"KDC" (space) message & send to 7575

صفائی کا سال، عزیز آبادی اور نئی پارٹی کا نام…

سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے فیصلے میں امن وامان اور اداروں کے آئینی اختیارات کی نشاندہی کر دی ہے، اب یہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا کام ہے کہ وہ عدالت کے حکم کی روشنی میں اس مسئلے کو آئین و قانون کے مطابق حل کریں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں نیشنل ایکشن پلان پر تحفظات دورکرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔کرپشن ہماری سیاسی زندگی کا لازمی جزو بن چکی ہے، بلکہ عالمی سطح پر بھی ہمارے سیاسی رہنما ان لوٹ کھسوٹ میں سب سے آگے ہیں۔ وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین نواز نے لندن میں اپنی جائیدادکے حوالے سے جن آف شور کمپنیوں کا ذکرکیا، اس سے قوم کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ اربوں ڈالرکی پاکستان سے منتقلی منی لانڈرنگ کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتی تھی۔ جس ٹرسٹ کا وہ حوالہ دے رہے ہیں، اگر اس کے ارکان میں وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف شامل ہیں تو پھر آئین کے تحت ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔ اگر یہ کارروائی نیشنل ایکشن پلان کے تحت ہو تو یہ راز کھلے گا کہ موجودہ ''صاحبان اقتدار‘‘ اربوں کی جائیدادیں بیرون ملک بنا چکے ہیں اور اس میں سابق صاحبان اقتدار بھی شامل ہیں۔ موجودہ سیٹ اپ میں کرپشن کی صفائی کی توقع صرف قومی احتساب بیورو (نیب) سے رکھنا خام خیالی ہے، یہ اس کے بس کی بات بھی نہیں کیونکہ اس کی پشت پر فرینڈلی اپوزیشن کھڑی ہے اور عمران خان کی ہمدردیاں صرف اخباری بیانات تک محدود ہیں۔ نیب، پولیس، ایف آئی اے، عدالتوں کی کارکردگی دیکھی جائے تو مایوسی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ رینجرزکی سرگرمیاں کراچی تک محدود ہیں جو بلا شبہ قابل رشک ہیں، لیکن ان کے دوسری جانب رخ کرنے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں۔
کراچی کی سیاست میں آنے والا طوفان بڑھتا جا رہا ہے۔ ایم کیو ایم کو صرف مصطفیٰ کمال سے نہیں بلکہ خود اپنے اندر سے بھی خطرہ ہے۔ کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ رات کو نائن زیرو پر وفاداری کی تجدید کرنے والا اگلے دن مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس میں موجود ہوگا۔ ڈاکٹر صغیر احمد، انیس قائم خانی، رضا ہارون اور وسیم آفتاب کے متحدہ سے راہیں جدا کرنے سے پہلے کسی کو خبر نہیں تھی، وہ اچانک سب کو حیران کر کے متحدہ چھوڑگئے۔ ان 
حالات میں ایم کیو ایم کی قیادت شدید عدم تحفظ کے احساس سے دوچار ہے۔ مصطفیٰ عزیز آبادی کے بارے میں خبریں گردش کر رہی ہیں کہ موصوف الطاف حسین بن کر لندن سے کارکنوں سے خطاب کرتے رہے۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی صحافی ممتاز صدیقی نے سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے رکن مصطفیٰ عزیز آبادی ہی الطاف حسین کی آواز میں متحدہ کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہیں۔ ٹیلی وژن چینلزکے ساتھ فون پر بھی وہی گفتگو کرتے ہیں۔ ممتاز صدیقی کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ کمال اور ان کے ساتھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ تقاریر الطاف حسین نہیں کرتے۔ اکتوبر 2015ء میں جب الطاف حسین نے کراچی کے ایک بڑے جلسے سے خطاب کیا تو لندن کے سب صحافی حیران رہ گئے کہ وہ تو سکاٹ لینڈ یارڈ کی تحویل میں ہیں، یہ خطاب کیسے ہو رہا ہے! بعد میں معلوم ہوا کہ اس خطاب کی پشت پر مصطفیٰ عزیز آبادی تھے۔ 1998ء کے شروع میں پاکستان میں یہ خبریں پھیلتی رہیں کہ مشاہد حسین سید وزیر اعظم نواز شریف کی آواز میں امریکی صدر کلنٹن اور دوسرے امریکی حکام سے بات کرتے رہے۔
نظام فطرت کے مطابق اب صفائی کا وقت آن پہنچا ہے۔ مصطفیٰ کمال اور ان کے ساتھ شامل ہونے والے لیڈرکراچی کی صفائی کی علامتیں ہیں۔ یہ بھی ایک تھیوری ہے کہ اس صفائی کے پیچھے فوج ہے۔ اب صفائی کا عمل لاہور اور اسلام آباد میں بھی شروع ہونے والا ہے۔ وزیر اعظم شاید اسی تاثر کو زائل کرنے کے لئے پارلیمنٹ سے زیادہ وقت آرمی چیف اور دوسرے عسکری حکام کے ساتھ گزارتے ہیں۔
سندھ میں ایم کیو ایم کے مقابل متبادل قیادت فراہم کرنا یا اس کے مینڈیٹ کو تقسیم کرنا دشوار مرحلہ ہوگا کیونکہ کراچی، حیدرآباد کی سیاست مہاجر کمیونٹی کے پاس رہے گی۔ مصطفیٰ کمال گروپ کو بظاہر عسکری قیادت کی پشت پناہی حاصل نہیں ہے، اس کے باوجود اگر کراچی اور حیدر آباد میں متبادل قیادت ابھرکر سامنے آتی ہے تو پھر اندرون سندھ میں بھی متبادل تلاش کرنا پڑے گا۔ ایم کیو ایم میں تقسیم کی ذمہ دار، پارٹی قیادت کی ناقص سیاست ہے۔ مصطفیٰ کمال نئی پارٹی کی تشکیل پر اپنی توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ میری تجویز یہ ہے کہ انہیں اس کا نام ''پاکستان پرچم پارٹی‘‘ رکھنا چاہیے۔ سب پاکستان کے پرچم تلے کھڑے ہیں۔ نئی پارٹی میں ایم کیو ایم کے منحرف رہنماؤں کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف، پاکستان عوامی تحریک، جماعت اسلامی اور پاکستان سنی تحریک کے ناراض کارکن بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ مصطفیٰ کمال نئی پارٹی کے توسط سے جنوبی پنجاب، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہوںگے۔ پاکستان پیپلز پارٹی جو اب پنجاب میں نہ ہونے کے برابر ہے، اس کی افرادی قوت بھی نئی پارٹی میں سموئی جا سکتی ہے۔ مصطفیٰ کمال اور ان کے ساتھیوں کو الطاف حسین پر زہریلی تنقید کرنے سے گریزکرنا چاہیے کیونکہ ان کا گروپ تقریباً تیس سال سے اپنے قائد کے ساتھ کھڑا ہے اور اس کے تمام جرائم میں برابر کے شریک ہے۔ اب وفاقی حکومت سرفراز مرچنٹ کے تیارکردہ منی لانڈرنگ کیس مضبوط بنیادوں پرکھڑا کر رہی ہے۔ بادی النظر میں یہی نظر آ رہا ہے کہ حکومت ان کے فراہم کردہ ثبوتوں کی روشنی میں آئین کے آرٹیکل17کے تحت ایم کیو ایم پر پابندی لگانے کے بارے میں غور کر رہی ہے۔ اگر وفاقی حکومت نے یہ انتہائی قدم اٹھایا تو اسے آئین کے تحت پندرہ دن کے اندر سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کرنا ہوگا۔ اگر سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کے فیصلے کی توثیق کر دی تو پھر ایم کیو ایم پابندی کی زد میں آجائے گی اور اس کے قومی اسمبلی، سینیٹ، صوبائی اسمبلی اور بلدیاتی اداروں کے تمام ارکان نااہل ہو جائیںگے۔ ان حالات میں مصطفیٰ کمال کی پارٹی ہی مہاجر کمیونٹی کے لیے متبادل سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئے گی۔
بانی پاکستان قائداعظم کے فرمان کو پس پشت ڈالتے ہوئے پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتون، سرائیکی، براہوی، کشمیری اور دیگر قوموں کی حوصلہ افزائی شروع کی گئی تو الطاف حسین نے آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد ڈالی۔ اس وقت کراچی میں طلبہ تنظیمیں لسانی، نسلی اور علاقائی بنیادوں پر کام کر رہی تھیں۔ آغا حسن عابدی نے جو بی سی سی آئی کے چیئر مین تھے، مہاجرکمیونٹی کی پہچان کے لئے فنڈز فراہم کئے اور الطاف حسین کو نئی راہ دکھائی۔ بعد میںکراچی کے مہاجر کمیونٹی کو یکجا کروا دیا۔ اس وقت سندھ کے گورنر ممتاز علی بھٹو نے سندھی زبان کو صوبائی زبان کا درجہ دے کر سندھ میں مہاجر قومیت کی بنیاد رکھنے کی بنیاد فراہم کر دی تھی۔ جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے پاکستان اس صورت حال کو کیش نہ کرا سکی جبکہ الطاف حسین نے ملک میں لسانی اور علاقائی بنیاد پر پھیلے ہوئے ماحول کو دیکھتے ہوئے مہاجر قومیت کا نعرہ لگادیا۔ الطاف حسین کے بعد بھی مہاجر کمیونٹی کا ووٹ بینک برقرار رہے گا، جیسے ذوالفقار علی بھٹوکی پارٹی ابھی تک حکومت کر رہی ہے۔ مہاجر کمیونٹی سندھی کارڈ کھیلنے والوںکو کبھی ووٹ نہیں دیںگے۔ مصطفیٰ کمال کو دوسری سیاسی جماعتوںکے مفاد پرستانہ گروپ سے گریز کرنا ہوگا۔ ادھر پاکستان کی طاقتور اشرافیہ کے زیر اثر میڈیا ہاؤسزمصطفیٰ کمال کو متنازعہ بنا رہے ہیں، مصطفیٰ کمال کو ان سے بھی ہوشیار رہنا ہوگا۔
اگر الطاف حسین منی لانڈرنگ کیسز کی زد میں آتے ہیں تو پھر وزیر اعظم نواز شریف کے صاحبزدگان، آصف علی زرداری اور دوسرے سیاستدانوں کا بھی احتساب ہوگا جن کی اربوں روپے کی جائیدادیں اور بینک بیلنس دبئی، لندن، نیویارک، فرانس، سپین، کینیڈا، آسٹریلیا میں موجود ہیں۔ ملک میں صحیح معنی میں صفائی مہم شروع کرنے کے لئے جنرل راحیل شریف کو بڑی آزمائش سے گزرنا پڑے گا۔ قدرت نے پاکستان کو 14 اگست 1947ء کو جس بنیاد پر کھڑا کیا تھا،اس کو اسی راہ پر لانے کے لئے قوم جنرل راحیل شریف کی طرف دیکھ رہی ہے، اس لئے انہیں 27 نومبر سے پہلے پہلے عملی قدم اٹھانا ہو گا۔ اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو عزیز آباد میں الطاف حسین کا مزار قائد اعظم کے مزار سے بھی زیادہ بلند تعمیر ہوگا اور یہی الطاف حسین کی خواہش ہے جو مارچ1992 ء سے ان کے دل میں پنپ رہی ہے۔
ایم کیو ایم الطاف حسین کے بعد بھی ان کے گرد گھومتی رہے گی۔ اس کی اساس سندھ کی گہر ی لسانی تقسیم پر ہے، جب تک یہ خلیج برقرار ہے ایم کیو ایم برقرار رہے گی۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ الطاف حسین فعال ہیں، برطانیہ نے بھارت کے دباؤ کے تحت انہیں سکون کا سانس لینے کا موقع دیا ہے، ان کے خلاف منی لانڈرنگ کیس اور قتل کیس کی رفتار دھیمی کر دی گئی ہے۔ یہ بھی اطلاع ہے کہ الطاف حسین نے مستقبل کے خطرات کے پیش نظر لندن میں کچھ ساتھیوں کو اپنا جانشین مقرر کر دیا ہے۔ مبینہ طور پر یہ رہنما برطانیہ اور انڈیا میں اہم تعلقات رکھتے ہیں۔کراچی میں الطاف حسین کے دست راست ڈاکٹر فاروق ستار اور وسیم اختر موجود ہیں جو مصطفیٰ کمال کی سیاسی چالوں کے آگے دیوار بنے کھڑے ہیں۔ ان حالات میں پی پی پی اور مسلم لیگ خاموشی سے سائیڈ لائن پر کھڑی ہے اور عسکری قیادت بھی حالات کا جائزہ لے رہی ہے۔ سرفراز مرچنٹ محب وطن اور متحرک شخصیت ہیں اور وہ حکومت کی طرف سے سنجیدگی ظاہر کرنے کے خواہش مند ہیں۔ سکاٹ لینڈ یارڈ نے سرفراز مرچنٹ کو جو کچھ بتایا وہ ایم کیو ایم کے لئے بہت خطرناک ہے۔ ان دستاویزات کی روشنی میں ایم کیو ایم پر پابندی لگنے کے امکانات ہیں۔مصطفیٰ کمال کو چاہیے کہ وہ 23 مارچ کو اپنی پارٹی کا نام پاکستان پرچم پارٹی کا با ضابطہ طور پر اعلان کر دیں۔ اس نام میں کشش ہے اور ملکی سطح پر ایک نئی سیاسی قوت بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں