"KDC" (space) message & send to 7575

عام انتخابات قبل از وقت ہوسکتے ہیں؟

سپریم کور ٹ کے چیف جسٹس انورظہیر جمالی نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ 70 فیصد حلقوں کے نتائج پہلے ہی سے لوگوں کو معلوم ہوتے ہیں اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ آئندہ 25 سال یہی حکومتیں رہیںگی۔ انہوں نے مختصر ریمارکس کے ذریعے مئی 2013ء کے انتخابات کا بھرم آشکارکر دیا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے لئے ہمیشہ ذاتی اقتدار ترجیح رہی۔ گزشتہ عام انتخابات کی شفافیت جاننے کے لئے انکوائری کمیشن میں عمران خان ٹھوس شواہد کے باوجود اس کو متاثر کرنے میں ناکام رہے، ان کے رفقائے کار نے بھی تاریخی موقع ہاتھ سے جانے دیا۔ گویا عمران خان کو ان کے نادان دوستوں نے ایل بی ڈبلیوکر دیا۔
اطلاعات کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری نے امریکی دوستوں سے ایک فارمولے پر مذاکرات کئے ہیں، جس کے تحت پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کا احتساب آئندہ انتخابات تک مؤخر ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف اس ضمن میں امریکی حکام سے بات چیت کر سکتے ہیں، جس کے بعد اندازہ ہوسکے گا کہ ملک میں قومی انتخابات قبل از وقت، ستمبر2017ء میں بھی ہو سکتے ہیں۔ امریکہ کے لئے ہمارے ایٹمی اثاثے بھی باعث تشویش ہیں، اس لئے ان پر بھی بات چیت یقینی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس معاملے پر امریکی اسی سال کوئی معاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ امریکہ اور برطانیہ کے پالیسی ساز ٹیکنوکریٹس پاکستان کے تمام سیاستدانوں سے رابطے میں ہیں۔ مبینہ طور پر آصف علی زرداری نئی صف بندی کروانے میں کسی حد تک کامیاب ہوگئے ہیں، اس لئے انہوں نے اپنے موقف کی وضاحت کے لئے پاکستان سے اپنے دوست صحافیوںکو امریکہ مدعوکر کے اپنے خیالات عوام اور اشرافیہ تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ 
پاکستان کی آئندہ سیاست میں چین اہم کردار ادا کرے گا۔ چین پاک اقتصادی راہداری کی تکمیل کو متنازعہ بنائے بغیر تمام سیاسی جماعتوںکو آئندہ انتخابات کے لئے راہ متعین کرانا ہوگی۔ اس سلسلے میں سابق صدر پرویز مشرف کا اہم کردار سامنے آ رہا ہے۔ وہ دبئی، برطانیہ اور امریکہ میں اپنے دوستوں کو یکجا کریں گے اور این آر او تخلیق کرانے والوں کو بھی احساس دلانے کی کوشش کریںگے۔ ہمارے سیاستدانوں نے جمہوریت کو اپنے کاروباری مفادات کے تحفظ کے لئے اپنایا ہوا ہے۔ 
جمہوریت کی بنیاد مردم شماری ہوتی ہے، حلقہ بندیاں ہوتی ہیں۔ اس لئے سب سے پہلے درست خطوط پر مردم شماری ہونی چاہئے، پھر ایسی حلقہ بندیاں ہوں جن پر کسی کو اعتراض نہ ہو۔ اس کے بعد شفاف بلدیاتی انتخابات، لیکن محض بلدیاتی انتخابات کرانے کا کوئی فائدہ نہیں جب تک بلدیاتی نمائندوںکو اختیارات نہیں دیے جاتے۔ ہماری سیاسی پارٹیوں کے اندر جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں، شخصیت پرستی ہے۔ اس کے علاوہ منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کا انعقاد بھی بڑا اہم ہے۔ ملک میں اس وقت تک جمہوریت اپنی اصل شکل میں نہیں آسکتی جب تک مردم شماری نہیں کرائی جاتی۔ جمہوری نظام پر مبنی حکومتوں میں جمہوری روایات کے صحیح خد و خال پنپ نہ سکے اور عوام الناس کی بڑی اکثریت بھی جمہوریت کی روح سے نابلد رہی، جس کے باعث مختلف ادوار میں ملک انتشار اور لاقانونیت کے گھیرے میں رہا۔ پاکستان کے انتخابی نتائج اور سیاسی فیصلوں میں ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دی گئی۔ 7 دسمبر 1970ء کے انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی کی 300 نشستوں میںسے81 حاصل کر سکے۔ انہیں 18.6 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ ان کے مقابلے میں شیخ مجیب الرحمن نے 160نشستیں حاصل کیں اور انہیں 39.2 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار دینے سے انکارکر دیاگیا،ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگا دیا گیا جس کے نتیجے میں پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا۔ پاکستان کا موجودہ آئین، اقلیتی ووٹ حاصل کرنے والی سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے ذاتی مفادات کو مد نظر رکھ کر ایسے انداز میں بنایا جو ملک کو بحرانوں میں محفوظ راستہ دینے میں ناکام رہا۔ ملک 5 جولائی 1977ء اور 12 اکتوبر 1999ء جیسے سانحات سے دوچار ہوتا رہا اور حکمران پارلیمنٹ کی بالادستی کو نظر انداز کر کے چند خاندانی دوستوں کے ساتھ مل کر ملک کی تقدیر سے کھیلتے رہے۔
پاکستان کی مسلح افواج اور سکیورٹی فورسز بہت کوشش کر رہی ہیں کہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو، لیکن دہشت گردی کا عفریت قابو میں نہیں آ رہا۔1989 ء میں امریکہ صدر جارج بش سے ملاقات میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے انہیں آگاہ کر دیا تھا کہ سویت یونین کے خلاف جس انتہا پسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے اس سے پاکستان اور امریکہ ایک ایسا عفریت تخلیق ہوگا جو پاکستان کو تنگ کرنے کے لئے واپس آئے گا۔ دراصل دہشت گردی کا یہ عفریت امریکہ نے تخلیق کیا اور اس کی بنیاد پر اسے دنیا بھر پر حکمرانی کرنے کے لئے آئندہ بھی استعمال کرنا ہے۔ دہشت گردی عالمی سرمایہ داروں کا نیا کاروباری حربہ ہے۔ دہشت گردی معیشت ہے، دہشت گردی سیاست ہے اور دہشت گردی حکمت عملی ہے۔ پاکستان میں کچھ طاقتیں اس معیشت، اس سیاست اور اس حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ دہشت گردی کا واقعہ جہاں بھی ہوتا ہے اسے عالمی طاقتوںکی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان میں جس طرح دہشت گردی کو کنٹرول کیا جا رہا ہے، اس میں سیاسی قوتوں کا کوئی حصہ نہیں، اس لئے دہشت گردی کے خاتمے کے امکانات بھی زیادہ قوی نہیں ہیں۔11ستمبر 2001ء کے بعد بھی پاکستان میں سیاسی صف بندی تبدیل نہی ہوئی۔ پاکستان میں طبقاتی، قومیتی، لسانی، نسلی، مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر افقی اور عمودی تقسیم گہری ہو رہی ہے اور قومی یکجہتی کا وہ ماحول نہیں ہے جو جمہوریت کے استحکام اور تسلسل کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ سیاست میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں سیاسی قوتیں محض خاموش تماشائی ہیں۔ احتساب کے عمل سے بھی سول حکومت لاتعلقی کا اظہار کر رہی ہیں۔ پاکستان میں کوئی ایسی لیڈر شپ بھی نہیں ہے جو پاکستان کے اندرونی معاملات کو دوبارہ اپنے کنٹرول میں لینے اور بدلتی ہوئی علاقائی اور عالمی صورت حال میں موثر کردار ادا کرے۔ ان حالات میں اگر آئندہ عام انتخابات معمول کے مطابق ہوتے ہیں اورکوئی ٹیک اوور نہیں ہوتا تو اس کا کریڈٹ سیاسی قوت کو نہی بلکہ عسکری قوتوںکو جائے گا۔
ملک میںمعاشی دہشت گردی کے تحت سندھ کے محکمہ جنگلات کی زمینوں پر مبینہ طور پر شرجیل میمن نے قبضہ کر رکھا ہے۔ نیب کمزور سہارے کے بل بوتے پر شرجیل کے خلاف تحقیقات کر رہی ہے جبکہ زمینوں پر ہونے والے مبینہ قتل کے معاملات کی تحقیقات دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کر رہے ہیں۔ خبر یہی ہے کہ سابق صوبائی وزیر نے حید آباد میں جنگلوں کے اربوں روپے مالیت کی اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے۔اس کے علاوہ ٹھٹھہ، دادو، جامشورو، نواب شاہ،، لاڑکانہ، قمبراہٹ، شہداد کوٹ، جیکب آباد، نوشہرہ فیروز سمیت دیگر اضلاع میں بھی محکمہ جنگلات کی اربوں روپے مالیت کی اراضی پر سابق وزیر اعلیٰ، موجودہ و سابق وزراء اور پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) قوم پرست جماعتوں کے رہنماؤں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ جنگلات کی کٹائی کر کے ہر ماہ کروڑوں روپے غیر قانونی طریقے سے حاصل کئے جا رہے ہیں۔ ان طاقتور شخصیات نے جنگلات کی اراضی پر زراعت کا کام شروع کر دیا ہے جس سے کروڑوں روپے کی آمدنی حاصل کی جا رہی ہے لیکن جنگلات کی نشوونما کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت سندھ رینجرز کو کارروائی کرنی چاہیے۔ یہ درست ہے کہ فوج کی ہائی کمان حکومت کو ٹیک اوور کرنا نہیں چاہتی، وہ چاہتے ہیں کہ نیب اور دیگر ادارے سیاستدانوں کو قومی مفاد میں اپنے حساب سے سیدھا راستہ دکھائیں، وہ چاہتے ہیں کہ ملک کو کرپٹ سیاستدانوں سے صاف کر کے ملک کی معیشت کو فروغ دیا جائے تاکہ عسکری قوتوں پر دباؤ نہ آئے۔ فوج گڈگورننس اور اچھی معیشت کی خواہاں ہے۔ فوج سمجھتی ہے کہ میٹرو بس اور رنگ برنگی ٹرینوں جیسے منصوبے ہماری ضرورت نہیں بلکہ ہماری ضرورت حقیقی معاشی ترقی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں