"KDC" (space) message & send to 7575

پہلے پاناما لیکس کی انکوائری کی جائے !

آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پاکستان کی سالمیت، یک جہتی اور خوشحالی کے لئے سب کا احتساب ضروری قرار دیا ہے کیونکہ کرپشن کی لعنت کے خاتمے تک پائیدار امن قائم نہیں ہو سکے گا ۔ پاکستان کی بیشتر سیاسی اشرافیہ کرپشن سے حاصل کی گئی دولت کی طاقت سے ہی اقتدار میں براجمان ہوتی رہی۔ 1950ء کی دہائی میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے پروڈا نافذ کیا جس کی زد میں سندھ کے بڑے بڑے جاگیردار سیاستدان آئے۔ جب اس کے اثرات پنجاب تک پہنچنے لگے تو یہاں کی طاقتور سیاسی اشرافیہ نے لیاقت علی خان کو ابدی نیند سلا دیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے 1958ء میںاقتدار سنبھال کر ایبڈو نظام جاری کیا تو پاکستان کے صف اول کے سیاستدان جن میں حسین شہید سہروردی، ممتازدولتانہ، جی ایم سید شامل تھے اس کی نذر ہوگئے۔ جنرل ضیاء الحق نے انہی کی پیروی کرتے ہوئے خان ولی خان کی تجویز پر احتساب کا سسٹم نافذکیا؛ تاہم اس میں غیر جانبداری کی بجائے سیاسی مقاصد صاف ظاہر تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی کرپشن کے خلاف احتساب ہی کا نعرہ لگا کر اقتدار سنبھالا مگر بعد میں خود ہی امریکہ اور خلیجی ممالک کے کہنے پر این آر او کے ذریعے بد عنوانی کے تمام مقدمات کو سیاسی مفاد کی خاطر پس پشت ڈال دیا۔ جن سیاستدانوں کے خلاف مقدمات تھے انہیں بیرون ملک جانے دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کے خلاف جو ریفرنس جوڈیشل کمیشن کو بھجوایا وہ بھی سیاست کی نذر ہوگیا۔ احتساب پر سیاسی مفادکو ترجیح دی گئی، گویا احتساب کے نام پر سیاست کی جاتی رہی اورکئی باراحتساب کے نام پر سیاسی نظام کو لپیٹا گیا۔
کرپشن کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ قرارداد مقاصد کے آرٹیکل 2-A کے تحت ایسا نظام وضع کیا جائے جس کے ذریعے ہر ایک کا بے خوف اور بلا امتیازاحتساب ہو۔ ہمارے ہاں یہ نظام اس لئے بروئے کار نہیں لایا جاسکا کہ ہماری بیوروکریسی پر سیاست کا رنگ شروع سے چڑھا ہوا ہے۔عدلیہ میں بھی سیاسی رنگ آمیزی نظر آتی ہے جبکہ پارلیمنٹ کا تاثر کبھی اچھا نہیں رہا۔ کرپشن کے سب سے زیادہ کیس بھی سیاست دانوں کے سامنے ا ٓرہے ہیں، اس لئے پارلیمنٹ کی شفافیت مشکوک ہو گئی ہے۔ میڈیا سے بھی عوام کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے کیونکہ اس کے ایک حصے میں شریف خاندان نے کرپشن کے جراثیم داخل کردیئے ہیں۔ 
اب چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں کمیشن تشکیل پایا ہے لیکن اس کی اصل روح اس کے ٹی او آر ہیں۔ پیچیدہ ٹی او آر سے نتائج حاصل کرنے میں دیر لگے گی۔کمیشن کا دائرہ پھیلانے کی حکمت عملی بظاہر حکومت کے عیار شیروں کی کارستانی ہے تاکہ اس کے نیٹ میں زیادہ سے زیادہ لوگ آئیں اورکمیشن کے ہاتھ پاؤں پھول جائیں۔ کمیشن کے ٹی او آر میں قرضے معاف کرانے، غیر ملکی جائیداد اور غیر ملکی اکاؤنٹس رکھنے والے بھی آتے ہیں۔ اگر یہ فائلیں نکالی گئیں تو بڑے بڑے پردہ نشینوں کے نام سامنے آئیںگے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے قرضے معاف کرانے والے سیاستدانوںکے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کے لئے جسٹس (ر) جمشید کی سر براہی میں کمیشن بنایا تھا جس نے ایک جامع رپورٹ بھی پیش کر دی تھی لیکن اس پر آج تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ میاں نوازشریف کے خلاف میگا کرپشن کی تین سو سے زیادہ فائلیں عرب ملک کے دبائو پر لاکروں میں بند کروا دی گئی تھیں اور جنرل شاہد عزیزکو قومی احتساب بیوروکے منصب سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔
وزیر اعظم نواز شریف اقتدارکے تین سال مکمل کر چکے ہیں، دوسال باقی ہیں لیکن ایک بار پھر ان کی حکومت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے جس کی ظاہری وجہ پاناما پیپرز ہیں۔ حکمران خاندان کرپشن کے گرداب میں پھنس چکا ہے، اپوزیشن نے حکومت کی ساکھ ختم کرکے رکھ دی ہے اور حکومت کمیشن کے ٹی او آر کا سہار لینے پر مجبور ہو چکی ہے۔ اس دوران جنرل راحیل شریف نے کرپشن اور گورننس کے حوالے سے ایسے موقعے پر پیغام جاری کیا جب وزیر اعظم اپنے طبی معائنے کے بعد اسلام آباد آرہے تھے۔ اس عسکری بیانیے کے بعد وزیر اعظم کی اخلاقی پوزیشن کو ضعف پہنچا ہے۔ اس بیانیے کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ کرپشن کے الزامات خود میاں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ پر لگ رہے ہیں۔
یہ بھی خبر ہے کہ اثاثے چھپانے پر وزیر اعظم کے داماد کیپٹن صفدرکی اہلیت کو اعلیٰ عدالت میں چیلینج کر نے کی تیاری ہو رہی ہے۔کیپٹن صفدر نے 2013ء کے انتخابات کے موقع پر جمع کرائے تھے، ان میں انہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ کے بارے میں حقائق کو پوشیدہ رکھا تھا۔ واضح رہے کہ گوجرانوالہ سے قومی اسمبلی کے رکن جسٹس افتخار چیمہ کو سپریم کورٹ نے اس لئے نااہل قرار دیا تھا کہ انہوں نے اپنی شریک حیات کے اثاثوں کے بارے میں غلط بیانی کی تھی۔
بد قسمتی سے پاکستان کے سیاستدان سب سے زیادہ کرپشن کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے ابھی تک حقیقت پسندی سے کام نہیں لیا نہ حالات کی سنگینی کو سمجھنے میں عقل مندی کا مظاہرہ کیا۔ نادان مشیروں نے ان کی پوزیشن مزید کمزور کر دی ہے۔ وہ قوم سے خطاب میں بھی عوام کو فریب دینے کی کوشش کرتے رہے اور بعض معاملات میں دروغ گوئی بھی کی۔ 
محترمہ بیگم کلثوم نوازکے بارے میں تاثر یہ ہے کہ وہ زیرک خاتون ہیں، ماضی میں نواز شریف کی تقاریر وہی لکھتی تھیں۔ انڈیا کے سابق وزیر اعظم گجرال ان کے علم ، ادب اور شعر و شاعری سے لگاؤ اور مہذب گفتگو سے متاثر ہوئے۔ لیکن انہوں نے بھی قوم کی بے بسی، غربت اور پسماندگی کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے لندن میں فیلٹس خریدے تھے۔ جس ملک میں بچوں کی تعلیم کے لئے مناسب مدرسے نہیں ، وہاں محترمہ کلثوم نواز نے کھربوں ارب کے فلیٹ اپنے تین بچوں کی تعلیم کے لئے خریدے۔ مصرکے سابق مرد آہن جمال عبدالناصر اور مغربی پاکستان کے گورنر سردار عبدالرب نشتر کے صاحبزادگان اپنی تعلیمی درسگاہوں میں بسوں پر جایا کرتے تھے۔ 
وزیر اعظم نواز شریف نے 5 جون2013 ء کو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاتے ہی اپنے خاندانی دوست اور معروف صنعتکار کی آئی بی پی فرم کو بجلی کے پیداواری بل کی مد میں 500 ارب روپے ادا کرنے کے لئے تحریری جاری کیا اور چند گھنٹوں میں ادائیگی کرا دی۔ بعد میں آڈٹ جنرل نے آڈٹ کروایا تو انکشاف ہوا کہ 190 ارب روپے کی زائد ادائیگی کر دی گئی ہے۔ اب بھی حکومت اور اس کے ہوا خواہ سرکاری اہل کار اسی مغالطے میں ہیں کہ وہ چال بازی اور چالاکی سے پاناما لیکس کے الزامات سے عوام کی توجہ ہٹانے میں کامیاب ہو جائیںگے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے بیٹوںکی اربوں ڈالرکی جائیداد چھپا کر آئین کے آرٹیکل2-A اور 91 کی خلاف ورزی کی ہے۔ اب ان پر آرٹیکل 62 بھی لاگو ہوسکتا ہے کیونکہ بادی النظر میں وہ صادق اور امین نہیں رہے۔ پارلیمنٹ کے بیشتر نمائندگان بھی اخلاقی جواز کھو بیٹھے ہیں۔ اگر سچ کی تلاش شروع کر دی گئی تو موجودہ سیاسی نظام ختم ہو جائے گا اور دو یا تین سال کے لئے قومی حکومت بنانا ناگزیر ہو جائے گا تا کہ سیاسی شعبدہ بازوں سے ہمیشہ کے لئے جان چھوٹ جائے۔
پاناما لیکس کسی سیاستدان کی اختراع نہیں بلکہ سینکڑوں ماہرین کی تحقیقات کا نتیجہ ہیں۔ وزیر اعظم نوازکو پاناما کی اتھارٹی سے احتجاج کرنا چاہئے تھا لیکن انہوں نے 22 اپریل کے خطاب میں بالواسطہ طور پر پاک فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ اس سے پیشتر 5 اپریل کو قوم سے خطاب میں وزیر اعظم ایک بہت بڑا سچ بول گئے تھے؛ انہوں نے ارشاد کیا تھا کہ جو شخص کرپشن کرتا ہے وہ کرپشن کی رقوم اپنے نام پر نہیں رکھتا۔ بیرونی ممالک میں وزیر اعظم کی کروڑوں پاؤنڈ کی پراپرٹی ان کے صاحبزدگان کے نام پر ہے۔ آج کے دور میںکوئی بھی ملک ایسے وزیر اعظم کا متحمل نہیں ہو سکتا جس پر میگا کرپشن کا الزام ہو۔ اگر وزیر اعظم ملک سے کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں تو اس کے لئے ایک الگ کمیشن بنا دیں، اپوزیشن جس کمیشن کا مطالبہ کر رہی ہے اس کا دائرہ کار صرف پاناما لیکس تک محدود ہونا چاہئے۔
وزیر اعظم نواز شریف جب اربوں روپے کی مالیت کے محلات میں قیام پذیر ہوتے ہیں توکیا ان کا ضمیر ملامت نہیں کرتا؟ ان کے اوسط درجے کے بیٹوں نے دولت کے انبار کیسے حاصل کر لئے؟ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے بیٹے ارسلان کی کرپشن سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اسے گھر سے نکال دیا تھا، لہٰذا نواز شریف بھی اپنے صاحبزدگان سے لا تعلقی کا اعلان کریں۔ حکومت کی بھارت دوستی کی پالیسی کے باعث مبینہ طور پر پانچ ارب ڈالر پاکستان سے دبئی کے راستے بھارت کی آف شورکمپنیوں کومنتقل ہو چکے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں