"KDC" (space) message & send to 7575

میثاق جمہوریت سے دستبرداری

پنجاب اور اسلام آباد میں آزاد حیثیت سے کامیاب 2900 بلدیاتی نمائندے پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے جس کے بعد صوبے میں حکمران جماعت کے بلدیاتی نمائندوں کی تعداد چھ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ پنجاب میں گزشتہ برس مختلف مراحل میں بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے3200 امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی۔ دوسرے نمبر پر آزاد امیدوار تھے؛ تاہم ان میں سے 2900 منتخب نمائندے حکمران جماعت میں شامل ہو گئے جس کے بعد صوبے میں مسلم لیگ (ن) کے منتخب بلدیاتی نمائندوں کی تعداد چھ ہزار ایک سو ہوگئی۔ مسلم لیگ (ن) کو خواتین اور دیگر مخصوص نشستوں پر بھی فیصلہ کن اکثریت ہوگئی ہے۔ آزاد بلدیاتی نمائندوں کی حکمران جماعت میں شمولیت پر صوبائی وزراء کا موقف یہ ہے کہ ان کی حکمران جماعت میں شمولیت حکومتی پالیسیوں پر اطمنان کا ثبوت ہے، جبکہ جمہوری اصولوںکے اعتبار سے2900 نمائندوں نے اپنے اپنے حلقے کے ووٹرزکی خواہشات کے منافی اپنی ذاتی مفادات کے تحت حکمران جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ ان علاقوں کے ووٹرز نے حکمران جماعت کے امیدواروں کے مقابل ان کو اس لئے منتخب کیا تھا کہ انہیں حکومتی پالیسی سے اختلاف تھا،انہون نے حکمران جماعت کے کرپٹ امیدواروںکو ووٹ نہ دے کر حکومتی پالیسی پر عدم اعتماد کی مہر ثبت کر دی تھی۔ لیکن مفاد پرست آزاد امیدوار عوام کے جذبات و خواہشات کو پس پشت ڈال کر قبضہ گروپس کی صفوں میں شامل ہو گئے۔
پاکستان کے انتخابی نظام کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہو گی کہ حکمران جماعتوں نے,1997 2002 ئاور 2013ء کے انتخابات میں پندرہ فیصد کے لگ بھگ ووٹ حاصل کئے اور جمہوری آمریت کے سہارے ملک کو ستر ارب ڈالرکے قرضے میں پھنسا دیا۔ جب تک نظام درست نہیں کیا جائے گا عوام کو حقیقی جمہوریت کے ثمرات منتقل نہیں ہوںگے۔ کسی بھی ملک کی محض دو فیصد آبادی بھی سلامتی اور استحکام کے لئے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے، اگر وہ اپنے آپ کو سسٹم سے باہر سمجھتی ہو، لہٰذا عددی جمہوریت کے بجائے Inclusive جمہوریت، جس میں ہر فرد اور ہر گروپ کی آواز اور مفاد شامل ہو، کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔ ملک میں نیا سیاسی ماحول پروان چڑھتا نظر آ رہا ہے۔ حکمران جماعت اور اپوزیشن دونوں ہی احتساب سے فرار ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کو بتایا گیا تھا کہ نیب کی مداخلت کے باعث چند منصوبے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکیںگے۔ وزیر اعظم نے جو بات کی وہ ان کے اپنے انداز کے خلاف نظر آئی۔
1953ء میں امریکی امداد کے ساتھ دیہات سدھار سکیم کے نام سے''دیہی ترقی‘‘ کا جو پروگرام پاکستان میں متعارف کیا گیا تھا، وہ اس وقت دنیا میںدیہی ترقی کا دوسرا بڑا پروگرام تھا۔ اس میں دیہات کی اقتصادی و سماجی ترقی کے لئے یہ پہلا ایجنڈا دیا گیا کہ دیہات کی ترقیاتی سرگرمیوں میں پنچائت کی طرز پر دیہاتی بھائی بہنوں کی شرکت کو لازمی بنایا جائے گا۔ اس کے لئے امریکہ میں دیہی ترقی کی حکمت عملی ''کریسنٹ کلب‘‘ کی طرز پر ''چاند تارا‘‘ کلب بنائے گئے جس کے تحت دیہاتی افراد نیم دائرے میں بیٹھ جاتے، درمیان میں تارے کی جگہ مقامی لیڈر بیٹھتا۔ یہ سب اپنے مشترکہ مقامی مفادات، مسائل اور حل کی نشان دہی کرتے، اس کے مطابق ان سے تعاون کیا جاتا اور انہیں براہ راست ترقیاتی سرگرمیوں میں شامل کرنے کی کوشش کی جاتی۔ لیکن چند ماہ میں یہ پروگرام مشرقی اور مغربی پاکستان میں دیہاتی بھائیوں کے ہاتھوں سے نکل کر بیوروکریسی کے پنجوں میں آنے لگا۔ اس کے ایڈمنسٹریٹر بیورو کریٹ 
بننے لگے۔ اوپر سے نچلی سطح تک یہ منحوس سایہ ''دیہی ترقی‘‘ کے پروگرام پر چھا گیا جس میں دیہاتی غائب ہو گئے۔ غالباً 1956ء میں ملک معراج خالد بھی ایک اہل کار کے طور پر اس پروگرام کا حصہ تھے۔ محمد خان گورائیہ جو بعد میں قومی اسمبلی کے سیکرٹری رہے، اپنی سروس کا آغاز اسی ویلج ایڈ پروگرام سے کیا تھا۔ ملک معراج خالد دیہی مسائل کی روح سے واقف تھے۔ بعد ازاں انہوں نے ویلج ایڈ پروگرام سے استعفیٰ دے کر بنیادی جمہوریت کے انتخابات میں حصہ لیا اور نواب آف کالا باغ مرحوم کی سرپرستی میں مغربی پاکستان اسمبلی کے ممبر بھی منتخب ہوئے، فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے بہت قریب رہے، لیکن ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے 1969ء کے اوائل میں 'ضمیر کی آواز‘ نامی پمفلٹ شائع کرکے ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور پھر ان پر ترقی کی راہیں کھلتی گئیں۔ محمد خاں گورائیہ نے سرکاری وابستگی برقرار رکھی اور قومی اسمبلی کے سیکرٹری اور بعد ازاں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔
پاکستان میں غیر جمہوری اور شخصیت پرستی کا کلچر ہے۔ سیاسی جماعتوں کو ووٹ عام طور پر ان کے قائدین کے نام پر ملتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں خود جمہوری نہیں بنتیں، ان کے اندر جعلی انتخابات کروائے جاتے ہیں۔ تحریک انصاف چونکہ ایسی سیاسی جماعت ہے جس میں اندرونی انتخابات کروائے گئے، اس لئے اس میں کافی جمہوریت ہے۔ ہمارے ہاں یہ روایت بن گئی ہے کہ پارٹی جتنی کمزور ہوگی اتنی زیادہ جمہوری ہوگی جبکہ جس پارٹی میں جمہوریت کم ہوگی وہ اتنی مضبوط ہوگی۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے جنرل راحیل شریف کے بارے میں ذومعنی بیان جاری کیا۔ اس حربے کا مقصد وزیر اعظم نواز شریف کو دباؤ میں لانا تھا۔
آصف زرداری کے پراسرار بیان نے پیپلز پارٹی کو عمومی طور پر تمسخر کا نشانہ بنایا اور اس کیفیت نے اسے 2013 ء کے انتخابات میں شکست سے بھی بد تر مقام پر پہنچا دیا ہے۔ آصف علی زرداری کا بیان بادی النظر میں قومی مفاد پر مبنی تھا، اس میں کوئی متنازعہ مفہوم نہیں تھا، لیکن جب پیپلز پارٹی سے باہرکے لیڈروں کو پارٹی چلانے کی ذمہ داری دے دی جائے تو پھر اس کا شیرازہ بکھرنا حیرت انگیز نہیں ہوگا۔ پیپلز پارٹی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتی۔کم از کم ذوالفقار علی بھٹو کی غلطیوں کو ہی نہ دہرائے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے مولانا کوثر نیازی، نواب صادق قریشی، پیر علی محمد راشدی اور دیگر بااثر سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور صنعت کاروں کو پارٹی میں شامل کیا تو اس سے بھٹو کے 1970ء کے ساتھیوں پر پارٹی کے دروازے بند ہوگئے۔ مسٹر بھٹو کے فلسفے کے نظریاتی ورکرز جن میں پرویز رشید، پرویز خٹک، راجہ انور، معراج محمد خان، رانا مختار اور طارق عزیز شامل تھے، مولانا کوثر نیازی اور پیر علی محمد راشدی کی سازشوں کی وجہ سے پارٹی سے 
علیحدہ ہو گئے۔ خورشید حسن میر، جے۔اے رحیم، ڈاکٹر مبشر حسن اور حنیف رامے نے بھی جو پارٹی کے اثاثہ تھے، کنارہ کشی اختیار کر لی۔ جب بھٹو پر ابتلا آئی تو ان کے ساتھیوں نے ان سے لاتعلقی کا برملا اعلان کر کے ان کو تختہ دار تک پہنچا دیا۔ آصف علی زرداری نے بھی پارٹی کو منقسم کرا دیا۔ الیکشن قوانین کے تحت آصف زرداری دو پارٹیوں کے سربراہ نہیں بن سکتے۔ ان کو پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین کے عہدے سے دستبردار ہونا پڑے گا۔
آصف علی زرداری کی تضاد بیانی سے بھی کنفیوژن پیدا ہو رہا ہے۔ وہ فوج کو ضرب عضب میں کردار اور کراچی آپریشن کے حوالے سے سپورٹ کریں مگر اپنے رویے میں تواز ن رکھیں۔ آصف علی زرداری کو میثاق جمہوریت سے دستبراری کا اعلامیہ جاری کرنا پڑے گا۔ امریکی مفادات کو آگے بڑھانے کے لئے 14 مئی 2006ء کو محترمہ بینظیر بھٹو اور محترم نواز شریف کے درمیان میثاق جمہوریت پر دستخط کروائے گئے تھے اور اسی کے نتیجے میں 5 اکتوبر 2007ء کو این آر اوامریکی وزیر خارجہ کونڈالیزا رائس کی وساطت سے سامنے آیا تھا، گویا پاکستان کی جمہوری رٹ اسلام آباد سے واشنگٹن منتقل ہو گئی۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ عسکری قیادت نیشنل ایکشن پلان کو کامیابی سے آگے بڑھانے کے لئے میثاق جمہوریت کی تخلیق کرنے والے سیاسی کرداروں کی باقاعدہ تحقیق کرائے کیونکہ میثاق جمہوریت سے ہمارے ادارے اور سیاسی نظام کمزور سے کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔آصف زرداری کو احساس ہونا چاہیے کہ میثاق جمہوریت کی وجہ سے پنجاب کے پانچ کے ٹولے نے پیپلز پارٹی کو بند گلی میں کھڑا کر دیا ہے۔ اس سیاق وسباق کے پس منظر میں آصف زرداری کو میثاق جمہوریت سے دستبرداری کا اعلامیہ جاری کر کے پارٹی کو 1970ء کی پوزیشن پر لانا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں