"KDC" (space) message & send to 7575

پانامہ لیکس کے عمیق مضمرات… (1)

پانامہ لیکس کی وجہ سے شریف برادران کی بزنس ایمپائرکی کشتی بھنور میں پھنس گئی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی میڈیا مینجمنٹ ٹیم انہیں متنازعہ بنانے میں کامیاب رہی۔ قرائن سے واضح ہے کہ وزیر اعظم کو شدت سے اندازہ ہو چکا ہے کہ آف شور کمپنیوںکے معاملے میں حسین نواز، حسن نواز اور مریم نواز براہ راست ملوث ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اس سارے معاملے میں فکرمند نہیں ہیں‘ کیونکہ پانامہ لیکس کے مطابق ان کے اہل خانہ میں سے کسی کے پاس آف شور کمپنی نہیں ہے۔ اس میگا سکینڈل کے باعث سیاسی، انتظامی اور میڈیا کے امور میں متحرک محترمہ مریم نواز کے لئے حالات ناسازگار ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کی اخلاقی اعتبار سے اقتدار پر گرفت کمزور ہوتی جا رہی ہے اور وہ اپنے اہل خانہ کے حرص کی وجہ سے اقتدار سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
پانامہ لیکس کی دستاویزات سے آتش فشاں پھٹ پڑا ہے جس سے یہ راز کھلا کہ اربوں ڈالر کے مالک بزنس ٹائیکون، بااختیار اور مالدار لوگ اپنی دولت کیسے چھپاتے ہیں۔ یہ کروڑوں کاغذات پانامہ کی ایک ایسی کمپنی (موزیک فونسیکا) سے چوری چھپے باہر آئے‘ جس کے بارے میں اس کے کھاتہ داروں کو یقین تھا کہ یہ ایک رازدار کمپنی ہے۔ آسمان کو چھونے والی دستاویزات کے پلندے سے معلوم ہوا کہ کمپنی کے گاہک کس طرح کالے دھن کو سفید کرتے تھے، دولت پر لگی پابندیوں سے کس طرح محفوظ ہو کر نکلتے تھے اور ٹیکس جمع کرنے والوںکو کیسے دھوکہ دیتے تھے۔ پانامہ لیکس کی دستاویزات کی تعداد کے حوالے سے ایک برطانوی ادارے نے اس کا موازنہ وکی لیکس سے اس طرح کیا ہے کہ اگر وکی لیکس کی معلومات امریکہ کے کسی بڑے شہر کی آبادی کے برابر تھیں تو پانامہ کے کاغذات سے ملنے والی معلومات بھارت کی آبادی کے برابر ہیں۔ ان میں دنیا 
کے بارہ ملکوں کے موجودہ یا سابق حکمرانوں کے نام آئے ہیں۔ ان میں وہ امرا بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنے ملکوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ حکمرانوں کے ساٹھ سے زیادہ رشتے دار، شرکائے کار اور دوسرے سیاست دان بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ کچھ نمایاں ناموں میں روس کے صدر پیوٹن کے ساتھی بھی شامل ہیں۔ ان کاغذات نے دنیا میں جن ناموں کی دھوم مچائی ان میں چین کے صدر کے برادر نسبتی، یوکرین کے صدر اور برطانوی وزیر اعظم کے آنجہانی والد شامل ہیں۔
میاں محمد نواز شریف کے خاندان کے پاس غیر ملکی کمپنیوں میں دولت ہے، لندن میں مہنگی ترین جائدادیں ہیں اور یہ سب کچھ 2006ء میں حسین نواز انٹرپرائزز قائم ہونے سے پہلے کی خرید کردہ ہیں۔ اس کے لئے ماضی کے اخباری تجزیوں اور کالموں سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے‘ جو شریف فیملی کے بارے میں 1990ء سے1999 ء کے دوران لکھے گئے۔ محترمہ عابدہ حسین کی کتاب سے بھی نواز فیملی کی کرپشن کے بارے میں قیمتی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ ان انکشافات کی موجودگی میں کسی فرانزک آڈٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یہ حقائق پانامہ لیکس میں بھی پوری طرح آشکار ہیں۔ وزیر اعظم اور ان کا مضبوط میڈیا سیل ان کی تردید کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ وہ اپنی مخصوص حکمت عملی کے تحت ان سے مالی فوائد حاصل کرنے والے میڈیا پرسنز کے ایک گروپ کے ذریعے اپنی بے گناہی کا بے ہنگم انداز میں دفاع کرانے کی کوشش کر 
رہے ہیں۔ شنید ہے کہ 12 اکتوبر 1999ء کی رات حسین نواز کو جب زیر حراست لیا گیا تو ان کی جیب سے تقریباً دس ہزار پونڈ برآمد ہوئے تھے‘ جو حسب ضابطہ ملکی خزانے میں جمع کرا دیے گئے۔ جب انکوائری یا جوڈیشل کمشن تشکیل پائے گا تو اسے اس آرمی آفیسرکا نام بھی بتا دیا جائے گا‘ جس نے یہ رقم برآمد کی تھی۔
وزیر اعظم کی خواہش ہے کہ کسی نہ کسی طرح ابہام پیدا کرکے قومی خیانت کے اس معاملے کو قالین کے نیچے چھپا دیا جائے؛ چنانچہ انہوں نے اپنے اہل خانہ پر لگے الزامات کی تحقیق کے لئے ایک بے اختیار و بے بس کمشن قائم کرنے کا اعلان کیا جو اپوزیشن کے طوفان خیز بیانات کی نذر ہو گیا ہے۔ مجوزہ کمشن صرف وزیر اعظم کے خاندان ہی نہیں ان دو سو کاروباری شخصیات اور صنعت کاروں کے مالی معاملات کی بھی جانچ پڑتال کرے گا‘ جن کے نام پانامہ لیکس میں آئے ہیں۔ یہ کمشن اپنا ٹائم فریم خود ہی مقرر کرے گا‘ جس سے یہ خدشہ پیدا ہوا کی انکوائری اگلے پانچ سال تک بھی جاری رہ سکتی ہے۔
ہمارا حکمران طبقہ اپنی اصلاح پر مائل نظر نہیں آتا۔ یہ طاقتور کاروباری خاندان اپنے کاروبار کی وسعت کے لئے اقتدار میں آیا تھا۔ بیوروکریسی، عدلیہ، میڈیا، پولیس اور کسی حد تک عسکری اور سول ایجنسیوں میں اس کا اثر و رسوخ عیاں ہے۔ قوم پسماندگی کے کینسر میں مبتلا ہو چکی ہے۔ ادھر انتخابی نظام ایسا ہے کہ اس میں کیسی ہی اصلاحات کرا لیں، اقتدار وہی اشرافیہ سنبھالے کی جس کے سمندر پار دولت کا خزانہ موجود ہے۔ ہو سکتا ہے میاں محمد نواز شریف انتخابی جنگ کی پالیسی بدلتے ہوئے پی پی پی کو آگے بڑھنے کے لئے مواقع فراہم کریں۔ تحریک انصاف کا سیاسی ڈھانچہ انٹرا پارٹی الیکشن کی نذر ہوتا جا رہا تھا، لہٰذا عمران خان نے پارٹی الیکشن کو مؤخر کرنے کے بارے میں میری تجویز کو وزن دیا ہے۔
عسکری قیادت آپریشن ضرب عضب سے ملک دشمنوں کو جھٹکا دے کر معاملے کو اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہے۔ سیاسی خارزار سے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے بھی ایک ایسا ہی ضرب عضب انتخاب درکار ہے۔ اگر پاکستان نے بدعنوانی اور نااہلی کے اندھیروں سے نکل کر روشنی کی طرف سفر کرنا ہے تو لازم ہے کہ فوج پس منظر میں رہ کر قوم کو درست راستہ دکھائے۔ سپریم کورٹ بھی اس کے ہم قدم ہو۔ یہ دونوں ادارے درکار آئینی ترامیم کراتے ہوئے چین، فرانس، انڈونیشیا، ترکی اور سری لنکا کی طرح صدارتی نظام کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ صدر ڈیگال کی پانچویں جمہوریت کے خاکے سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ فوج کے لئے ملک کو کرپشن کی دلدل سے نکالنے کا ایک موقع پیدا ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ کرپٹ حکمرانوں اور سیاستدانوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے تمام محب وطن سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی، میڈیا اور وکلا برادری کو بھی آگے بڑھنا ہو گا۔ اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ فعال اور تنظیمی طور پر مضبوط وکلا برادری ہے، ریاست کو بچانے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور ملک بھر کی صوبائی اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشنز کو مفادات سے بالاتر ہو کر ریاست کو محفوظ راستہ دکھانا ہو گا۔ اسی طرح پاکستان کی جرنلسٹ ایسوسی ایشنز اور پریس کلبوں کے ہزاروں صحافیوں کو‘ جن کا دل ریاست کے لئے دھڑکتا ہے‘ ماضی میں 1969ء، 1977ء اور2007 ء کی طرز پر اپنا بھرپور کردار کرنا ہو گا۔ ریلوے یونین‘ جس کی قیادت نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف کامیاب تحریک چلائی تھی، کو بھی اپنے فعال کردار کا تعین کرنا ہو گا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں