"KDC" (space) message & send to 7575

راحیل شریف کو فائیو سٹار جنرل بنایا جائے!

سابق صدر پرویز مشرف نے 3 نومبر2007ء کو آئین کی جزوی معطلی، ہنگامی حالات کے نفاذ اور اعلیٰ عدلیہ کے خلاف اقدامات پر اپنے خلاف قائم کئے گئے آئین سے انحراف کے مقدمے میں یہ موقف اختیارکیا تھا کہ یہ فیصلہ کرنے میں وہ تنہا نہیں تھے بلکہ اس وقت کے وزیر اعظم، چیف جسٹس اور وفاقی وزیر قانون زاہد حامد بھی اس میں شریک تھے، لہٰذا مقدمے میں ان سب کو بھی شامل کیا جائے۔ چنانچہ مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے تین ججوں نے ان کا موقف تسلیم کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ شریک ملزمان کی حیثیت سے ان افراد کو شامل کیا جائے۔ ہو سکتا ہے مقدمے کی تکمیل میں تاخیر ہو لیکن اعانت جرم کے الزام کو دیکھتے ہوئے مرکزی ملزم کے ساتھ ان کے مشترکہ ٹرائل کی درخواست درست نظر آتی ہے۔ سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے خصوصی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ ایمرجنسی کے نفاذ کی دستاویزات پر صرف پرویز مشرف کے دستخط ہیں، اس لئے وفاق سابق صدر کو ایمرجنسی کے نفاذ کا تنہا ذمہ دار سمجھتا ہے جبکہ کسی کو شریک ملزم کی حیثیت سے شامل کرنے کا اختیار بھی وفاق ہی کا ہے، لہٰذا عدالت مقدمے میں کسی کو شریک ملزم کے طور پر شامل نہیں کر سکتی۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی روشنی میں اب خصوصی عدالت کو کسی رکاوٹ کے بغیر موقع فراہم ہو گیا ہے کہ وہ سابق صدر کے مقدمہ کا فیصلہ جولائی2016 ء سے پہلے سنا دے۔
دراصل سابق صدر پرویز مشرف کے وکلاء کو اپنے ڈیفنس میں جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو شامل نہیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ 3 نومبر2007ء کو ایمرجنسی کے نفاذ تک چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ہی چیف جسٹس آف پاکستان تھے اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے3 نومبر2007ء کی رات آٹھ بجے چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھایا تھا۔ راقم الحروف اس حلف برداری کی تقریب میں موجود تھا۔ اسی تقریب میں جسٹس فقیر محمد کھوکھر، جسٹس نواز عباسی، جسٹس جاوید بٹر نے بھی حلف اٹھایا تھا۔ اس موقع پر جنرل کیانی، جنرل احسان الحق، جنرل یوسف، اٹارنی جنرل ملک قیوم، وزیر اعظم شوکت عزیز اور سفارتی نمائندے بھی موجود تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے 3 نومبر کو جزوی طور پر آئین معطل کرنے کا جو راست قدم اٹھایا، اس کا پس منظر یہ تھا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے وفاقی حکومت کی رٹ کو منہدم کر کے تمام ادارے مفلوج کر دیئے تھے۔ ان کے از خود نوٹس کے تحت فیصلوں سے صدر پرویز مشرف اپنے اختیارات سے آہستہ آہستہ محروم ہوتے جا رہے تھے۔ اگر یہی حالات رہتے تو 2008ء کے انتخابات کے نتائج حکمران جماعت کے حق میں آنے کی صورت میں چیف جسٹس انتخابات کو کالعدم قرار دینے کے لئے آئینی راہ نکال لیتے۔ افتخار محمد چوہدری الیکشن کمیشن کو بھی یرغمال بنانے کے لئے پر تول رہے تھے۔ سپریم کورٹ نے 6 اکتوبر2007ء کے صدارتی انتخاب کے لئے بھی مشروط منظوری دی تھی۔ اب عسکری قوتوں کو پسپا کرنے کے لئے وفاقی حکومت کے طاقتور بیوروکریٹس جنرل پرویز مشرف کے خلاف مقدمے کے لئے سر گرم ہیں اور امکان ہے کہ اسی سال جولائی میں اس کا فیصلہ ہو جائے گا جس سے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عسکری قوت کو شدید دھچکا لگے گا۔
اسی پس منظر میں نیب31 مارچ تک میگا کرپشن کے کرداروں کوکیفر کردار تک پہنچانے کا عزم کئے ہوئے ہے۔ بلاشبہ کرپشن کا ناسور قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔ اگر پرویز مشرف کے بارے میں آئین کے آرٹیکل 6 کی باز گشت سنائی دے رہی ہے تو دوسری جانب امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کے مطابق گزشتہ برس پاکستان سے5 ارب ڈالر بھارت بھیجے گئے۔ اخبار نے ورلڈ بینک کے حوالے سے لکھا کہ پاکستان، بھارت کو زرمبادلہ بھیجنے والا چوتھا بڑا ملک بن گیا ہے۔ اس تشویشناک خبر کے ہر پہلو کا جائزہ لینا ہماری قومی ضرورت ہے۔ ہمارے مالیاتی اور خفیہ ادارے اپنی ذمہ داری فوری پوری کریں کیونکہ وال سٹریٹ جرنل اپنی رپورٹنگ میں غلطی اور مبالغے سے پاک ہونے کی شہرت کا حامل ہے۔ اس سے قبل کبھی ایسی بات سامنے نہیں آئی تھی کہ پاکستانی اتنی بڑی رقم قانونی یا غیر قانونی طور پر بھارت بھیجی ہو۔ پانچ ارب ڈالرجو 2015ء میں بھارت منتقل ہوئے، پر تبصرہ کرتے ہوئے ورلڈ بینک کے ماہر اقتصادیات دلیپ ریتھا کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں پراسراریت کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ بھارت کے مرکزی بینک کے مطابق 2015ء میں صرف دس لاکھ ڈالر قانونی طور پر پاکستان سے بھارت منتقل ہوئے۔ سرکاری ذرائع سے بھارت جانے والی یہ رقم پر بھی حیران کن ہے چہ جائیکہ پانچ ارب ڈالر بھارت منتقل ہونا۔ چیئر مین نیب اس منی لانڈرنگ کا مقدمہ کس کے خلاف درج کرائیںگے؟ یقیناً اس میں زیادہ تر وہ بزنس مین شامل ہوںگے جن کابھارت میں کاروبار ہے، کار خانے ہیں، دوسرے کسی کے پاس اتنا سرمایہ کہاں سے آ سکتا ہے۔ ممکن ہے کسی ایک ہی پاکستانی شخصیت نے اپنا سرمایہ سوئٹزر لینڈ سے بھارت منتقل کرا دیا ہو۔ گزشتہ تین سال میں پاکستانیوں نے چھ سات ارب ڈالر کی پراپرٹی دبئی میں خریدی ہے۔ پاکستان سے سرمایہ وہاں سمگل ہوتا رہتا ہے، ایان علی جیسی ماڈل گرلزگرفتار ہوتی رہتی ہیں، نوٹوں سے بھری کشتیاں پولیس کے ہاتھ لگتی رہتی ہیں، وہاں تین سال میں چھ سات ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں صرف 2015ء میں بھارت منتقل ہونے والے پانچ ارب ڈالر بہت زیادہ ہیں۔ اس منی لانڈرنگ کا واضح یا غیر واضح کھراحکومت کے قریب بزنس کمیونٹی کی طرف ہی جاتا ہے۔ 
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ غالباً 1958ء کے اوائل میـں کراچی کے مشہور سمگلر قاسم بھٹی ساٹھ من سونا لانچ کے ذریعے مشرق وسطیٰ کے کسی ملک سے سمگل کرتے ہوئے گرفتار ہوئے تھے۔ اس نے یہ سونا خوف کی بنا پر سمندر میں پھینک دیا تھا۔ کراچی کے جس جرأت مند ایس ایس پی(رائو انور) نے قاسم بھٹی کو گرفتار کیا تھا اس کی رہائی کے لئے پاکستان کی خاتون اوّل مسز ناہید سکندر نے ان پر شدید دباؤ ڈالا تھا۔ وہ دباؤ میں نہ آئے تو انہیں قتل کرا دیا گیا۔ مرحوم ایس ایس پی راؤ انور کے سگے بھتیجے کراچی کے نامزد میئرکنور وسیم اختر ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کرپشن نے ہمارے ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا ہے، اگر عسکری قیادت نے اس کا خاتمہ نہ کیا تو پاکستان موجودہ بحرانوں سے زیادہ خطرناک بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ پاکستان میں احتساب کا نظام کبھی مضبوط نہیں ہو سکا اور نہ ہی اس کے حقیقی مقاصد حاصل کئے جا سکے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد گورنر جنرل ملک غلام محمد بھی احتساب کی زد میں آتے آتے بچے۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے کراچی کا میٹرو پولیٹن ہوٹل 1950ء میں 90 لاکھ روپے میں خریدا تھا۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان اپنے ذرائع سے تحقیق کر چکے تھے اور اس کا اعلامیہ انہوں نے 16 اکتوبر 1951ء کو جاری کرنے کا ارادہ کیا تھا کہ وہ قتل کر دیئے گئے۔ 
اس وقت نیب کا ادارہ کرپشن کے خلاف غیر جانبدارانہ کارروائیاں کر رہا ہے، لہٰذا اس سے پہلے کہ اس کی کارروائیوں پر کوئی مسئلہ پیدا ہو یا ملک میں جمہوریت کا استحکام خطرے میں پڑ جائے، وزیر اعظم کو اس کے معاملات میں دخل اندازی سے گریز کرنا چاہئے۔ ان کے نادان دوستوں نے نیب کو متنازعہ بنانے کی جو راہ اختیار کی ہے اس سے عسکری اداروں میں تشویش پائی جا رہی ہے۔ پاکستان غریب ، پسماندہ اور 80 ارب ڈالر کا مقروض ہے، کلیدی فیصلے کرنے میں آزاد نہیں، اس کے لئے واشنگٹن، بیجنگ، ریاض اور لندن بڑی اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ عالمی طاقت کے یہ مراکز چاہتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف ضرب عضب کی مکمل کامیابی اور اقتصادی راہداری کی تکمیل تک آرمی چیف کے منصب پر فائز رہیں کیونکہ ان کو یہ یقین نہیں ہے کہ ان کا جانشین بھی انہی کی طرح فعال، متحرک، جرأت مند اور پر عزم ہوگا۔ جنرل راحیل شریف کی مدبرانہ قیادت اور بے مثال عزم کی وجہ سے پاکستان کے قومی مفادات کے لئے ناگزیر بن چکے ہیں، لہٰذا انہیں چار سال کی توسیع دینے اور ان کو تینوں فورسز پر مکمل کمان کے اختیارات دینے کی ضرورت ہے۔ انہیں جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کا فائیو سٹار جنرل بنا کر کمانڈر انچیف کے اختیارات تفویض کر دیئے جائیں۔ اس مقصد کے لئے آرمی ایکٹ 51 میں ترمیم کی ضرورت ہوگی۔ پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت کے ذریعے آرمی ایکٹ میں ترمیم مناسب رہے گی۔ پاکستان کی سیاست اور جمہوریت عوام کی نظروں میں دھوکہ اور معمہ بن چکی ہے اس لئے جنرل راحیل شریف کی نگرانی میں ہی 2018ء کے انتخابات کا انعقاد ہونا چاہیے تاکہ امیدوار حقیقی معنوں مین آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی چھلنی سے گزر کر ہی پارلیمنٹ میں پہنچیں۔ اس عظیم تر قومی مفاد میں آرمی کو 'ضرب انتخاب‘ کا آپریشن فیئر پلے کرنا ہوگا۔ اس طرح موجودہ پارلیمنٹ کے 90 فیصد ارکان آئین اور قانون کی رو سے نااہل قرار پائیںگے۔ نیشنل ڈیموکریٹک فاؤنڈیشن عظیم انتخابی اصلاحات کے لئے جامع رپورٹ تیارکر رہی ہے جو ایسی انتخابی اصلاحات قوم کے سامنے لائے گی جن کو ملک کی پارلیمانی قوتوں کی حمایت بھی حاصل ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں