"KDC" (space) message & send to 7575

پانامہ لیکس کے عمیق مضمرات… (آخری قسط)

قومی قیادت کے ہاتھ بد عنوانی سے آلودہ ہیں،کیا بدعنوان حکمران ٹولے ہی ہماری قسمت میں لکھ دیئے گئے ہیں؟ کیا ہماری قسمت اس لئے تبدیل نہیں ہو سکتی کہ حکومت عوامی رائے اپنے حق میں تبدیل کرنے کے لئے چند اینکرز اور میڈیا پرسنزکو حکومتی اداروں سے لاکھوں روپے مشاہرے فراہم کر رہی ہے؟ حکمران جماعت کی مالی بدعنوانیوںکی وجہ سے پاک چین اقتصادی راہداری کو دھچکا لگنے کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے کیونکہ پانامہ لیکس میں عوامی جمہوریہ چین کے صدرکے خاندان کا بھی ذکر ہے، تاہم وہاں اس پر پراسرار خاموشی ہے۔ اب خلیجی ممالک، برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، سویڈن ،ہالینڈ اور انڈیا میں اس سلسلہ میں تحقیقات شروع ہو چکی ہے۔ ان دستاویزات میں دنیا کا شاید ہی کوئی بڑا ملک محفوظ رہا ہو۔ جمہوری ممالک میں پانامہ لیکس کی وجہ سے بے چینی پھیل چکی ہے، پاکستان عدم استحکام کا شکار ہونے کے قریب ہے، ریاست کی مشکلات بڑھ چکی ہیں۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں کمشن بنایا جائے جو تحقیقات کرے کہ وزیر اعظم کے خاندان نے اتنی دولت کس ذریعے سے حاصل کی۔ یہ کمشن تمام ارکان پارلیمنٹ، سابق اور موجودہ وزراء، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے حاضر اور ریٹائرڈ ججز، با اثر جاگیر داروں، بینکرز، بیوروکریٹس اور مخصوص کردار کے حامل میڈیا پرسنزکے ملک اور بیرون ملک اثاثوں کی تحقیقات بھی کرے۔
وزیر اعظم نواز شریف مبینہ طور پر بھارتی کلچر اورکھانوں کو پسند کرتے ہیں، ان کے واجپائی، نریندر مودی اور بھارت کے کھرب پتی تاجروں سے ذاتی تعلقات ہیں، ان کے خاندان کا بھارت میں اربوں ڈالرکا کاروبار بھی ہے جبکہ پاکستان میں ان کی شوگر ملز میں بھارتی انجینئرز کام کرتے ہیں، اس لئے بھارتی سیاست کی بھی ان کو پیروی کرنی چاہئے۔ بھارت کے آنجہانی وزیراعظم نرسمہا رائوکے بیٹوں پر ناجائز دولت کمانے کے الزامات لگے تو انہوں نے صاف شفاف انکوائری کو یقینی بنانے کے لئے اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا تھا، سال سے زیادہ عرصے کے بعد جب انکوائری کمشن نے ان کے بیٹوں کو باعزت بری کر دیا تو وہ دوبارہ اپنے منصب پر آئے اور بھارت میں قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دیا۔ وزیر اعظم پاکستان کو بھی بھارتی روایات کی پیروی کرتے ہوئے اپنے عہدے سے علیحدگی اختیار کر لینی چاہیے تاکہ سپریم کورٹ کا مقرر کردہ کمشن آزادانہ تحقیقات مکمل کر سکے۔ اگر وہ اس میں سرخرو ہوجاتے ہیں تو دوبارہ اپنا منصب سنبھال کر قومی اسمبلی کو تحلیل کر کے قبل از وقت انتخابات کروا دیں۔ ان اقدامات سے میاں نوازشریف یقیناً بھاری اکثریت سے دوبارہ کامیاب ہو جائیںگے۔
پانامہ لیکس کا سکینڈل آنے کے بعد وزیر اعظم پریشان ہیں، جوڈیشل کمشن قائم کرنے کا فیصلہ اسی کی عکاسی کرتا ہے۔ لیکس کے مطابق انہوں نے برٹش ورجن آئی لینڈ میں چارکمپنیاں رجسٹرکرائیں اور انہی کے ذریعے برطانیہ کے پوش علاقے میں چھ قیمتی جائدادیں خریدیں۔ ان پر الزام یہ ہے کہ یہ رقوم کرپشن کے ذریعے جمع کی گئیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو وزیر اعظم کے خاندان کو ثابت کرنا ہوگاکہ وہ پاکستان سے رقوم لے کر نہیںگئے۔ اگر یہ رقم سعودی عرب سے منتقل ہوئی یا برطانیہ میں کمائی گئی تو پھر اسے چھپانے کے لئے آف شور کمپنیوں کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ پاکستان کے عوام جاننا چاہتے ہیںکہ 1992 ء میں موٹروے جو 6 ارب روپے سے شروع ہوکر 35 ارب میں مکمل ہوئی اس میں تو کرپشن نہیں کی گئی کیونکہ لندن کے اپارٹمنٹس بھی1992 ء اور1998 ء کے درمیان خریدے گئے تھے۔ صدیق الفاروق1996 ء میں ان اپارٹمنٹس میں بطور مہمان مقیم رہ چکے ہیں۔ محترمہ کلثوم نواز بھی اعتراف کر چکی ہیں کہ اپارٹمنٹس 1990ء کے بعد خریدے گئے تھے۔حسین نوازکا موقف ہے کہ وہ 1990ء سے کاروبار سے منسلک ہو چکے تھے لیکن اس وقت ان کی عمر غالباً 17-18 سال ہو گی اور اس وقت الیکشن قوانین کے تحت وہ زیر کفالت کے زمرے میں آتے تھے۔
ان تمام متنازعہ امورکو طے کرنے کے لئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں آزاد جوڈیشل کمشن بنا کر کارروائی کو غیر جانبدارانہ، شفاف اور بین الاقوامی معیار کے مطابق آگے بڑھانا ہوگا۔ جنرل راحیل شریف کے 6 ستمبر 2015ء کے مختصر مگر جامع اور جاندار خطاب کو سامنے رکھتے ہوئے وزیر اعظم کو اپنے عہدے سے دستبردار ہوکر نئے لیڈر آف دی ہاؤس کا انتخاب کرنا ہوگا، یہی قوم کی آواز ہے۔ اعلیٰ سطح کی تحقیقات کر کے قومی مجرموں کو بے نقاب کیا جائے تاکہ آئندہ ملکی سرمایہ بیرون ملک منتقل نہ ہو سکے۔ دنیا بھر کے 511 بینک اس خفیہ کاروبار میں ملوث ہیں، لہٰذا چیف جسٹس از خود نوٹس لیتے ہوئے ریاست کو قومی مجرموں سے نجات دلائیں۔
وزیر اعظم نواز شریف نے قوم سے اپنے خطاب میں اتفاق فاؤنڈری کو بھٹو دور میں قومیانے کا ذکر توکیا لیکن یہ نہیں بتایاکہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں گورنر پنجاب جنرل جیلانی کے کہنے پر 1979ء میں نہ صرف شریف خاندان کو واپس کر دی گئی بلکہ 80 کروڑ روپے زر تلافی بھی سرکاری خزانے سے ادا کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی شریف خاندان نے اتفاق فاؤنڈری کے دو ہزار ملازمین کو برطرف کر دیاتھا۔ صدر ضیاء الحق کے دور سے ہی شریف خاندان کو نوازا جا رہا ہے۔ اپنے خاندان کی داستان جس طرح وزیر اعظم نے بیان کی، اس میں انہوں نے کئی اہم باتیں پوشیدہ رکھیں۔ اپنی جلا وطنی کے حوالے سے سعودی شاہی خاندان کے احسانات کا ذکر بھی نہیںکیا۔ سعودی شاہی خاندان کا مراسلہ سابق صدر پرویز مشرف کے انتہائی قریبی معتمد کے پاس موجود ہے جس میں نواز شریف کے بارے میں ایسے ریمارکس دیے گئے ہیں کہ اگر جنرل مشرف انہیں اشتہار کی صورت میں عربی، اردو اور انگلش زبانوں میں شائع کروا دیں تو نواز شریف کے پیروکاروں میں سخت مایوسی پھیلے گی۔ اسی طرح نواز شریف نے عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی شق 42-A کے تحت1993 ء سے 2013ء تک کے انتخابات کے مواقع پر جو اثاثہ جات ظاہر کئے ان میں حقائق چھپائے گئے اور ان میں آف شور کمپنیوں کا ذکر نہیں کیا گیا۔ الیکشن قوانین کی شق 42-A اور 82-A کے تحت یہ ایک سنگین جرم ہے۔1990 ء میں حسین نواز اور حسن نوازکی عمروں کا تعین کیا جائے گا اور ریکارڈکے مطابق اگر وہ زیرکفالت کے زمرے میں آتے تھے تو یہ بھی قانون شکنی کے زمرے میں آئے گا۔ وزیر اعظم طبی معائنے کے لئے لندن چلے گئے ہیں، بادی النظر میں وہ خاندانی مشاورت کے بعد وزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہو کر اپنے لئے محفوظ راستہ تلاش کرنے کے لئے سعودی عرب، برطانیہ اور امریکہ سے ضمانت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ طبی دورہ اسی نوعیت کا نظر آ رہا ہے جس طرح 22 نومبر2011ء کو آصف علی زرداری نے طبی معائنہ کی آڑ میں دبئی میں پناہ حاصل کی تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں