"KDC" (space) message & send to 7575

جنرل مشرف کو صدر تسلیم کر لیاگیا؟

سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں وفاقی حکومت کی جانب سے علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت ملنے کے بعد سابق صدر جنرل پرویزمشرف دبئی پہنچ گئے، جس کے ساتھ ہی سابق مرد آہن کے حوالے سے گفتگوکے کچھ باب بند اور تنقید کے کچھ نئے باب کھل گئے ہیں۔ جنرل مشرف دبئی سے امکانی طور پر علاج کے لئے امریکہ جائیںگے کیونکہ ڈاکٹروںکے مطابق ان کے مرض کا شافی علاج وہیں دستیاب ہے۔ ان کے وکلاء نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ چندمہینے بعد واپس وطن آکر مقدمات کا سامنا کریں گے، لیکن میری رائے یہ ہے کہ وہ حالات اپنے حق میں بہتر ہونے تک واپس نہیں آئیںگے۔ سابق صدرکو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ان کی خواہش کے مطابق عزت و احترام کے ساتھ باہر بھیجا گیا تھا۔ جنرل مشرف کا خیال تھا کہ ملک کے عوام کی بھاری اکثریت ان کے ساتھ ہے اور ان کی واپسی کی منتظر ہے، اس لئے وہ بڑی امیدوںکے ساتھ واپس آگئے۔ لیکن حکمران جماعت کی حکمت عملی اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے معاندانہ رویے کے باعث ان کے خلاف سنگین مقدمات کھول دیے گئے۔ ان مقدمات میں انہیں عدالت میں طلب کیا جانے لگا، گرفتاری کے قابل ضمانت اور ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہونے لگے، لیکن وہ ایک دو بارکے سواکسی مقدمے میں پیش نہیں ہوئے۔ 
قدرت کے فیصلے سے ہماری سیاسی قیادت سبق حاصل نہیں کرتی۔ نواز شریف کی حکومت نے 1997-1999ء کے عرصے میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کے سنگین مقدمات کا اندراج کروایا اور ان کی تحقیقات اپنے خاندانی دوست سیف الرحمن کے ذریعے کروائی۔ اس کے علاوہ انہیں گرفتارکرنے اور قومی اسمبلی کی نشست سے تاحیات نااہل کروانے کی حکمت عملی تیاری کی۔ لیکن آصف علی زرداری سوئس کیسزکے مقدمات سے بچنے کے لئے خطرناک بیماریوں کے سرٹیفیکیٹ عدالتوں میں جمع کراتے رہے اور ضمانت کروانے میں کامیاب رہے۔ اگر ہمارے میڈیا پرسنز سابق صدر آصف علی زرداری کے میڈیکل سرٹیفکیٹس جو انہوں نے سوئس عدالتوں میں جمع کرائے تھے، حاصل کر کے ان پر تجزیاتی پروگرام کریں تو انہیں ذہنی امراض کے ہسپتال میں ہونا چاہیے تھا، لیکن وہ صدر منتخب ہوگئے۔ ان کے میڈیکل سرٹیفیکیٹس الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل مخدوم علی خان جو سوئس عدالتوں میں وفاقی حکومت کی جانب سے آصف علی زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف مقدمات لڑتے رہے، یقیناً ان کے پاس بھی یہ تمام دستاویزات موجود ہوںگی۔ پاکستان کے صف اول کے وکیل اور دانشور اعتزاز احسن جو پرویز مشرف کی آڑ میں فوج پر بالواسطہ نکتہ چینی کر رہے ہیں، انہیں احساس ہونا چاہیے کہ آصف زرداری نے ضمانتیںکروانے کے لئے جو اداکاری کی تھی، ان پر انہیں آسکر ایوارڈ ملنا چاہیے تھا۔ اسی طرح حسین حقانی نے جو 1989ء میں میاں نواز شریف کے میڈیا ایڈوائزر تھے،اپنے پسندیدہ اخباری نمائندوں اور تجزیہ کاروں کے ذریعے یہ خطرناک مہم چلوائی تھی کہ بینظیر حکومت نے راجیو گاندھی کو جو سارک کانفرنس میں شرکت کے لئے جنوری 1989ء میں پاکستان آئے تھے،خالصتان تحریک کے رہنماؤںکی فہرست مہیا کی تھی جس کی بنیاد پر راجیو حکومت نے راتوں رات 4000 سکھ علیحدگی پسندوں کو گرفتار کروا کے زندہ جلا دیا تھا۔ اعتزاز احسن پاکستان کے محب وطن سیاستدان ہیں، ان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ مذکورہ فہرست راجیوگاندھی کو تحفے میں پیش کردیں۔ اس وقت حسین حقانی اس معنی خیز کردار کشی مہم کا حصہ تھا۔ ہمارے تجزیہ کاروں کو چاہئے کہ وہ حسین حقانی سے مزید حقائق جاننے کے لئے ان کی رائے حاصل کریں۔
اسی طرح ستمبر 2008ء میں جب آصف علی زرداری صدارتی انتخاب لڑ رہے تھے، ان کے مخالفین نے جن کو پنجاب حکومت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی اشیر باد حاصل تھی، آصف علی زرداری کے خلاف تقریباً سات سو صفحات پر مشتمل رپورٹیں الیکشن کمیشن میں داخل کرائی تھیں جن میں عالمی سطح کے ڈاکٹروں کی رپورٹیں شامل تھیں جن کے مطابق آصف علی زرداری انتہائی خطرناک بیماریوں کے باعث صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے اہل نہیں تھے۔ لیکن بعض مصلحتوں کے تحت پنجاب حکومت نے اپنے بہی خواہوں کی کوششیں عین وقت پر موخر کر دیں۔ اس ضمن میں انٹر نیشنل لا کے مایہ ناز بیرسٹر ڈاکٹر فاروق حسن سے بھی ہمارے تجزیہ کاروں کو رابطہ کرنا چاہیے جنہوں نے آصف زرداری کے خلاف مواد اکٹھا کیا تھا۔ ہمارے میڈیا پرسنز کو25 اگست2008ء سے31 اگست2008 ء تک کے اخبارات کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے۔
جنرل پرویز مشرف پر کرپشن کا کوئی دھبہ نہیں لگا۔ معیشت پر انہوں نے مضبوط ہاتھ رکھا ہوا تھا۔ خود ان پر تین قاتلانہ حملے ہوئے مگر پورے ملک میں مجموعی طور پر امن و امان کی صورت حال بہت رہی۔ ڈالر نواز حکومت کے دوسرے دور میں 56 روپے تک پہنچ گیا، جس میں پرویز مشرف کے 9 سالہ دور میں صرف چار روپے کا اضافہ ہوا اور آخر تک60 روپے کا ہی رہا۔ جونہی اپریل 2008ء میں اسحاق ڈار وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور بنے ڈالر 70 روپے کا ہوگیا۔پرویز مشرف کے دور میں پاکستان دنیا میں 114 ویں نمبر پر تھا جبکہ آج جمہوری حکومت کے تین سال گزرنے کے بعد 144 ویں نمبر پر چلا گیا ہے۔ 
پرویز مشرف نے بین الاقوامی مصلحتوں کے تحت پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کو فعال ہونے کا موقع فراہم کیا اگرچہ انہوں نے بلا وجہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے تنازع کھڑا کرلیا جو انہیں مہنگا پڑا۔ نواب اکبر بگٹی کا کے خلاف آپریشن بھی ان کے سر ڈالا گیا اور لال مسجد کے سانحہ کا ذمہ دار بھی انہی کو قرار دیا گیا۔ ان معاملات میں ان کو بطور صدر مملکت الگ تھلگ رہنا چاہیے تھا، بلوچستان میں امن و امان کی ذمہ داریاں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور وفاقی سطح کے معاملات وزیر اعظم شوکت عزیز پر چھوڑ دینے چاہیے تھے۔ بہرحال انہوں نے ملک کے وسیع تر مفاد اور مفاہمت کی پالیسی کو فروغ دینے کے لئے سیاسی شخصیتوں پر مقدمات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مفاہمت کے آرڈر پر دستخط کردیے۔ لیکن ہمارے سیاسی رہنمائوں کی کو تاہ نظری کے باعث ان کی مفاہمت کی پالیسی ناکام ہو گئی۔ ہمارے سیاسی رہنماؤںکو پرویز مشرف کی آڑ میں فوج کو دوسرے درجے پر لانے اور آرمی کا مورال گرانے کا موقع مل گیا۔ 
حقیقت یہ ہے کہ 3 نومبر2007ء کی ایمرجنسی محدود سطح پر رہی، ملک میں الیکشن کا شیڈول اسی ایمرجنسی کے دوران جاری ہوا اور نئے چیف آف آرمی سٹاف کا تقرر بھی اسی ایمرجنسی کے سائے تلے ہوا۔ بعد ازاں 31 مارچ 2008ء کو وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کا حلف بھی صدر مشرف نے ہی لیا۔ایمرجنسی کی توثیق پارلیمنٹ نے 7نومبر2007 ء کو ہی کر دی تھی۔ وزیر اعظم شوکت عزیز ایمرجنسی لگانے کی سمری کا اقرار اپنی پریس کانفرنس میں کر چکے ہیں۔ صدر پرویز مشرف کے مفاہمت کے آرڈر کے تحت جہاں محترمہ بے نظیر بھٹو کو محفوظ راستہ فراہم کیا گیا، اسی آرڈر کے تحت نواز شریف اور شہباز شریف پاکستان آئے اور انتخابی سیاست میں بھرپور حصہ لیا۔ اب صدر پرویز مشرف کے خلاف جو معاندانہ مہم چلائی جا رہی ہے وہ در اصل افواج پاکستان کے خلاف ہے۔ جنرل پرویز مشرف کا احتساب بظاہر پورا ہوگیا ہے۔ سرکاری حکم نامہ میں ان کو (سابق) صدر مملکت تسلیم کر لیا گیا ہے۔ چوہدری شجاعت علانیہ اظہارکر چکے ہیںکہ 3 نومبر2007ء کی ایمرجنسی میں وزیر اعظم شوکت عزیز سمیت کابینہ کے بہت سے ارکان کا مشورہ شامل تھا۔ اس وقت کی قومی اسمبلی نے بھی قرار داد منظور کی تھی، وفاقی کابینہ نے بھی منظوری دی تھی۔ وفاقی حکومت نے دانستہ طورپر مقدمہ صرف جنرل پرویز مشرف کے خلاف بنایا۔ آنے والا وقت آج کے واقعات کی بہتر تشریح کر سکے گا۔ میاں نواز شریف کو جس طیارہ کیس میں ستر سال کی جو سزا دی گئی تھی، 2009ء میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنی بحالی کے فوراً بعد اٹارنی جنرل کو سنے بغیر ہی اسے چند منٹوں میں خارج کر دیا تھا۔ اس طرح انہوں نے نواز شریف کے اپنے حق میں لانگ مارچ کی قیمت چکا دی تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں