"KDC" (space) message & send to 7575

ترقی صدارتی نظام میں ہی مضمر ہے!

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی طبیعت ناساز سمجھ کر مصطفی کمال فوراً کراچی پہنچے ۔ غالباً اُنہیں یہ احساس ہوا کہ الطاف حسین کے بعد قیادت کا بحران پیدا ہو گا۔ متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت سنبھالنے کا راستہ کھل رہا ہے ۔ ڈاکٹر فاروق ستار بھی حالات کو بھانپ چکے ہیں اسی لئے انہوں نے بھی صفائی کر نے کا اعلان کیا ہے‘ ایم کیو ایم گزشتہ تین دہائیوں کے دوران عسکری قوتوں کے ساتھ محبت اور نفرت کا کھیل کھیلتی رہی ۔ عسکری اداروں کو الطاف حسین کی وفاداری پر شک تھا لیکن اس کے باوجود عسکری قوتوں نے موصوف کو مکمل آزادی دے رکھی تھی ۔ ڈاکٹر عشرت العباد کے ذریعے الطاف حسین کی روش تبدیل کرنے کی سعی کی جاتی رہی۔ 1990ء کی دہائی میں یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کیا ۔ یہ دور پارٹی کے لئے مشکل تھا اسی طرح جنرل پرویز مشرف کے 9 سال کے دور حکومت کے دوران متحدہ اور اس کے طرز کی سیاست کو بھر پور تقویت ملی۔ ایم کیو ایم نے جو کچھ بھی 90ء کی دہائی میں کھویا تھا وہ نہ صرف اس نے دوبارہ حاصل کر لیا؛بلکہ سیاسی حمایت کے حصول کے لئے شوکت عزیز حکومت نے متحدہ قومی موومنٹ کو سندھ حکومت میں شمولیت کی دعوت دی اور کراچی کے معاملات چلانے کی آزادی دیتے ہوئے آفاق اور عامر کے سیاسی دفاتر بیت الحمزہ کو مسمار کرا دیا گیا۔ ڈاکٹر عشرت العباد اور مصطفی کمال میں مکمل طور پر فکری و عملی ہم آہنگی ہے۔ ڈاکٹر عشرت العباد خوب ناپ تول کر بولتے ہیں اور وقت سے پہلے نہیں بولتے، ڈاکٹر فاروق ستار کی بھی وہی سوچ ہے جومذکورہ دونوں رہنماؤں کی ہے۔قیاس ہے کہ الطاف حسین بازی ہارچکے ہیں۔ بہت سی اہم شخصیات جن میں ارکان اسمبلی بھی شامل ہیں‘ الطاف حسین کو داغ مفارقت دینے کے لئے پر تول رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے ریمارکس دیتے ہوئے سندھ اور وفاقی حکومتوںسے سندھ کی صورت حال کے پیش نظر جامع رپورٹ طلب کر لی ہے اور ہدایات دی ہیںکہ اس قومی معاملہ میں سرکاری اداروں کا ٹکراؤ یا ایک دوسرے پر الزام تراشی عوام اور ریاست کے مفاد میں نہیں لہٰذا اداروں کو تصادم سے بچنا ہوگا اور ہم آہنگی کے ذریعے ملک میں گڈ گورننس کی طرف بڑھنا پڑے گا۔ جناب چیف جسٹس پاکستان وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بارے میں جو ریمارکس دے رہے ہیں وہ قوم کی آواز ہیں۔ عوام تاریخ سے خوف زدہ ہیں انہیں وفاق کو درپیش خطرات اور اس کے مستقبل بارے خدشات لاحق ہیں‘ریاست خطرناک مقام پر پہنچ چکی ہے۔ جہاں سے اسے واپس لانے کا راستہ صرف اور صرف وفاقی جمہوری نظام ہے۔ وفاقی جمہوری نظام کا بنیادی اصول اتحاد بذریعہ تنوع پر استوار ہے۔ جمہوری نظام مکالمہ، مباحثہ، گنجائش اور برداشت کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے نا اتفاقیوں کو محدود کرتا ہے۔طریقہ کار اور ایسے ادارے فراہم کرتا ہے جو قانون و آئین کے تحت اپنا کام کرتے ہیں۔ اب تک ملک میں بہت کچھ غلط کیا جا چکا ہے، آئین ، اداروں اور قانون کو بہت نقصان پہنچ چکا ‘ بد عنوانی، دہشت گردی، فرقہ واریت ، لاقانونیت، جرائم، منشیات، معاشی عدم استحکام اور سرمایہ داری نے ہم آہنگی‘مالیاتی غیر ذمہ داری اور معاشی بد انتظامی سے آدمی کا گزر بسر مشکل تر کر دیا ہے۔ حقیقی جمہوریت ہی ہمارے لئے شفا بخش امرت ہے، یہی ہمیں محفوظ اور متحد کر کے وفاق کو آگے پہنچانے کی صلاحیت کا حامل بناتی ہے۔
2016 ء کا وفاق 1958 ء‘ 1969ء 1977ء اور 1999ء یا جمہوری نظام کو سیاستدانوں کی کرپشن اور نااہلیت کی وجہ سے پٹڑی سے اتارنے والے دیگر برسوں سے یکسر مختلف ہے۔یہ اٹھارویں ترمیم کے بعد کا وہ وفاق ہے جو اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود، وسائل، سیاسی معیشت اور ثقافتی حقوق کی ملکیت و اختیارات صوبوں کو منتقل کر چکا اور اب اسے پارلیمنٹ میں ان کی منشاء کے اظہار میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ صوبوں کو اختیارات و حقوق کی یہ منتقلی 1973ء کے حقیقی آئین نے تفویض کر دی تھی۔ سیاستدانوں کی میگا کرپشن کی وجہ سے ملک کے اندر آئینی بحران پیدا ہوتا ہے اور حالات پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے، دہشت گردی، فرقہ واریت، مذہبی شدت پسندی، قوم پرست بغاوتیں، نظام کا انہدام اور ریاست کی عمل داری سمیت کوئی بھی اقدام جو 1973ء کے آئینی ڈھانچہ کو غیر مستحکم کرتا ہے وہ صرف یہیں تک محدود نہیں ، یہ طریقہ کار آئین ہی نہیں خود وفاق کے لئے بھی خطرناک ہوگا۔ سرمایہ دار ممالک کس طرح مشرق وسطیٰ کے نقشے کو از سر نوترتیب دینا چاہتے ہیں، اسی طرح پاکستان میں حکمران اشرافیہ اور عام آدمی کے درمیان معاشی بے چینی کی خلیج بڑھتی جا رہی ہے نظام منہدم ہونے کے قریب تر پہنچ چکا ، بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور غیر ملکی امداد سے جاری باغیانہ شورش چل رہی ہے۔نظام حکومت کے بارے میں سابق صدر آصف علی زرداری کا یہ موقف پہلی بار سامنے آیا ہے کہ ملک میں صدر کا عہدہ ختم کر دینا چاہئے کیونکہ یہ قومی خزانے پر بوجھ ہے، ان کا کہنا تھا کہ عوام صدارتی نظام کو سمجھے بغیر اس کی حمایت کر دیتے ہیں اس نظام کا مطلب ہے طاقتور صدر، اس میں پارلیمان کی کوئی وقعت نہیں ہوتی، جب طے ہو چکا ہے کہ ملک پارلیمانی نظام کے تحت چلے گا تو اس کو مضبوط بنانا چاہئے، آصف علی زرداری کا یہ موقف کہ صدر کا عہدہ ختم کر دیا جائے دراصل ان کا بین السطور مطلب یہ ہے کہ وہ پاکستان کو کنفیڈریشن بنانا چاہتے ہیں جس میں ملک کی وفاقی حکومت کا برائے نام ہی کردار رہے، دراصل کنفیڈریشن کے بارے میں ذوالفقار علی بھٹو کا تصور 7 دسمبر 1970ء کے انتخابات کے بعد ہی ان کے ذہن میں آچکا تھا اور وہ پاکستان میں کنفیڈریشن کے نظام کے حامی تھے اور انہوں نے ملک کے ممتاز اور سینئر صحافی عبداللہ ملک کو اس طرح انٹر ویو دیا تھا جس طرح آصف علی زرداری نے جناب سہیل وڑائچ کو خصوصی طور پر نیو یارک مدعو 
کرکے اپنی رائے سے قوم کو آگاہ کرکے خطرہ کی گھنٹی بجا دی ہے، دراصل صدر وفاق کی علامت ہوتا ہے اور مسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہونے کی حیثیت سے اس نے وفاق کی سلامتی کا حلف اٹھایا ہوا ہوتا ہے۔ دراصل آصف علی زرداری کا مرکز کشش ثقل ملک سے باہر ہے، ملک میں صدارتی نظام کے حوالے سے ابھی ذہن تیار کرنے کے لئے وقت لگے گا کیونکہ پارلیمانی نظام حکومت کا جائزہ لینے کے لئے ہمارے سیاستدانوں کو فرانس ‘ ترکی اور سری لنکا کے طرز حکومت کو بھی سامنے رکھنا چاہئے۔
عوامی جمہوریہ چین کی ترقی کا راز یہی ہے کہ ملک میں فعال صدارتی نظام کی وجہ سے تمام ادارے مستحکم ہو چکے ہیں۔ چین اس وقت عالمی طاقت بن چکا ہے اس کی پشت پر صدارتی نظام کی مضبوط دیوار چین کھڑی ہے ۔ وزیر اعظم اور صدر دونوں یکجاہیں اور ان کے دائرہ اختیار کا تعین ان کی پارلیمان نے 1947ء میں ہی طاقت کے توازن کا مرکز طے کر لیا تھا! پاکستان میں صدارتی نظام کے لئے ہمارے سیاستدانوں ، سول سوسائٹیوں اور میڈیا کو ذاتی مفادات ، تعصب اور غیر ملکی ایجنڈے سے باہر نکل کر سوچنا ہوگا! 1975 ء میں شیخ مجیب الرحمن نے بنگلہ دیش میں آئین میں ترمیم کر کے صدارتی نظام کے لئے راہ ہموار کی تھی اور شیخ مجیب الرحمن بنگلہ دیش کے صدر بن گئے تھے ۔وہ 15 اگست 1975 ء کو محلاتی سازشوں کے تحت قتل کر دیئے گئے تھے ؛ تاہم ملک میں صدارتی نظام ہی وقفے وقفے سے جاری رہا۔ پاکستان کی اقتصادی ترقی کی راہ دیکھنی مقصود ہو تو صدر ایوب خان کے1960-1965ء کی ترقی کے بارے میں عالمی بینک کی رپورٹ کو مد نظر رکھیں تب پاکستان فلاحی ریاست کی طرف رواں دواں تھا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں