"KDC" (space) message & send to 7575

چیف جسٹس سے قوم کی توقعات

تاریخ کے اس نازک موقع پر جب کہ قوم عدالت عظمیٰ کی طرف دیکھ رہی ہے، چیف جسٹس آف پاکستان کو اس چیلنج کو قبول کرنا چاہیے کیونکہ اگر عدالت عظمیٰ نے اعتراضات یا تنقید کی وجہ سے کمیشن نہ بنایا تو ملک میں آئینی، قانونی اور مالیاتی بحران پیدا ہو جائے گا۔ ماضی میں بھی کمیشن بنانے اور متاثرہ فریق نے کمیشن پر تنقید کی مگر اس سے مسئلہ چاہے جزوی طور پر ہی سہی حل تو ہوا۔ اب حکومت اور اپوزیشن میں محاذ آرائی کی یہ کیفیت عوام میں اضطراب پیدا کر رہی ہے وزیر اعظم اور ان کی میڈیا ٹیم کی وجہ سے ملک عدم استحکام کا شکار ہونے کے قریب ہے۔ پاناما لیکس نے ملکی سیاست کو نازک موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ پاناما لیکس کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کی فیملی کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ محترم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ، شاہ فہد اور ولی عہد پرنس عبداللہ کی ذاتی کاوشوں سے اور ایک شاہی تحریری معاہدہ کے تحت محترم میاں شریف(مرحوم) کی خواہش پر سرور محل منتقل ہو گئے تھے۔ اس ضمن میں جو دس سالہ معاہدہ ہوا تھا، ستمبر 2007ء میں شہزادہ مقرن نے، قوم ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کے سامنے اس کے کاغذات پیش کر دیئے تھے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نوجوان اور فعال صدر سید علی ظفر کو چاہیے کہ وہ سعودی حکومت سے اس معاہدہ کے بارے میں باضابطہ دریافت کریں کہ آیا نواز شریف اور ان کی فیملی کو صدر پرویز مشرف نے زبردستی جلاوطن کیا تھا یا پھر شاہی خاندان کے دبائو، خواہش و منشا کے مطابق انہیں سعودی عرب میں شاہی پناہ دی گئی تھی، جبکہ اس ''جلاوطنی‘‘ میں اُن کے ہمراہ 40،50 ملازمین اور سو کے قریب سوٹ کیس بھی تھے۔ اس حوالے سے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے ذاتی ریکارڈ میں شاہ عبداللہ مرحوم کا ایک ایسا خط موجود ہے کہ جب اسے عوام کی عدالت میں پیش کیا گیا تو محترم نواز شریف کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جائے گا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سعودی حکومت سے یہ وضاحت بھی حاصل کرے کہ محترم نواز شریف جدہ میں قیام کے دوران سرکاری مہمان کی حیثیت رکھتے تھے یا وہ جلا وطن شہری تھے۔
پاناما لیکس کے بارے میں اب چونکہ اپوزیشن اسی طرح متحد ہوتی جا رہی ہے جس طرح فیلڈ مارشل ایوب خان کو انتخابی عمل کے ذریعے اقتدار سے معزول کرانے کے لیے محترمہ فاطمہ جناح کو آگے لایا جا رہا تھا۔ مولانا مودودی مرحوم نے ملک سے بڑی خرابیوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے تمام اختلافات بالائے طاق رکھ کر مادر ملت کی حمایت کی تھی۔ اسی طرح عمران خان نے بھی موجودہ حکومت کے خلاف سید خورشید شاہ اور اعتزاز احسن کی قیادت کو تسلیم کر لیا ہے۔ نواز شریف بحران کو طول دے رہے ہیں، ان کی نظریں نومبر 2016ء تک لگی ہوئی ہیں لیکن انہیں احساس ہی نہیں کہ پاناما لیکس کے بحران کو جتنا طول دیا گیا یہ اتنا ہی زہر ناک ہوتا جائے گا۔ وزیر اعظم نواز شریف اس وقت جولائی 1977ء کی طرف رواں دواں ہیں، جنرل ضیاء اور جنرل چشتی کو مداخلت کی راہ اس وقت کی حکومت کی انا پرستی کی وجہ سے ملی تھی۔ 7مارچ 1977ء کے قومی انتخابات کے فوراً بعد وزیر اعظم بھٹو کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہو گئی تھی۔ مولانا کوثر نیازی،ممتاز بھٹو، حفیظ پیرزادہ، نواب صادق قریشی، مصطفی کھر اور دیگر رہنمائوں نے تحریک کی اصلیت سمجھنے میں رکاوٹیں پیدا کیں اور اپوزیشن سے بات کرنے سے ہی انکار کر دیا۔ جب کوئی چارا نہ رہا تو مذاکرات شروع کیے گئے، لیکن پھر مذاکرات کو غیر ضروری طور پر طول دے کر مارشل لا کی راہ ہموار کی گئی۔ جنرل ضیاء پر وزیر اعظم بھٹو کی کمزوریاں آشکار ہو گئی تھیں لہٰذا 5جولائی کا واقعہ رونما ہو گیا۔ بادی النظر میں یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بے لاگ احتساب کا عمل شروع کرانے کے لیے وزیر اعظم کو اپنے منصب سے علیحدہ ہونا پڑے گا، اگر ایسا نہ ہوا تو کشیدگی کی 8اکتوبر 1958ء کی سی فضا پیدا ہو جائے گی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے جو لہجہ اختیار کر رکھا ہے، اپوزیشن کو بھی یہی راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔
حکومتی حکمت عملی اور سابق صدر آصف علی زرداری کی خفیہ 
ریشہ دوانیوں نے اپوزیشن کو مشکل صورت حال سے دوچار کر دیا ہے، کیونکہ مشاہد حسین سید، آفتاب شیر پائو اور سراج الحق نے وزیر اعظم سے استعفیٰ کے بارے میں مضبوط مؤقف اختیار کرنے سے گریز کیا ہے۔ عمران خان نے اپوزیشن جماعتوں پر زور دیا تھا کہ مشترکہ اعلامیہ میں وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ شامل کیا جائے لیکن اسے نہیں مانا گیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے عدالتی کمیشن کی جو ٹرمز آف ریفرنسزبنائی ہیں‘ ان کا ڈرافٹ اعتزاز احسن اور حامد خان کا تیار کردہ ہے جس میں وزیر اعظم کے خلاف لگائی چارج شیٹ میں الزام عاید کرنے والوں کو کوئی ثبوت پیش کرنے کا نہیں کہا گیا ہے، اپوزیشن موجودہ حالات میں عدالتی کمیشن کے قیام کے لیے سنجیدہ اس لیے نہیں ہے کہ حکومت کے اندرون خانہ اپوزیشن کے پالیسی ساز اداکاروں سے خفیہ مراسم ہیں اور عدالتی کمیشن کے قیام سے حکومت خاموشی سے ایک سال مزید نکالنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس لیے اپوزیشن نے ایسے ٹرمز آف ریفرنس پیش کیے ہیں جو حکومت کے لیے کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہوں گے۔ مستقبل قریب میں عدالتی کمیشن کے قیام کا کوئی امکان نظر نہیں آتا اس لیے کہ اپوزیشن نے عدالتی کمیشن کے لیے پارلیمنٹ میں قانون سازی کا تقاضا کر کے کمیشن کی فوری تشکیل کا امکان معدوم کر دیا ہے۔ اب مجوزہ قانون کی دونوں ایوانوں میں منظوری ہو گی۔ تب وہ ایکٹ کی شکل میں نافذ ہو پائے گا۔ موجودہ محاذ آرائی کی فضا میں ناممکن نظر آ رہا ہے، کہ اپوزیشن پارلیمنٹ سے مجوزہ ایکٹ منظور کرا پائے۔ اپوزیشن کے قائدین اعتزاز احسن اور عمران خان کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ عدالتی کمیشن اس وقت تک اپنے فرائض ادا نہیں کر سکے گا جب تک وزیر اعظم اپنے منصب سے علیحدہ نہیں ہو جاتے۔
قومی اتحاد نے مارچ 1977ء کے انتخابات کی دھاندلی کی تحقیقات کرانے کے لیے وزیر اعظم بھٹو کی ہرپیش کش کو اس لیے مسترد کر دیا تھا کہ اسے ماضی کے تجربات کی روشنی میں ان کے وعدوں پر اعتبار نہیں تھا۔ قومی اتحاد سمجھتا تھا کہ، بھٹو کے وزیر اعظم کے عہدے پر رہتے ہوئے از سر نو انتخابات کرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس وقت بیشتر بیورو کریسی اور الیکشن کمیشن مسٹر بھٹو کی پشت پر کھڑے تھے۔ پولیس اور فیڈرل سکیورٹی فورسز کے مسعود محمود نے اپوزیشن کو ناکوں چنے چبوا دیئے تھے، اب وزیر اعظم نواز شریف بھی اسی راہ پر چل پڑے ہیں۔ لہٰذا اپوزیشن کو اندازہ ہے کہ وزیر اعظم کی وفادار بیورو کریسی عدالتی کمیشن کو چکر دینے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس تمام صورت حال کے باوجود قوم کو چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی اور ان کے ساتھی ججوں پر مکمل اعتماد حاصل ہے۔ یقین ہے کہ وہ اپنی انتظامی اور عدالتی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے حکومتی اداروں کی تمام چالبازیاں ناکام بنا دیں گے۔ امید ہے کہ عدالتی کمیشن کو نادرا، الیکشن کمیشن، ایف آئی اے، سٹیٹ بینک ایسے ریاستی اداروں کا مکمل تعاون حاصل رہے گا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں