"KDC" (space) message & send to 7575

پارلیمنٹ کا وجوداورحکومت کا جارحانہ رویہ

جمہوری حکومتوں پر شخصی حکمرانی کی چھاپ ہمیشہ بڑی گہری رہی ہے ۔حکمران پارٹی اکثریت کے بل بوتے پر اپوزیشن کی کئی ایسی تجاویز اور تحریکوں کو اکثربلڈوز کردیتی ہے جن پر اگر پوری سنجیدگی سے عمل کیا جائے تو یہ ملک و قوم کے لئے زیادہ بہتر ہو۔دراصل ہمارے ہاں جمہوری اداروں کے قیام و استحکام کے تمام تر دعوؤں کے باوجود مشاورت کرنے اور مل جل کر آگے بڑھنے کی روائت نہیں؛چنانچہ ہمارے جمہوری اداروں میں مطلوبہ پختگی نہیں آ سکی نہ اس کے ثمرات ہی عوام تک پہنچ سکے ہیں۔ وزیر اعظم نے قومی اہمیت کے بعض بڑے بڑے فیصلے کرنے میں پارلیمنٹ اور اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ پاک چین اقتصادی راہداری ہو، یا قطر سے ایل این جی درآمد کرنے کا مسئلہ یا خفیہ راہ و رسم کے ذریعے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ذاتی رہائش گاہ پر یا ترا۔ انہوں نے قوم کو بیشتر مسئلوں پر اعتماد میں نہیں لیا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کبھی ایک صوبہ پاک چین اقتصادی راہداری کے کسی روٹ کے خلاف احتجاج کرتا ہے تو کبھی دوسرے صوبے کوشکائت پیدا ہو جاتی ہے تو کبھی تیسرا صوبہ منصوبے پر تنقید کے نشتر برسانے لگتا ہے۔ کوئی یہ سوچنا گوارا نہیں کرتا کہ چین 
اتنی بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے اس کے اپنے بھی مفادات ہیں اگر اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تو اس کے پاس متبادل راستے موجود ہیں ۔ یہی معاملہ ایل این جی کا ہے کہ اس کو بھی پارلیمنٹ میں لائے بغیر آخری شکل دے دی گئی اس کی خفیہ اور جلی تفصیلات کے بارے میں عوام تو درکنار خواص تک کو خبر نہیں، ملک میں گیس کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں ایران سے گیس کی درآمد پر تاحال قدغن اور تاپی گیس کے عملی شکل اختیار کرنے کی راہ میں افغانستان کی پُر اضطراب صورت حال حائل ہے ۔ان حالات میں قطر ایسے ممالک سے گیس درآمد کرنے کے سوا کوئی چارا نہیں، اگرچہ اس سے بھی ملک کی صرف بیس فیصد ضروریات ہی پوری ہونگی ، لیکن ان معاملات میں پارلیمنٹ سے مشاورت سے جس طرح گریز کیا گیا اس پر قومی اسمبلی اور سینیٹ نے بھی شدید احتجاج کیا نواز شریف کے قریبی دوست سید خورشید شاہ کوبھی مجبوراً پی آئی اے اثاثوں کی لوٹ سیل اور قیمتوں کی فہرستیں اسمبلی میں پیش کرنا پڑیں کہ کس طرح قیمتیں مارکیٹ کی قیمتوں سے حیران کن حد تک کم مقرر کی گئیں ۔ 
وہ بتاتے ہیں:نیو یارک کا فور سٹار ہوٹل پانچ کروڑ 93 لاکھ ڈالر دہلی کے پی آئی اے کے دفاتربیس کروڑ 41 لاکھ روپے میں فروخت کئے جائیں گے۔اسلام آباد پی آئی اے آفس کی قیمت صرف پانچ کروڑ روپے ، آئی الیون ویئر ہاؤس کی قیمت تین کروڑ 74 لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے، اس طرح پی آئی اے کے اثاثوں کی لوٹ مار، قومی ائیر لائن کے اندرون ملک اور بیرون ملک دفاتر اور تمام اثاثے کوڑیوں کے دام پر فروخت کی جو سازش کی جارہی ہے، تفصیلات کے مطابق راولپنڈی میں مال روڈ پر پی آئی اے آفس کی قیمت صرف تین کروڑ 21 لاکھ لگائی 
گئی ہے، گوادر میں سیلز آفس 52 لاکھ، ملتان میں پی آئی اے کے سیلز آفس کی قیمت پونے دو کروڑروپے مقرر کی گئی ہے۔ پی آئی اے مظفر آباد آفس 36 لاکھ میں پشاور آفس چھ کروڑ، سیدو شریف سوات آفس ایک کروڑ، سکردو آفس 70 لاکھ، تربت کا آفس صرف 31 لاکھ روپے میں فروخت کرنے کا منصوبہ ہے۔ آراے لینز کراچی میں پی آئی اے کے اندرونی سینٹر 31 لاکھ روپے میں جب کہ کار ساز کراچی میں ائیر کریو میڈیکل سینٹر پونے دو کروڑ روپے میں فروخت کیا جائے گا۔ لاہور میں پنجاب اسمبلی کے سامنے پی آئی اے دفتر کی قیمت صرف 14کروڑ روپے مقرر کی گئی ہے، فیصل آباد میں پی آئی اے آفس کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر کی گئی ہے حیدر آباد میں پی آئی اے کا سیلز آفس ساڑھے چھ کروڑ روپے میں بکنے والا ہے، اسی طرح نئی دہلی میں پی آئی اے کی قیمت بیس کروڑ مقرر کی گئی ہے، ممبئی میں پی آئی اے کی قیمت آٹھ کروڑ روپے مقرر کی گئی ہے، تاشقند میں پی آئی اے آفس کو 83 لاکھ روپے میں فروخت کیا جائے گا، نیدر لینڈ کے دارلحکومت امسٹرڈم میں پی آئی اے کے سیلز آفس کی قیمت انیس کروڑ روپے مقرر کی گئی ہے، امسٹرڈم میں پی آئی اے کے ایک اور آفس کی قیمت صرف ایک کروڑ مقرر کی گئی ہے، جب کہ تیسرے آفس کی قیمت پونے پانچ کروڑ رکھی گئی ہے، اسی طرح اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی جانب سے پیش کی گئی دوسری فہرست میں پی آئی اے کے اندرون اور بیرون ملک 41 دفاتر اور دیگر اثاثے دکھائے گئے ہیں جن کی قیمتیں بھی اسی طرح ہی حیران کن حد تک کم ہیں۔
پارلیمنٹ کا وجود موجودہ حکومت کی جارحانہ طور طریقوں سے خطرے کی زد میں ہے، اسی لئے چیئر مین سینیٹ میاں رضا ربانی کو کہنا پڑا کہ جب تین ماہ کے اندر مشترکہ مفادات کونسل بلائی جانا ضروری ہے تو پھر ایک آئینی تقاضے کی خلاف ورزیاں کیوں کی جا رہی ہے؟ اسی تناظر میں انہوں نے 15 دن کے اندر اندر مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا! حالات جس ڈگر پر جا رہے ہیں وہ صریحاً آئین کی مختلف دفعات کی خلاف ورزی ہیں۔ اپوزیشن اپنے مفادات میں ایسی گھری ہوئی ہے کہ ان کو قومی مفادات کے تحفظ کی فرصت ہی نہیں۔ غیر جمہوری سوچ رکھنے والوں نے پارلیمنٹ کا وقار مسخ کر دیا ہے ۔ حکومتی میڈیا پرسنز حالات کا یک طرفہ تجزیہ کر کے استدلالی سوچ کو پروان نہیں چڑھنے دے رہے۔ ملک آہستہ آہستہ تونس کی طرح آتش فشاں کی طرف جا رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں