"KDC" (space) message & send to 7575

’’لیکس‘‘ اور موجودہ سیاسی نظام

پاناماپیپرزکے سکینڈل میں گھری ہوئی حکمران جماعت اور اس کے اتحادی سخت دباؤ میں ہیں۔ مزید خطرات سے بچنے کے لئے وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر دبائو ڈالا جس نے مئی 2013ء کے انتخابات میں ہزاروں سیاست دانوںکے کاغذات نامزدگی اور دیگر دستاویزات کو اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیا جن میں ان کے ملک کے اندر اور بیرون ملک اثاثے، اکاؤنٹس اور دیگر اہم معلومات تھیں۔ تحقیقاتی ادارے ان معلومات کو پاناما پیپرز سے ملا کر ان کے صحیح یا غلط ہونے کا اندازہ کر رہے تھے۔ پارلیمنٹرینزکے اثاثوں سے متعلق معلومات حذف کرنے کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔ سینیٹ کے لیڈر آف دی اپوزیشن چودھری اعتزاز احسن کا موقف یہ ہے کہ وفاقی حکومت کے سب سے طاقتور وفاقی وزیرکے اثاثے چونکہ ایک سال میں دوگنا ہوگئے تھے اس لئے انہیں قوم کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کی خاطر الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالا گیا اور اس نے یہ دستاویزات ویب سائٹ سے ہٹا دیں۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے قومی خطاب میں دعویٰ کیا تھا کہ الیکشن کمیشن نے تمام دستاویزات ویب سائٹ پر جاری کر دی ہیں جبکہ حقائق اس سے بر عکس ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جونہی الیکشن کمیشن کو اثاثوں سے متعلق معلومات غائب کرنے کے لئے کہا گیا، یہ معلومات حذف کر دی گئیں۔ بعد میں کہا گیا کہ عوامی نمائندگی کے ایکٹ 76 کی دفعہ 42-A کا حوالہ دینے پر یہ معلومات ویب سائٹ سے ہٹائی گئیں؛ حالانکہ اس ایکٹ کا حوالہ گمراہ کن ہے کیونکہ اس کے تحت اثاثوںکی تفصیلات ظاہرکرنا ضروری ہے۔ در اصل الیکشن کمیشن نے بظاہر وفاقی وزیرکے اثاثوںکی مزید تحقیق روکنے کے لئے انہی کے دبائو پر تمام معلومات ویب سائٹ سے حذف کیں۔
پاکستان کے وہ صحافی جو تحقیقاتی میدان کے شہ سوار ہیں1500 سے زیادہ سیاست دانوں کے کاغذات نامزدگی کا تجزیہ کر رہے تھے جن میں کیپٹن (ر) صفدرکے داخل کر دہ کاغذات نامزدگی برائے الیکشن 2008 ء اور 2013ء کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ میڈیا پرسنزکی سہولت کے لئے بتاتا چلوںکہ عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 42-A اور سینیٹ ایکٹ 74 کی دفعہ 25-A کو ملا کر پڑھاجاتا ہے۔ یہ شقیں سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے جولائی 2002ء میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے شامل کرائی تھیں۔ چنانچہ42-A اور سینیٹ ایکٹ کی دفعہ 25-A کی متعلقہ شقوں کے تحت ارکان پارلیمنٹ نے مقررہ فارم پر اپنے اثاثوں اور واجبات کی تفصیلات جمع کرائیں۔ علاوہ ازیں اپنی بیوی/ شوہر اور وہ جن افراد کا انحصار آپ پر ہے، ان کے متعلق تفصیلات بھی الیکشن کمیشن کو فراہم کرنا ہوتی ہیں۔ مذکورہ قانون کے مطابق اثاثوں اور واجبات کے متعلق بیان جو سب سیکشن 1 کے تحت جمع ہوگا وہ سرکاری جریدہ میں شائع کیا جائے گا اور اس کی نقول مقررہ فیس کی ادائیگی پر حاصل کی جا سکیں گی۔ اس طرح عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 42-A اور سینیٹ ایکٹ کی دفعہ 25-Aکے تحت اگر ارکان پارلیمنٹ کے جمع کردہ تفصیلات حقائق سے بر عکس ہوں تو ان کے خلاف حقائق کو چھپانے کے تحت بد عنوانی کے تحت مقدمہ سیکشن 82 کے تحت کرپشن کے الزام میں دائر کیا جا سکتا ہے اور الزام ثابت ہونے پر ایسے رکن پارلیمنٹ کو تین سال کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اس کے خلاف آرٹیکل 63-62 کے تحت کارروائی بھی کی جا سکتی ہے اور پارلیمنٹ کے انتخابات کے لئے نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے۔
اثاثوں کی تفصیلات جاننے کے ضمن میں اس کا پس منظر انتہائی دلچسپ ہے۔
5 نومبر 1996ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت اور قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد صدر فاروق لغاری نے قوم سے جو خطاب کیا تھا اس میں انہوں نے صدارتی فرمان کے ذریعے آئندہ کے انتخابات کا شیڈول جاری کرتے ہوئے قومی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے لئے کاغذات نامزدگی میں اپنے اثاثوں کی تفصیلات ظاہرکرنا لازمی قرار دیتے ہوئے یہ بھی شرط لازمی قرار دی تھی کہ 1985ء سے بینک کے نادہندگان جس کی مالیت دس لاکھ روپے مقررکی گئی تھی وہ بھی انتخابات کے لئے نا اہل قرار دیے جائیںگے۔ اس شرط کے تحت شریف برادران انتخابات میں حصہ لینے کے اہل قرار نہیں پاتے تھے۔ الیکشن کمیشن نے صدارتی آرڈیننس کی روشنی میں کاغذات نامزدگی شائع کر دیے اور الیکشن شیڈول جاری کر دیا جس کے تحت 3 فروری 1997ء کو انتخابات کا انعقاد ہونا قرار دیا گیا۔ صدرفاروق لغاری نے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھی ایک ہی دن میں کروانے کے لئے صدارتی آرڈیننس جاری کر دیا جس پر اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر سردار فخر عالم نے صدرکی نیت کو بھانپتے ہوئے اس آرڈیننس کے اجرا پر اپنے تحفظات کا اظہارکرکے اس کو ناقابل قبول قرار دے دیا تھا۔ صدر فاروق لغاری نے چیف الیکشن کمشنر کے اعتراضات کو نظر انداز کر کے نگران کابینہ سے منظوری حاصل کی اورآرڈیننس کے اجرا کو یقینی بنا لیا۔
شریف برادران کو1985 ء سے1996 ء تک کے مالیاتی گوشوارے جمع کراتے ہوئے نادہندہ ہونے کے امکانات پیدا ہو رہے تھے۔ انہوں نے صدر فاروق لغاری پر محترم میاں محمد شریف کے ذریعے دباؤ ڈالا کہ نادہندگی سے بچنے کے لئے بینکوں سے قرضے ری شیڈول کرانے کو قانونی حیثیت دی جائے۔ اس پر نگران کابینہ کے وفاقی وزیر قانون جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے اسے بد نیتی اور مفاد پرستی پر مبنی رعایت قرار دیا۔ لیکن اس دوران صدر اور نگران وزیر اعظم ملک معراج خالد کی شریف برادران سے خفیہ طور پر مفاہمت ہو چکی تھی۔ اس صورت حال میں جسٹس فخر الدین جی ابراہیم نے حق و انصاف کے بول بالا کرنے کے لئے وزارت سے استعفیٰ دے دیا، ان کی جگہ شاہد حامدکو نگران وزیر قانون مقررکر دیاگیا۔ 
پاکستان میں ہمیشہ قانون سازی بد نیتی اور ذاتی مفادات کے اصولوں کو مد نظر رکھ کر کی جاتی ہے۔ سردار فاروق لغاری کو چکمہ دیا گیا تھا کہ شریف برادران کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کو آئندہ مدت کے لئے بھی صدر مملکت منتخب کروا لیا جائے گا۔ صدر پرویز مشرف کو بھی این آر او کراتے وقت بینظیر بھٹو نے2012ء تک صدر بننے کا عندیہ دے دیا تھا۔ صدر پرویز مشرف نے ملکی مفاد کے بر عکس ذاتی مفاد کو مقدم سمجھا اور بعد میں صدارت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اسی طرح فاروق لغاری کو 3 دسمبر 1997ء کو عہدے سے مستعفی ہونا پڑا کیونکہ ان کے خلاف مواخذے کی تحریک پیش کرنے کے لئے آئینی کارروائی شروع ہو چکی تھی۔ جس طرح فاروق خان لغاری سے جنرل جہانگیرکرامت نے آنکھیں پھیر لیں اسی طرح جنرل اشفاق پرویزکیانی نے 13 اگست2008 ء کو پرویز مشرف کا ساتھ چھوڑکر ایبٹ آباد کول اکیڈمی میںکیڈٹوں سے خطاب کرنے کی نئی روایت ڈال دی۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو دونوں سابق صدور اگر ملکی مفاد کو پیش نظر رکھتے تو شریف برادران پاکستان کی سیاست سے ہمیشہ کے لئے نا اہل ہو جاتے اور ملک جدید ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتا۔
قوم کے لئے آئین، جمہوریت اور پارلیمنٹ اہم ہیں نہ کہ شخصیات۔ بد قسمتی سے پاکستان میں قوانین شخصیات کو محفوظ راستے دینے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ چنانچہ تحفظ سرمایہ کے قانون کے تحت 1992ء تا1999 ء کے دوران اس معاملے پر سوال کرنا بھی خلاف قانون تھا۔ اور اب بھی پاکستان کے مروجہ قوانین اور 1956ء کے عدالتی کمیشنوں کی تشکیل سے متعلق قانون کے تحت بننے والے کمیشن سے کسی نتیجے کی توقع رکھنا مضحکہ خیز ہے۔
دبئی پیپرز حکومت اور اپوزیشن سب کا راز کھول دیں گے اور ملک میں اتنا بڑا طوفان اٹھے گا کہ قوم پاناما پیپرزکو بھی بھول جائے گی۔ چند سو افراد نے قومی خزانہ لوٹ کر دولت بیرونی ملکوں میں منتقل کر کے عوام کا اعتماد کھو دیا ہے۔ اب ان کی پاکستانی معاشرے میںکوئی عزت اور جگہ نہیں! پاناما لیکس کی ہر قسط پاکستانیوں کے لئے باعث شرمندگی ہوگی۔ اب عوام کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کرپٹ سیاستدانوں کا ہرگز ساتھ نہیں دیںگے۔ قوم توقع رکھتی ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان آئین کے آرٹیکلز 11, 10, 8-A, 8, 3, 2-A اور 184 کو مد نظر رکھیں، عسکری قیادت آئین کے آرٹیکل 147 کو ملحوظ رکھے۔ اس کے علاوہ نیشنل ایکشن پلان اور اکیسویں ترمیم بھی عسکری ادارے کو آئین کے تحفظ کے لئے راہ دکھاتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں