"KDC" (space) message & send to 7575

اقتدار چھوڑ دیں!

پانامہ لیکس کے بعد سیاسی صورت حال ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف ذاتی سطح پر شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ وزیر اعظم کے خاندانی تنازعات کو سوشل میڈیا کے ذریعے چھپایا نہیں جا سکتا۔ موجودہ حالات میں مالیاتی بحران مزید سنگین ہوتے جائیں گے۔ عدالتی کمیشن کی تشکیل سے وزیر اعظم نواز شریف کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ وزیر اعظم نے کراچی، تھر، بیرون ممالک کے دورے منسوخ کر کے اپنی راہ میں مزید کانٹے بچھا دیے ہیں۔ عمران خان کے گذشتہ سال کے دھرنے سے زیادہ خطرناک سمت کی طرف قوم جا رہی ہے۔ عمران خان نے رائے ونڈ کی طرف لانگ مارچ کرنے کا جو عندیہ دیا ہے اور اس کے رد عمل میں رانا ثناء اللہ، پرویز رشید اور خواجہ سعد رفیق جس طرح سیاسی پریشر میں اضافہ کر رہے ہیں‘ اس سے ملک 5 جولائی 1977ء کی طرف جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ جس انداز میں حکمران جماعت کے ارکان صبروتحمل کا دامن چھوڑ رہے ہیں، اس سے غلام مصطفی کھر کی وہی پالیسی سامنے آرہی ہے‘ جب انہوں نے قومی اتحاد کی تحریک کو خانہ جنگی میں تبدیل کرنے کی حکمت عملی بنائی تھی۔5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے قوم سے خطاب میں ملک میں خانہ جنگی کی فضا کو مارشل لاء کا جواز بنا کر پیش کیا تھا۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے پانامہ لیکس کے بارے میں ریمارکس دیئے ہیں۔ ہر کمیشن بنانے کی ذمہ داری انتظامیہ کی ہے، اور اسی کے پاس تحقیقات کے لئے ادارے موجود ہیں۔ عدالت قانون کے دائرے میں کام کرنے کی پابند ہے۔ چیف جسٹس نے بھی موجودہ نظام کی خامیوں پر اظہار تاسف کیا ہے۔ پانامہ لیکس کے حوالے سے درجۂ حرارت روزبروز بڑھتا جا رہا ہے۔ ادھر وزیر اعظم کی کچن کیبنٹ اب کمزور تر ہوتی جا رہی ہے۔ مریم نواز کے حکومتی ٹیم کی پالیسی پر اثرانداز ہونے سے وزراء میں اختلاف پیدا ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم
اپنی صحت کے حوالے سے صدر ایوب خان کی پوزیشن پر آگئے ہیں جب ان کی علالت کی وجہ سے جنرل یحییٰ خان نے عملاً اور ظاہراً ایوان صدر پر نگاہ رکھی ہوئی تھی اور صدر ایوب خان کے ملٹری سیکرٹری جنرل محمد رفیع کو بھی مفلوج کر دیا گیا تھا۔ انجم نیاز کے والد چونکہ صدر ایوب خان کے پرنسپل سیکرٹری تھے، وہ اس معاملے پر حالات سے پردہ اٹھا سکتی ہیں۔ صدر ایوب خان کے معتمد خاص الطاف گوہر مرحوم بھی اختیارات سے محروم کر دیے گئے تھے۔ اب وزیر اعظم کو حق گوئی کے ساتھ مشورہ دینے کی پوزیشن میں کوئی نہیں ہے اور خاندان کے بعض ارکان کی نگاہیں وزارت عظمیٰ کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ وزیر اعظم کو احساس ہونا چاہئے کہ قوم ایسے کسی انکوائری کمیشن کو تسلیم نہیں کرے گی جس کے ذریعے وہ اپنے بیٹوں کی آف شور کمپنیوں کو بچانا چاہتے ہیں۔ جس طرح سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے بیٹے کو بچانے کے لئے نام نہاد کمیشن بنا کر اسے محفوظ راستہ دے دے دیا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف کے لئے مشورہ یہی ہے کہ وہ پانامہ لیکس کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر افہام و تفہیم سے ایک ایسا جوڈیشل کمیشن بنائیں جس پر سب متفق ہوں اور جب تک انکوائری کمیشن اپنے منطقی نتیجہ پر نہیں پہنچتااس وقت تک وزیر اعظم اپنے عہدے سے رضا کارانہ طور پر علیحدہ رہیں۔
دنیا کے 245 ممالک میں پاکستان کرپشن میں پہلے نمبر وں پرمتمکن ہے، جب کہ تعلیم ، صحت اور عوام کی خوشحالی کے اعتبار سے وہ آخری نمبروں پر کھڑا ہے۔ 1977 ء میں بھٹو حکومت کی بدترین انتخابی دھاندلی کے نتیجہ میں جب ملک گیر تحریک شروع کی گئی تو اس تحریک کا رخ تبدیل کرنے کے لئے ملک میں مسلح خانہ جنگی کی حکمت عملی غلام مصطفی کھر نے تیار کی تھی جو مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف امریکی سازش تھی۔ اسی طرح رانا ثناء اللہ ، خواجہ سعد رفیق اور پرویز رشید جس طرح کی زبان استعمال کر رہے ہیں‘ در اصل وہ نواز شریف کو بند گلی میں کھڑا کر رہے ہیں۔ نواز شریف خوش قسمت ہیں کہ اپوزیشن منقسم ہے اور جنرل راحیل شریف سے حکومت کو کوئی خطرہ فی الحال نہیں ہے۔ اگر جاتی امرا جاتے ہوئے خون ریز تصادم ہو گیا تو اس شام ریاست کو بچانے کے لئے آئین کے آرٹیکل 147 اور 234 کے تحت ''قوم سے خطاب‘‘ لازمی ہو جائے گا ۔ لہٰذا وزیراعظم اپنے ہونہار بیٹوں کی اربوں ڈالر کی کرپشن بچانے کے لئے سیاست کو خانہ جنگی سے آلودہ نہ کریں بلکہ پارلیمنٹ میں خود آ کر وزیر اعظم برطانیہ کیمرون کی طرح حالات کا سامنا کریں اور اپوزیشن کی رضا مندی سے کمیشن بنانے کا اعلان کریں۔ وزیر اعظم اپنے فیصلوں کے لیے جدہ، ریاض، لندن اور واشنگٹن کی بجائے اسلام آباد کو مرکز بنائیں۔
پانامہ لیکس نے دونوں خاندانوں میں خلیج پیدا کر دی ہے اور چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس کے بر عکس میڈیا کے توسط سے یہ تاثر پھیلایا گیا کہ وزیر اعظم کی عدم موجودگی میں وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور اسحاق ڈار، محترمہ مریم نواز اور سیکرٹری ٹو وزیر اعظم فواد حسن فواد ملک کا نظم و نسق چلائیں گے۔ یہ آئین و قانون کے منافی ہے۔ مہذب جمہوری حکومتوں میں من پسند میڈیا اینکرز کے ذریعے حکومتی کنڑول حاصل نہیں کیا جاتا اور اپنے مخصوص میڈیا پرسنز کے ذریعے حکومت کی پالیسیاں مرتب نہیں کی جاتیں۔ لہٰذا اب جب کہ آئندہ ہفتے میں شدید بحران کے آنے کے امکانات ہیں، ایسے حالات میں میڈیا ٹیم کو تبدیل کرنا وزیر اعظم کے مفاد میں ہے۔ شریف فیملی میں خاندانی اختلافات کی خبریں حکومتی میڈیا ٹیم کے ناخواندہ میڈیا پرسنزکے ذریعے پھیلائی جا رہی ہیں اور حکومتی خاندان میں بظاہر ایسے اختلافات نہیں ہیں جس سے حکومت کی گرفت کمزور ہوتی ہوئی نظر آئے۔ جس طرح وزیر اعظم نواز شریف کی ٹانگ کے سن ہونے سے ان کی ٹانگ نے کام چھوڑ دیا اور ٹانگ میں منجمد خون سے دماغ سن ہو سکتا تھا‘ اسی طرح سابق صدر پرویز مشرف کی ٹانگ بھی سن ہو رہی تھی اور فالج کا شدید خطرہ لاحق ہو گیا تھا تو وزیر اعظم کی کابینہ کے ارکان نے ان کا مذاق اڑایا تھا اور ان کی تضحیک کی تھی ‘بلکہ اعتزاز احسن جیسے دانشورنے بھی صدر پرویز مشرف کا مذاق اڑایا تھا حالانکہ وہ خود بھی اسی مرحلے سے گزرے تھے۔ آج وزیر اعظم نواز شریف کو بھی وہی بیماری لاحق ہے جس سے صدر پرویز مشرف گزر رہے ہیں۔
میاں نواز شریف کی بیماری اگر طول پکڑ گئی تو پھر ایوان میں نئے قائد ایوان کے انتخاب کے موقع پر پارٹی دھڑے بندیوں کا شکار ہو جائے گی۔ جون 1977ء میں قومی اتحاد تحریک اور اگست 2014ء کی احتجاجی تحریکوں کی مثالیں موجود ہیں۔ اگر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اپوزیشن کی جانب سے انتخابات کے کامیاب بائیکاٹ کے بعد قومی اتحاد کا مطالبہ تسلیم کر لیتے تو وہ دوبارہ اقتدار میں آجاتے اور ملک ترقی کی شاہراہ پر جاپان کے آگے نکل جاتا۔ اگر چار حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق کا عمران خان کا مطالبہ تسلیم کر لیا جا تا تو اگست 2014ء میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی تحریک آگے نہ بڑھتی۔ وزیر اعظم نواز شریف خوش قسمت تھے کہ پارلیمنٹ ان کی پشت پر کھڑی تھی‘جبکہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو بد قسمت تھے کہ ان کے ساتھ مولانا کوثر نیازی جیسے لیڈر کھڑے تھے اور انہی کے چند وزراء نے انہیں نا قابل واپسی کے مقام پر لا کھڑا کیا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف کو ادراک ہونا چاہئے کہ آف شور کے معاملے سے اپوزیشن کو توانائی حاصل ہو گئی ہے کیونکہ بین الاقوامی سطح پر آف شور مخالف تحریک عالمی مسئلہ بن چکی ہے۔ انہیں بھارت سے سیاسی سبق حاصل کرنا چاہئے جہاں ان کے دوست نریندر مودی نے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن تشکیل دے کر صورت حال پر قابو پا لیا ہے۔ اپنی پوزیشن کی وضاحت کے لئے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون بھی مستعفی ہونے کا سوچ رہے ہیں۔
اب اختلافات بھلانے اور تعاون بڑھانے کا وقت ہے۔ وزیراعظم نواز شریف فوری طور پر ایسے مشیران کو بر طرف کریں جو ان کے خاندانی معاملات کو متنازع بنا کر ان کے خاندانی معاملات کا شیرازہ بکھیرنے کے در پے ہیں، ان حالات میں وزیر اعظم کشیدگی اور محاذ آرائی کو ختم کرنے کے لئے باہمی تعاون کی راہ اپناتے ہوئے اور قومی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے وزارت عظمیٰ سے وقتی طور پر دستبردار ہو جائیں کیونکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیر اعظم اپنی علالت کے دوران حکومتی ، انتظامی، عسکری اور خاندانی معاملات سے الگ تھلگ رہیں گے اور سوائے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے کسی سے بھی رابطے میں نہیں رہیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں