"KDC" (space) message & send to 7575

پانامہ لیکس کی تپش

وزیراعظم نواز شریف کے وفادار میڈیا پرسنز اُنہیںپوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچا رہے ہیں، ان کا یہ موقف کہ آف شورز اکاونٹس کا الزام لگانے والوں کے اپنے ہاتھ صاف نہیں، ناقص دلیل پر مبنی ہے۔ ایک کی غلط کاری دوسرے کی غلط کاری کا جواز نہیں ہوتی۔ وزیر اعظم اور ان کے اتحادیوں کی یہ دلیل بھی غلط ہے کہ احتساب سے نظام خطرے میں پڑ جائے گا۔ وزیر اعظم نواز شریف کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔فوج مضطرب ہے اور اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔فوج نے مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف طویل جنگ میں بے پناہ جانی قربانیاں دی ہیں۔ مسلح افواج ملک کی کھربوں روپے کی دولت کو سمندر پار ممالک میں آف شور کمپنیوں کے ذریعے مدفون نہیں کرنے دیں گی۔ اسی تناظر میں چیف جسٹس آف پاکستان کا حالیہ بیان بھی کہ ملک سے گورننس ختم ہو گئی ہے اور ریاست دیوالیہ ہونے کے قریب ہے‘ قابل غور ہے۔ حکومت کا رنگ بدل رہا ہے ‘ ہر گزرتے لمحے کی دھمک دل پر محسوس ہو رہی ہے ۔ پانامہ پیپرز کے انکشافات کے سامنے آتے ہی وزیر اعظم کے گھرانے کی سیاست میں حدت بڑھ گئی ہے ۔ بادی النظر میں یوں نظر آرہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) سے پیٹریاٹ کی طرز کا گروپ سامنے آرہا ہے ‘جس کی قیادت وزیر اعظم کے گھرانے میں سے ایک اہم شخصیت کرے گی ۔ ان کے گرد پنجاب کے 100 سے زائد ارکان اسمبلی جمع ہو رہے ہیں! یہ بھی واضح رہے کہ 12 اکتوبر 1999ء کے سانحہ کے وقت بھی یہ شخصیت حالت نیند میں تھی اور ان کو چیف آف آرمی سٹاف کی سبکدوشی کا علم ہی نہیں تھا اور ان کو اس وقت کے چیئر مین واپڈا جنرل راؤ ذوالفقار علی خان نے خبر دار کر دیا تھا کہ ایسے وقت میں جنرل مشرف کے بارے میں فیصلہ سے سارا نظام ہی زمین بوس ہو جائے گا۔ کھربوں روپے کی کرپشن اور پانامہ لیکس کے حیرت انگیز انکشافات سے ملک معاشی طور پر مفلوج ہو چکا ہے ۔ پاک چائنہ اقتصادی راہداری پر گہرے منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ملک کی بقاء کی جنگ لڑنے والی فوج اب وزیر اعظم کی میگا کرپشن کا بوجھ برداشت کرے گی؟ پاکستان اسلامی اقدار کے فروغ کے لئے معرض وجود میں آیا تھا، لیکن اب اس کے بنیادی نظریہ کو ہی داغ دار کر دیا گیا ہے۔ دہشت گردی اور کرپشن کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ معاشی دہشت گردی کو انجام تک پہنچانے کے لئے 21 ویں ترمیم کے ذریعے آرمی چیف کو مکمل اختیار دئیے گئے ہیں ۔ اس آئینی تناظر میں نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا تھا جس کی سینیٹ سے منظوری کے وقت سینیٹر رضا ربانی کی آنکھوں سے آنسو گر پڑے تھے ۔انہیں اپنے رہنماؤں کا عبرت ناک انجام سامنے نظر آرہا تھا سابق صدر آصف علی زرداری نے ابتداء میں اس ترمیم کی شدید مخالفت کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کو وارننگ دی تھی کہ اکیسویں ترمیم پر اگر من و عن عمل کرایا گیا تو دونوں کی ملاقات جیل میں ہوگی۔ آصف علی زرداری کی پیش گوئی درست ثابت ہوتی نظر آرہی ہے ، ان حالات میں آرمی بحیثیت ادارہ اس داغ دار حکومت سے اپنے نئے چیف کا تقرر برداشت نہیں کرے گی۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں صرف چار آنے چینی مہنگی ہونے پر عوام کا احتجاج بے قابو ہو گیا تھا۔ تب مرکزی وزیر تجارت نواب زادہ غفور ہوتی کے پتلے جلائے جانے لگے تھے ۔ اس وقت قوم کا احساس زندہ و متحرک تھا، قوم میں غیرت و حمیت ، عزیمت پارہ کی طرف حرکت کر رہی تھی۔ آج ہمارے نام نہاد رہنماؤں نے قوم کی غیرت چھین لی ہے۔اب مہنگائی ہو یا کسی طرح کی قانون شکنی، عوام کی اکثریت ریاست کے مستقبل سے لاپروا ہوگئی ہے ۔ ملک میں احتساب اور جواب دہی کا عمل بھی کمزور ہو رہا ہے۔پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ پولیس کے ذریعے زیادتیوں کی انتہا کر رہے ہیں۔ پنجاب کو پولیس سٹیٹ بنا دیا گیاہے۔ بلوچستان میں حکومتی رٹ نہ ہونے سے صوبائی سیکریٹری خزانہ کے گھر سے 70 کروڑ سے زائد کرنسی بر آمد ہو رہی ہے۔ وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر کے اکاؤنٹ سے پانچ کروڑسے زائد رقوم نیب نے اپنی تحویل میں لے لی ہے۔ادارے تباہی کی طرف جا رہے ہیں وزارت خارجہ کو بھی کرپٹ زدہ کر دیا گیا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی رپورٹ کے مطابق پاکستانی سیاست دانوں اور سرمایہ داروں کے آف شور کمپنیوں میں اثاثوں کی مالیت 50 ارب ڈالر ہے۔ ایک اور اندازے کے مطابق پاکستان سے 12 کھرب ڈالر سے زائد رقم قانونی یا غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک قائم آف شور کمپنیوں میں منتقل کی گئی۔پانامہ لیکس کی ابھی تیسری قسط بھی آنے والی ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ مزید پاکستانیوں کے نام بھی آسکتے ہیں۔ یوں مزید آف شور کمپنیوں میں سرمائے کی منتقلی بے نقاب ہوگی۔ پاکستان کی سیاست میںپاناما انکشافات کی پہلی اور دوسری قسطوں نے ہی اضطراب کی لہر دوڑ ا دی ہے۔ پاناما لیکس کے بعد قوم کو احساس ہوا ہے کہ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے مالی معاملات شفاف نہیں ۔دستاویزی ثبوتوں کے باوجود وزیراعظم کے صاحبزادوں کا بیان دیدہ دلیری ہے کہ لندن میں ہائیڈ پارک میں اور دیگر جگہوں پر فلیٹس کی خریداری کے لئے رقم سعودی عرب میں سٹیل مل کی فروخت سے حاصل ہوئی ۔ فلیٹس خریدنے کے لئے رقم کہاں سے آئی اور وزیر اعظم کے 1990 ء‘ 1993ء‘ 1997ء‘ 2008ء‘ اور 2013ء کے گوشوارے کیا حقائق بیان کر رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن پیپرز میں موازنہ کرنے کا وقت آن پہنچا ہے ۔اب حالات کا تقاضا ہے کہ ضرب عضب کی طرح ضرب عضب معاشیات وکرپشن بھی شروع ہو۔
برطانوی وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ غیر ملکی کمپنیاں جو برطانیہ میں ایک لاکھ سے بھی زیادہ جائیدادوں کی مالک ہیں، شفافیت کے ایک نئے منصوبے کے تحت انہیں اپنے اصل مالکان کے نام سامنے لانے ہونگے ۔ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون برطانیہ میں اس کالے دھن کی بیخ کنی کرنے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں۔ان میں سے 12 ارب پاؤنڈ سے زیادہ مالیت کی جائیدادیں آف شور کمپنیوں کی ملکیت ہیں، آف شور سرمایہ کاریوں سے متعلق پانامہ پیپرز کے انکشافات کے بعد‘ وزیر اعظم برطانیہ پر بہتری لانے کے لئے دباؤ بڑھ رہا ہے۔
موجودہ حالات میں پاکستان کے عوام سیاست دانوں کی طرف نہیں دیکھ رہے بلکہ ان کی نظر یں اور امیدیں عدلیہ اور افواج پاکستان پر لگی ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی کے یہ ریمارکس بلا وجہ نہیں ہیں کہ ملک میں گڈ گورننس نام کی کوئی چیز نہیں اور یہ کہ ملکی ادارے دیوالیہ ہو چکے ہیں۔وزیر اعظم نواز شریف ، سابق صدر زرداری اور ان کے ہم نوا سیاست دانوں نے ملک کی ساکھ کو تباہ کر دیا ہے۔سینیٹر اعتزاز احسن کا یہ موقف درست ہے کہ وزیر اعظم کی ساکھ کمزور ہوگئی ہے، بلکہ ان کی وجہ سے ملکی ادارے مسلسل دیوالیہ ہوتے جا رہے ہیں ۔ کرپشن کے بارے میں قوم مایوسی کی آخری حد تک پہنچ چکی ہے، اگر پاکستان کے عوام کو ان کے تصور کے مطابق پاکستان نہ دیا گیا جس کے لئے ڈیڑھ کروڑ لوگوں نے قربانیاں دیں تو پھر پاکستان کا وجود نظر نہیں آرہا ہے!
آرمی چیف کے بلا امتیاز احتساب کے بیان کو جمہوری حکومت کے دوران اپنی حیثیت سے تجاوز قرار دیا جا سکتا ہے۔مگر چیف جسٹس، چیئر مین نیب اور اب صدر مملکت کے کرپٹ لوگوں کے احتساب کے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کرپٹ لوگوں کے احتساب کے لئے‘ قوم کی امنگوں کے عین مطابق آئینی ادارے یکجا ہیں۔ صدر مملکت کی طرف سے یہ کہنا بھی معنی خیز ہے کہ ملکی ترقی کے لئے قوم فوج کا ساتھ دے۔جب صدر کہتے ہیں کہ ہر شعبے میں بد عنوان لوگوں کی بھرمار ہے تو کسی اور کی گواہی کی ضرورت نہیںرہتی۔شواہد بھی یہی ہیں۔ صدر کی طرف سے ایسے ریمارکس ایک اخلاقی درس ہے، کرپٹ لوگ اخلاقیات کو سمجھتے ہیں نہ عوام کی طرف سے کرپٹ لوگوں کے بائیکاٹ پر کسی غیر معمولی رد عمل کی توقع ہے۔خود صدر مملکت کے ارد گرد بڑے عہدوں پر براجمان کتنے کرپٹ بیوروکریٹس موجود ہیں، ان میں سے انہوں نے خود کتنے لوگوں کا بائیکاٹ کیا ہے، ضرورت دو ٹوک ، بے لاگ اوربلا امتیاز احتساب کی ہے۔ جس پر اکثر پارلیمنٹیرین اور آئینی ادارے متفق ہیں، صدر کا یہ بیان کہ کرپشن میں میدان مارنے والے اب بچ نہیں سکیں گے ‘ قوم کے لئے امید کی کرن ہے۔ 
صدر پاکستان نے حالیہ خطابات میں پانامہ لیکس کے بارے میں بڑی جامع باتیں کہی ہیں‘ اس سے پہلے ایسی باتیں کبھی نہیں کہی گئیں۔ بالخصوص انہوں نے جس مخصوص کرپٹ نحوست کا ذکر کیا کہ وہ بد دیانت لوگوںکے چہرے پر نمودار ہو جاتی ہے ایک واضح حقیقت ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اتفاق فاؤنڈری کے بارے میں غلط حقائق بیان کئے ہیں، ان کی اصل اتفاق فاؤنڈری کو‘ جو کہ ریلوے روڈ لاہور پر ہوا کرتی تھی ‘ مزید بہتر بنانے کے لئے محترم میاں محمد شریف مرحوم نے 1956ء میں محکمہ محنت مغربی پاکستان سے 25 ہزار روپے کے قرضہ کی درخواست کی تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں