"KDC" (space) message & send to 7575

انڈین لارنس آف عریبیا

فوج نے پاکستان میں بھارتی ایجنسی ''را‘‘ کا دہشت گردی کا خوفناک نیٹ ورک اور اس کے ذریعے پورے پاکستان خصوصاً بلوچستان میں ہونے والی مسلسل دہشت گردی اور ایران کی بندرگاہ چاہ بہار میں مقیم کل بھوشن یادو اور اس کا بیس کیمپ بے نقاب کر دیا ہے۔ کل بھوشن پاکستان میں گرفتار ہو چکا ہے۔ وفاقی حکومت اپنے خارجہ اور دفاعی امور کی تاریخ کے سب سے بڑے سفارتی چیلنج سے دوچار ہے، اس کے باوجود وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کی پراسرار خاموشی کسی اور طرف کا اشارہ دے رہی ہے۔ وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کے دوران بھی اس تاریخی کارنامے کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم اس تاریخی کارنامے کو کیوں نظر انداز کر رہے ہیں۔ پاکستان نے کبھی ایران، بھارت اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خلاف شمالی اتحاد کی سپورٹ کے حوالے سے تعلقات کی انتہا پر بھی ناگواری کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ پاکستان نے ریگی برادران پکڑ کر ایران کے حوالے کئے جنہوں نے ایران کی سلامتی میں رخنے ڈالے ہوئے تھے اور ایرانی بلوچستان میں آگ و خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی۔
کل بھوشن نے پاکستان میں اپنی باقاعدہ سرگرمیوں کا آغاز 2002ء میں کیا، انڈین پارلیمنٹ پر حملے کے بعد دونوں افواج آمنے سامنے آ چکی تھیں، ان دنوں کل بھوشن نے ایک معمولی سے مسلمان تاجر کے بھیس میں پاکستان میں قدم رکھا۔ اس کے پاس ایران میں جاری کاروبار کی دستاویزات موجود تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب صدر مشرف کی حکومت کی ساری توجہ افغانستان اور عراق میں امریکی جارحیت پر لگی ہوئی تھی۔ ان دنوں سینکڑوں بھارتی جاسوس پاکستان میں داخل ہوئے اور مختلف شہروں میں کارروائیوں میں لگ گئے۔ کل بھوشن کے پاس سب سے اہم ٹاسک تھا۔ بطور انڈین نیوی آفیسر یہ بندرگاہوں کی دفاعی اور معاشی اہمیت سے واقف ہے؛ چنانچہ اسے گوادر، پسنی اور کراچی کی بندرگاہوں والے علاقوں کی کمان سونپی گئی۔ کل بھوشن نے بلوچستان کے ناراض عناصر سے رابطے کر کے انہیں مختلف ذرائع سے مالی اور اسلحہ کی صورت میں امداد فراہم کرنا شروع کی۔ بلوچستان کو متحدہ عرب امارات کی طرز پر علیحدہ یونین بنانے کے لئے لارنس آف عریبیا کی حکمت عملی اختیار کی۔ مبینہ طور پر نواب اکبر بگٹی سے مراسم بڑھائے اور ان کو ریاست ہائے بلوچستان کا امیر بننے کی ترغیب دی۔ اسی منصوبے کو آگے بڑھانے کے لئے کل بھوشن نے ایران میں اپنا ہیڈکوارٹر بنا لیا جہاں وہ اپنے مشن کی کامیابی کے لئے احکامات وصول کرتا۔ 2006ء میں کل بھوشن نواب اکبر بگٹی کے سانحے کے بعد پاکستان کی ایجنسیوں کی نظر میں آ گیا اور اس کی سرگرمیوں کی تفصیلات آہستہ آہستہ اکٹھی ہونا شروع ہوئیں اور کل بھوشن کے سہولت کاروں پر نظر بھی۔ ناراض بلوچوں اور طلبہ گروپس میں اپنے اہلکار شامل کر کے کل بھوشن کے رابطے میں لائے گئے۔ اس کام میں کم و بیش دو سال لگ گئے۔ 1980ء کے اوائل میں ایرانی طلبا نے جب تہران 
میں واقع امریکی سفارت خانہ پر قبضہ کیا تو بہت سی خفیہ دستاویزات ان کے ہاتھ لگیں، جن کو بعد میں تہران پیپرز کے نام سے شائع کیا گیا۔ پاکستان سے متعلقہ کاغذات میں ایک سی آئی اے کے ایجنٹ کا ذکر بھی ہے، جو کہ بلوچستان میں پاکستانی فوج کے خلاف لڑا تھا، اس کا کوڈ نام میر چاکر تھا۔ پاکستان کے عوام آج اس کو امریکی طوطا کے حوالہ سے بھی جانتے ہیں۔ اسی پس منظر میں شاہ ایران رضا شاہ پہلوی نے جو مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد پاکستان کی جغرافیائی سلامتی سے مایوس ہو گئے تھے، ساواک کے ذریعے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی تحریک کو ختم کرنے کے لئے پاکستان کی حکومت کی مدد کی اور ان کے ہی مشورے سے نواب اکبر بگٹی مرحوم کو گورنر بلوچستان مقرر کیا گیا تھا۔ مجھے نواب اکبر بگٹی نے ایک ملاقات کے دوران بتایا تھا کہ ساواک نے بلوچستان کے ساحلی علاقوں پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے۔
موجودہ حالات میں جب کہ ایم کیو ایم اعلیٰ سطح کی تحقیقات کے بعد بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، ان حالات میں مصطفی کمال کے لئے 24 اپریل کا جلسہ بہت اہم ہو گا، ہوا کا رُخ بتاتا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پسپا ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اس کے بڑے بڑے پُرجوش حامی پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے متبادل نئی سیاسی جماعت کی ضرورت کا احساس کراچی، حیدر آباد اور میرپور خاص کے ساتھ ساتھ جنوبی پنجاب کو بھی ہے، لہٰذا توقع ہے مصطفی کمال کی نوزائیدہ جماعت پاک سر زمین پارٹی کی جنوبی پنجاب میں خاصی پذیرائی ہو گی۔ ان علاقوں میں مشرقی پنجاب سے ہجرت کرنے والے مصطفی کمال کی پارٹی کو ترجیح دیں گے اور سرائیکی بیلٹ میں 1998ء کی مردم شماری کے مطابق یہاں 40 فیصد سے زائد مہاجر کمیونٹی آباد ہے۔ ان میں راجپوت کمیونٹی کی تعداد باقی کمیونٹیوں سے زیادہ ہے اور انیس قائم خانی کی کارکنوں میں زیادہ مقبولیت ہے اور اسی وجہ سے ایم کیو ایم سیاسی دباؤ اور اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے میں دشواری محسوس کر رہی ہے۔ کراچی کے ضمنی انتخابات میں متحدہ کی حالیہ کامیابی مصطفی کمال کی پارٹی کے لیے دھچکا ہے۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے درمیان گزشتہ دنوں ہونے والی ملاقات میں پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کو بظاہر پوری قوت کے ساتھ جاری رکھتے ہوئے اسے مزید سخت کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں انسداد دہشت گردی کے لئے ہونے والی کارروائی اس طرح جارحانہ انداز میں نہیں کی جا رہی جیسے فاٹا، وزیرستان یا کراچی ہیں‘ لیکن حیرت ناک اور تشویشناک بات یہ ہے کہ قبل ازیں پنجاب حکومت صوبے میں انتہا پسندوں کے خلاف آرٹیکل 147 کے تحت آپریشن جیسا کہ سندھ میں ہو رہا ہے کی تجویز کو مسترد کرتی رہی ہے، تاہم موجودہ حالات میں اور بھارتی نیول کمانڈر کی گرفتاری اور سانحہ لاہور کے بعد اب پنجاب میں سیاسی اور جغرافیائی بنیادوں پر وجود میں آنے والے نو گو ایریا جس کا مرکزی ہیڈ کوارٹر راجن پور، روجھان اور رحیم یار خان کے کچے علاقوں میں موجود ہے۔ اس پر آپریشن افواج پاکستان کرے گی تو پنجاب حکومت اس آپریشن میں آڑے آئے گی۔ اگر آپریشن سندھ، کراچی کی طرز پر جارحانہ انداز میں چلتا رہا جیسے کہ 27 مارچ کی رات کو دیکھنے میں آیا تھا تو کچھ حلقوں میں اضطراب کی لہر نہیں نمودار ہو گی۔ اس وقت پاکستان ایک نازک دوراہے پر کھڑا ہے، اگر بھارتی ایجنٹوں اور انتہا پسندوں کی لہر کو ختم کرنا ہے تو وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کو دوٹوک فیصلے کرنا ہوں گے۔ بدقسمتی سے قوم کو سیاستدانوں سے نہیں بلکہ تاجروں سے پالا پڑا ہے، پاکستان کی تاریخ کا سچ یہی ہے کہ یہاں سیاسی نشوونما کی بقا کا راز تاجرانہ سیاست میں ہی پوشیدہ ہے۔ لاہور اور اسلام آباد میں 27 مارچ کی رات کو ہوا۔ پھر وزیر اعظم نواز شریف کا قوم سے مایوس کن خطاب اور ایک حکومتی شخصیات کی شوگر مل سے چند بھارتی انجنیئروں کی گرفتاری کی افواہ اور وزیر اعظم کا امریکہ کا اہم دورہ منسوخ کرنا، اس سے دنیا میں کوئی اچھا تاثر نہیں گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں