"KDC" (space) message & send to 7575

حقائق سے چشم پوشی

امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان جان کربی نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں کہا ہے کہ پانامہ لیکس کے معاملے پر پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف سے متعلق کوئی بھی فیصلہ پاکستان کے عوام کریں گے کیونکہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ امریکہ کرپشن کے مسئلے کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی متعدد مرتبہ کرپشن کے معاملے پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں کہ کرپشن کی وجہ سے دنیا بھر میں انتہا پسندی پھیلتی ہے اور معاشی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے جس کے معاشرے کے مختلف طبقات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کرپشن بھی ایک مسئلہ ہے جس کے متعلق پاکستان کے عوام کو خود فیصلہ کرنا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بین السطور میں پاکستان کے متعلق بہت سی باتیں کہہ دی ہیں ‘ وزیر اعظم نواز شریف ‘ عوامی نمائندگان اور موجودہ اورسابقہ حکومتی ارکان خود بتا دیں کہ ان کے پاس جو دولت ہے وہ کہاں سے آئی اور کہاں موجود ہے، اثاثے جات کو ڈیکلیئر کرنے سے پانامہ لیکس کا مسئلہ از خود حل ہو جائے گا۔نواز شریف پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں، وہ صرف اپنے خاندان کے وزیر اعظم نہیں ہیں، انہیں اس مسئلے کو اس طرح حل کرنا ہے جس طرح دوسرے ملکوں کی سیاسی قیادتیں کر رہی ہیں۔ سب سے پہلے وزیر اعظم اپنے اور اپنے خاندان کی آمدنی ‘خرچ اور ٹیکس کے گوشوارے پارلیمنٹ کے سامنے پیش کریں اور حکم دیں کہ تمام سیاستدان جو پارلیمان میں ہیں یا 1985 ء سے اب تک کسی بھی دور میں پارلیمان کا حصہ رہے ہیں اپنے گوشوارے عوام کے سامنے پیش کریں جو پارلیمانی ویب سائٹ پر اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر دکھائے جائیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر ملک میں خونی انقلاب کی راہ ہموار ہو جائے گی جس کی وزیر اعلیٰ شہباز شریف بار بار نشاندہی کر چکے ہیں۔ پانامہ لیکس کے تناظر میں وزیر اعظم نواز شریف آئین کے آرٹیکل 62 اور 91 سے انحراف کر چکے ہیں اور اپنے حلف کی پاسداری کے معیار پر پورے نہیں اتر رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اثاثہ جات کو ویب سائٹ سے ہٹانے کی جو منطق پیش کی ہے وہ حقائق کے بر عکس ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کو آرڈر 2002 ء کے آرٹیکل 6 کے تحت مکمل اختیارات حاصل ہیں۔
پانامہ لیکس کے معاملے کو تقریباً تین ہفتے سے زائد کا عرصہ گذر جانے کے باوجود ملک کی سیاسی قیادت کے درمیان سپریم کورٹ کی سربراہی میں کمیشن بنانے کے ٹی او آرز پر اختلافات برقرار ہیں۔ پانامہ پیپرز میں مبینہ طور پرخفیہ دولت سے قائم کی گئی سمندر پار کمپنیوں کی ملکیت کے حوالے سے اپنے اہل خانہ کے نام سامنے آنے کے فوراً بعد وزیر اعظم نواز شریف نے قوم سے مایوس کن انداز میں‘ ذاتی مفادات کو مد نظررکھتے ہوئے ‘عدالت عظمیٰ کے کسی سابق جج کی سربراہی میں انکوائری کمیشن کے قیام کے فیصلے کا اعلان کیا تھا۔ کئی معزز ججز کی جانب سے معذرت کے بعد جسٹس (ر) سرمد جلال عثمانی نے مکمل اختیارات دئیے جانے کی شرط پر کمیشن کی سربراہی پر آمادگی کا اظہار کر دیا تھا لیکن اپوزیشن لیڈر سیدخورشید شاہ ، عمران خان اور دیگر سیاسی جماعتوں نے جسٹس سرمدجلال عثمانی کی سربراہی میں کمیشن کے قیام کو مسترد کر دیا کیونکہ ان کی اہلیہ شرمین عثمانی حکمران جماعت کی رکن ہیں جس کی بنیاد پر ان کی سربراہی میں تحقیقات غیر جانبدار نہیں رہے گی، ویسے بھی جسٹس (ر) عثمانی کے نواز شریف سے ذاتی تعلقات نومبر 2007 ء کے بعد سے چلے آرہے ہیں۔ جسٹس سرمدجلال عثمانی تین نومبر 2007 ء کی ایمرجنسی کے خلاف فیصلہ سنانے والے بنچ میں بھی شامل رہے تھے، حالانکہ یہ فیصلہ بھی بقول جسٹس (ر) یاسمین عباسی کے انتہائی متنازع تھا جسٹس(ر) یاسمین عباسی نے اس حوالے سے سپریم جوڈیشل کمیشن میں بھی ریفرنس دائر کر رکھا ہے۔ بقول جسٹس (ر) یاسمین عباسی کے 3 نومبر 2007 ء کے فیصلے پر جن ججز کے دستخط ہیں وہ بعد میں ان سے کروائے گئے تھے کیونکہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جس بنچ نے فیصلہ دیا تھا اس کے بیشتر ججز لاہور، کوئٹہ اور کراچی جا چکے تھے اور ان سے پچھلی تاریخوں میں بعد میں دستخط کروائے گئے تھے۔
دلچسپ پہلو بعد میں یوں سامنے آیا کہ اُنہیں 3 نومبر 2007 ء کی ایمرجنسی کے فیصلے کی وجہ سے انہیں سپریم کورٹ کے جج کا عہدہ چھوڑ کر واپس سندھ ہائی کورٹ کا جج بننا پڑا تھا۔ یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جو خود جسٹس عثمانی کے خلاف گیا تھا اور ان کی اپنی سینیارٹی بھی متاثر ہوئی تھی۔ ان کے بارے میں یہ بھی شنید رہی کہ انہی کی مشاورت سے نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کیس جسٹس رحمت جعفری ‘جو ان دنوں لاڑکانہ کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کا تقرر کیا گیا تھا جنہوں نے جناب نواز شریف کو ستر سال کی سزا ایوارڈ کی تھی۔ جسٹس (ر) عثمانی انتہائی شریف النفس اور آئین ، قانون کے ماہر اور کریمنل کیسز پر گہری گرفت رکھتے ہیں لیکن ان کی اہلیہ محترمہ کی سیاسی وابستگی اور ان کے شریف خاندان سے ذاتی تعلقات سے ان کی غیر جانبداری پر سوال اٹھائے گئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ جسٹس عثمانی سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بینچ کے قریبی ساتھی رہے ہیں اور اپنی شرافت کی وجہ سے ان کے کور کمانڈر جنرل عثمانی سے بھی اچھے مراسم تھے۔ ان حالات کے پیش نظر اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن کے قیام پر اصرار کرتی رہیں۔ اس بارے میں اپوزیشن جماعتوں کا موقف درست ہے۔ 
ایسے موقع پر جب پانامہ لیکس کی دستاویزی شہادتوں کے مطابق آف شور کمپنیوں میں تقریباً ڈھائی سو پاکستانیوں کی جانب سے اربوں ڈالر کی غیر قانونی سرمایہ کاری کا معاملہ ملکی سیاست میں تلاطم اور عوام کے ذہنوں میں طوفان برپا کر چکا ہے، عوام مایوس نظر آرہے ہیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کی دو کھرب سے زائد رقوم کی موجودگی کا ذکر اس لحاظ سے خاص اہمیت رکھتا ہے کہ سوئس بینکو ں میں جمع دولت سے متعلق عمومی تحقیق اور تاثر یہی ہے کہ یہ سب غیر قانونی طریقوں سے حاصل کی جانے والی رقوم ہیں۔ قوم کی بد قسمتی ہے کہ ملکی سرمایہ مشکوک انداز میں آف شور کمپنیوں اور سوئس بینکوں میں منتقل ہوتا رہے اور قوم قرضوں کے بوجھ تلے پستی رہے۔
پانامہ لیکس نے پاکستان میں ایک بڑا سیاسی بحران پیدا کر دیا ہے۔ 18 فروری 2008 ء کے قومی انتخابات کے بعد یہ حقیقی سیاسی بحران ہے ۔اس سے پہلے نومبر 2011 ء میں میمو گیٹ سکینڈل کا شدید بحران پیدا ہوا تھا اور صدر آصف علی زرداری کو رات کے اندھیرے میں ائیرایمبولینس کے ذریعے دوبئی بھاگنا پڑا اور جنرل اشفاق پرویز کیانی اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی پس پردہ حکمت عملی سے حالات کنٹرول میں رہے اور چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی مصالحت کی چادر تان لی تھی۔پانامہ لیکس کے پیدا کردہ بحران سے نکلنا وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کے لئے اگرچہ ناممکن نہیں ہے لیکن بہت مشکل ہے، دیگر داخلی اور بیرونی عوامل بھی اس بحران کی شدت میں اضافہ کر دیں گے جو صرف وزیر اعظم نواز شریف کو کرپشن کی آلودگی سے بچانا چاہتے ہیں۔ پانامہ لیکس کے معاملے کی تحقیقات میں جتنی تاخیر کی جائے گی، معاملہ اسی قدر بگڑتا جائے گا اور یہ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس معاملہ کی تحقیقات سے وزیر اعظم نواز شریف اپنے بیٹوں کو بچا سکیں گے یانہیں‘ کیونکہ وزیر اعظم نواز شریف کی اقتدار سے علیحدگی کے حوالے سے ملکی اور بین الاقوامی عوامل بھی اثر انداز ہونا شروع ہوگئے ہیں ۔ برطانوی وزیر اعظم کیمرون کو ملکہ برطانیہ کی طرف سے ریڈ کال آنے کا امکان قوی تر ہوتا جا رہا ہے۔اگرپانامہ لیکس کی تحقیقات نہیں کی جاتیں تو اس بات کا بھی وزیر اعظم نواز شریف کے مخالفین سیاسی فائدہ اٹھائیں گے اور اگر پانامہ لیکس کی تحقیقات پر سیاسی اتفاق پیدا ہو جا تا ہے تو کمیشن پر بہت زیادہ سیاسی دباؤ ہوگا ۔
وزیر اعظم نواز شریف اپنے اندرونی خاندانی اختلافات اور مالیاتی سکینڈلوں کی وجہ سے دباؤ میں آتے ہیں تو معاملہ ان ہاؤس تبدیلی تک نہیں رکے گا، اس بحران سے پارلیمانی نظام کی ناکامی کی راہ ہموار ہو جائے گی‘ لہٰذا وزیر اعظم نواز شریف پارلیمانی نظام کو بچانے کے لئے ان ہاؤس تبدیلی میں بھی غیر جانبدارانہ طریقہ اختیار کر یں۔ اگرا نہوں نے خاندانی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اقتدار بیگم کلثوم نواز کو اسی انداز میں پیش کیا جس طرح بہار کے وزیر اعلیٰ لالو پرشاد نے اپنی ہاؤس وائف ربڑی دیوی کو دیا تھا تو پھر مسلم لیگ (ن) کا شیرازہ بکھر جائے گا، لالو پرشاد تو سیاسی جھٹکا برداشت کر گئے تھے کیونکہ وہاں پر جمہوری نظام مضبوط بنیاد پر کھڑا ہے، یہاں مسلم لیگ کا حشر پیپلز پارٹی سے بھی بد تر ہوگا کیونکہ وزیر اعظم نواز شریف کے 1990ء1993 ء اور 1997 ء کے انتخابات میں کاغذات نامزدگی داخل کراتے ہوئے جن حقائق کو پوشیدہ رکھا گیا ہے‘ اب ریکارڈ سامنے آنے سے ان کی اہلیت پر سوالات اٹھنے شروع ہو جائیں گے اور عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 42-A اور 82 کے تحت کارروائی ہونے کے امکانات خارج از امکانات نہیں ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں