری کرانے کا مصمم ارادہ کر لیا ہے اور چونکہ حکمت عملی بظاہر ناقص نظر آ رہی ہے، اس لئے سندھ اور دیگر صوبوں میں شدید مزاحمت کے امکانات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔
مردم شماری کی بنیاد پر اہم ترین آئینی حقوق کی تقسیم ہوتی ہے۔ مردم شماری کے بعد ہی صوبوں میں وسائل کی تقسیم کا منصفانہ فارمولہ طے ہوتا ہے۔ مردم شماری کو انتہائی شفاف بنانے کے لئے تقریباً پونے چار لاکھ آرمی کے نوجوانوں کی خدمات درکار ہوںگی جو ملک بھر کے ایک لاکھ ستر ہزار شماریاتی بلاک کو تحفظ فراہم کریں گے۔ مردم شماری کے نتائج کو غیر متنازعہ بنانے کے لئے شماریات کے ڈویژن میں شفافیت کا ہونا ملکی مفاد کے لئے ضروری ہے، بصورت دیگر مردم شماری کے فارموں میں ردوبدل کا اندیشہ لاحق رہے گا۔ اس ایک لاکھ ستر ہزار شماریاتی بلاکوں کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئندہ کے انتخابات کے لئے حلقہ بندیاں شروع کرانی ہیں۔ حلقہ بندیوں کے عمل کو شفاف بنانے کے لئے صوبائی حکومتوں کے ریونیو ڈیپارٹمنٹس کو ان دیہی آبادیوں کو‘ جو اب شہری علاقوں میں شامل ہو چکی ہیں‘ اس کا نوٹیفکیشن کرنا ہوگا تاکہ شماریاتی بلاکوں کے مطابق ان کو شہری علاقے تصور کیا جائے۔ جونہی مردم شماری کا شیڈول جاری ہو جائے، دیہی آبادیوں کو شہری یونٹس میں شامل کرنے کی قانونی ممانعت کرنا ہوگی۔ مثال کے طور پر لاہور میں اب دیہی علاقوں کا تصور ختم ہو چکا ہے، اس شہر کی قومی اسمبلی کی 13 نشستوں میں لا محالہ اضافہ ہو جائے گا اور ایک اندازہ کے مطابق لاہور کی قومی اسمبلی کی نشستیں پندرہ ہو جائیں گی۔ ممکنہ طور پر شیخوپورہ اور قصور سے ایک ایک نشست لاہور کو تفویض کرنا ہو گی۔
نیشنل پارٹی کے سربراہ سینیٹر حاصل خان برنجو نے بلوچستان سے غیر ملکی باشندوں کے انخلا سے قبل مردم شماری کرانے کی مخالفت کرتے ہوئے بلوچستان اسمبلی میں قرار داد لانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ بقول ان کے بلوچستان میں بڑی تعداد میں افغان، ازبک، تاجک اور ہزارہ غیر قانونی طور پر مقیم ہیں اور ان میں سے اکثریت نے نادرا کی ملی بھگت سے جعلی شناختی کارڈ بھی بنوا لئے ہیں۔ ایسے نازک ترین حالات میں ان خدشات کو دور کئے بغیر مردم شماری کرائی گئی تو ریاست کو بد ترین بد امنی کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے، اس لئے حکومت زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرے۔ اسی تناظر میں وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے سندھ میں مردم شماری کو زندگی اور موت کے مسئلے سے تشبیہ دی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ بھی مردم شماری کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے مستقبل کی وزارت اعلیٰ پر نظریں جمائے ہوئے ہے کیونکہ دیہی آبادیوں کا وجود ختم ہو چکا ہے، شہری علاقوں کی حدود پھیل چکی ہیں جس کی وجہ سے سندھ اسمبلی کی دیہی نشستیں اب کراچی، حیدر آباد اور میرپور خاص میں شامل ہو جائیں گی اور متحدہ قومی موومنٹ کی صوبائی نشستیں 51 سے بڑھ کر 75 کے لگ بھگ ہو جانے کا قوی امکان ہے۔
ان تمام خدشات کے ازالے کے لئے وفاقی حکومت کو مردم شماری کی منظوری مشترکہ مفادات کونسل کے ذریعے کرواکے اسے آئینی حیثیت دینی چاہئے۔ اس طرح تمام صوبائی حکومتوں کے تحفظات کا بھی ازالہ ہو جائے گا۔ دوسری صورت میں مردم شماری کے تنازع میں وفاق اور صوبائی حکومتوں کے مابین تصادم کا خطرہ لاحق رہے گا۔ افواج پاکستان کو بھی اپنی خدمات پیش کرتے وقت زمینی حقائق کو مد نظر رکھنا ہو گا۔(ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں