"KDC" (space) message & send to 7575

وزیر اعظم اور پاناما لیکس کا بھنور

وزیر اعظم نواز شریف نے پاناما لیکس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ تو تسلیم کر لیا‘ مگر ٹی او آرز(ٹرمز آف ریفرنسز )ایسے بنا دیے کہ قائد اعظم ؒنواب زادہ لیاقت علی خان اور دیگر بانیان پاکستان کے خاندان بھی اس کی زد میںآ سکتے ہیں‘ اور آزاد و خود مختار اس کمیشن کو تحقیقات مکمل کرنے میں پچاس برس سے زائد کا عرصہ درکار ہوگا۔ان ضوابط کا رسے اندازہ ہوتا ہے کہ وزیر اعظم اپنے خاندان کی اربوں کی جائیدادیں بچانے کی فکر میں ہیں۔ انہیں پاکستان کے بیس کروڑ عوام کے مفادات عزیز نہیں۔ دوسری طرف جنرل راحیل شریف کا عزم ہے کہ کر پشن ختم کئے بغیردہشت گردی ختم ہو سکتی ہے اورنہ ہی امن بحال ہو سکتا ہے۔اسی تناظر میں حکومت کے حامی بعض طاقتور میڈیا پرسنز نے‘ جن کے تعلقات امریکہ اور بھارت سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں‘ حکومت پر دباؤ ڈالا کہ ان کی حکومت کو آخری وارننگ دے دی گئی ہے کیونکہ آرمی چیف نے آٹھ فوجی افسران کو کرپشن کے الزامات ثابت ہونے پر ملازمت سے برطرف کر دیا۔ پنشن اور میڈیکل کے علاوہ باقی مراعات واپس لیکر یہ عندیہ دے دیا کہ آرمی چیف جو کہتے ہیں وہ کرتے بھی ہیں‘ اس کے بر عکس وزیر اعظم نواز شریف احتساب کے وعدے کرتے ہیںمگر کرپشن کی دولت بیرون ملک سے لانے اور آصف علی زرداری اور ان کے ساتھیوں کو سر عام ''پھانسی‘‘ لگانے کے بارے میں قوم کو بے وقوف بنانے کے لئے جذباتی تقریریں کرتے ہیں ۔ان بیانات کی آڑ میں اپنی غیر قانونی اربوں روپے کی جائیدادیں بچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کمیشن بناتے بھی ہیں اور کمیشن کھاتے بھی ہیں اور عوام کو تیس سال سے خواب پر خواب دکھائے جا رہے ہیں۔ بھارت میں پانچ ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری‘ سٹیٹ بنک آف پاکستان کے علم میں لائے بغیر کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ 'را‘کے جاسوس کل بھوشن کی گرفتاری پر نریندر مودی سے جواب طلبی بھی نہیں کرتے ۔مودی کو دیکھ کر ان کے چہرے کی مسکراہٹ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
فوجی قیادت کا صبر کا پیمانہ تیزی سے لبریز ہو رہا ہے، جنرل راحیل شریف کے عملی اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بلا تاخیر ایکشن لینے کے خواہاں ہیں۔ اگر وزیر اعظم نواز شریف جوڈیشل کمیشن بنا کر پاناما گیٹ کوغیر معینہ مدت کے لیے التواء میں ڈال کر 2018 تک کا وقت نکال لیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ اس وقت وہ حقیقی معنوں میں کرپشن میں آلودگی کے الزامات کی وجہ سے شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ اگر ان کے اہل خانہ کے اربوں ڈالر کی جائیدادیں حاصل کرنے کا کوئی قانونی راستہ ہوتا تو وہ پارلیمنٹ میں اپنے اثاثے پیش کر دیتے۔ پاناما لیکس کی وجہ سے ملک کا مستقبل مخدوش نظر آرہا ہے ۔ سنگین مالیاتی سکینڈل کی وجہ سے پنجاب اور وفاق میں حکومت کی فعالیت مفلوج ہو چکی ہے۔ ریاست تادیر اس صورت حال کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔وزیر اعظم سمجھتے ہیں کہ وہ سادہ لوح عوام کو پاک چین اقتصادی راہداری کی آڑ میں مطمئن کر لیں گے۔ وزیر اعظم پہلی مرتبہ ایسے مالیاتی گرداب میں پھنسے ہیں کہ خوشامدی اور سازشی مشیر ان کا حوصلہ بڑھا سکتے ہیں اور نہ ہی وزیر اعظم ہاؤس کے میڈیا مینجمنٹ کے ارکان اور دانش فروش 
ان کی صفائی پیش کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف اس لئے بھی شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں کہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی‘ ان کی حکومت کی گورننس کے بارے میں کئی مواقع پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں ؛حتیٰ کہ 2013 ء کے انتخابات کے بارے میں بھی معنی خیز ریمارکس دے چکے ہیں، اب پانامہ لیکس نے وزیر اعظم کے اہل خانہ کی دیانتداری کا پول کھول دیا ہے۔
جوڈیشل کمیشن موجودہ ٹرمز آف ریفرنس کی وجہ سے مؤثراحتساب نہیں کر پائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ بیس سالوں سے عوام کا بُری طرح استحصال کیا گیا ہے‘ سیاستدانوں کی اکثریت نے کرپشن زدہ اربوں ڈالروں سے بیرون ملک اثاثے بھی خریدے ہیں اور بیرون ممالک اکاؤنٹ بھی ڈالروں سے بھرے ہیں۔ بد قسمتی یہ ہے کہ رائے عامہ حکمرانوں کو دباؤ میں لانے کی قوت سے محروم ہے۔اس کے مقابلے میں بھارت کی رائے عامہ مضبوط، فعال اور سرگرم ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ بھی عوام کی اس قوت سے آگاہ ہے ۔ اتفاق گروپ کے میڈیا پرسنز نہایت ہوشیار ، چالاک، کاریگر اور اپنے فن کے ماہر ہیں؛تاہم اب کے ان کی یک طرفہ تحریریں عوام کی سوچ تبدیل نہیں کر سکتیں۔
پانامہ لیکس کی وجہ سے ہر شخص یہ سمجھ رہا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف عوامی مقبولیت سے محروم ہو چکے ہیںمگر سوال یہ ہے کہ اب اگلی حکومت کیسے آئے گی ، آرٹیکل (بی) (2) 58 اٹھارویں ترمیم کی نذر ہو چکا ہے ۔صدر کو پارلیمنٹ تحلیل کرنے کی ترغیب نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی وہ نگران حکومت مقرر کر سکتے ہیں جو 90 روز کے اندر انتخابات کرا سکے۔ بہر حال یہ طریق کار اپنے مقاصد کھو چکا ہے، ماضی میں کم و بیش تمام نگرانوں کا کردار جوکروں جیسا رہا ہے۔ حکمران جماعت کے سینئر ارکان نجی طور پر یہ کہتے ہیں کہ چونکہ پارلیمنٹ کو تحلیل کرنااب مشکل ہے اس لئے ہاؤس کے اندر ہی تبدیلی ہو گی اور وزیر اعظم کو خرابیٔ صحت کی آڑ میں مستعفی ہونے پر مجبور کیا جائے گا اور پھر ان میں سے کسی کو وزیر اعظم بننے کی دعوت دی جائے گی، اس طرح بھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکے گا۔ جولائی 1993 ء کو صدر غلام اسحاق اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان ایٹمی پالیسی پر ٹکرائو جمود کی صورت اختیار کر گیا تو آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے غیر تحریری ضابطے کو استعمال میں لاتے ہوئے صدر اوروزیر اعظم کو فارغ کر دیا تھا۔ نئے انتخابات کرانے کے لئے وزیر اعظم نواز شریف کے ذریعے ہی پارلیمنٹ تحلیل کرا دی گئی تھی۔ایک ممتاز تجزیہ کارنے اسی طرف ہی اشارہ دیا ہے کیونکہ تحریری دستور کی اچھائی کا دارو مدار اسے استعمال کرنے والوں پر ہوتا ہے جب ان کی سوچ محدود ہو اور فعالیت کوتاہ، تو پھر قانون فطرت حرکت میں آتا ہے۔
ہمارے حکمران پاناما لیکس کی سنگینی کا اعتراف کریں یا نہ کریں لیکن جو عوامل صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور جن کا ریاستی مفاد موجودہ اقتداری ڈھانچہ کے جاری رہنے میں نہیں ہے وہ یہ کہنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ پاناما لیکس کی ایک عالمی جہت بھی ہے‘ اس لیے حکمرانوں کابچ نکلنا مشکل ثابت ہو رہا ہے ۔ صاف بات سمجھ لینی چاہئے کہ فوج دیر تک انتظار نہیں کرے گی ۔مسلح افواج نے جنرل راحیل شریف کی کمان میں ضرب عضب آپریشن کی صورت میںآگ اور خون کا دریا عبور کیا ہے اور اب بھی وہ ہی ملک سے کرپشن کا خاتمہ کرکے ریاست کو بچائے گی؛ لہٰذا اب ہنگامی تدبیر کی ضرورت کا وقت آن پہنچا ہے۔ میری رائے میں اِن ہاؤس تبدیلی کرا کے پانامہ لیکس میں جن سیاستدانوں کے ہاتھ آلودہ ہیں ان سے قوم کو نجات دلائیں اور ان کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کریں۔
وزیر اعظم نواز شریف کو پاناما لیکس کے بھنور سے نکالنے کے لیے قومی اخبارات کو جو کروڑوں روپے کے اشتہارات جاری کئے گئے ہیں ان کے بارے میں سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لینے کا وقت آن پہنچا ہے۔ کیونکہ حکومت پاکستان تو پاناما لیکس میں فریق ہی نہیں ہے وزیر اعظم پر جو الزامات پاناما لیکس کے بارے میں ابھر کر سامنے آئے ہیں وہ ان کے اہل خانہ کے بارے میںہیں۔ بلاشبہ وزیر اعظم نواز شریف اس وقت دباؤ میں ہیں اور پاکستان کا موجودہ سسٹم خطرے میں ہے ؛چنانچہ وزیر اعظم نے اب نئی صف بندی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ان سیاسی رہنماؤں کو اہمیت دی جا رہی ہے جن کا ماضی میں سابق صدر پرویز مشرف سے گہرا تعلق رہا ہے۔ وفاقی حکومت نے قائد اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین، حسین شہید سہروردی ‘سردار عبدالرب نشتر اور دیگر کے خلاف جوڈیشل کمیشن سے ان کے اثاثے جات عرق ریزی سے نکالنے کے لئے ریفرنس میں شامل کر دیئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں