"KDC" (space) message & send to 7575

پاناما لیکس اور وزیر اعظم کا مستقبل

پاناما لیکس میں وزیر اعظم کی فیملی سمیت کئی مقتدر سیاستدانوں، ان کے اہل خانہ، موجودہ وسابق ارکان پارلیمنٹ اور کاروباری شخصیات پر آف شور کمپنیوں کے ذریعے ٹیکس بچانے، منی لانڈرنگ اور سرمائے کی غیر قانونی بیرون ملک منتقلی سمیت مالی بے قاعدگیوں کے سنگین الزامات نے اس وقت ملکی سیاست اور اقتصادی ماحول کو بری طرح آلودہ کر رکھا ہے، جن کا احتساب ملکی مفاد میں ہے۔ معاشی مجرموں کا احتساب پوری قوم کا مطالبہ ہے اور خود سیاسی پارٹیوں کے مفاد میں بھی یہی ہے کہ ان کے بارے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات دور ہوں ۔ 
پاناما پیپرزنے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے، ہر طرف سے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں کہ دنیا کے سیاسی، تجارتی و صنعتی افراد ٹیکس چوری کر کے بھاری رقوم بیرونی ممالک میں منتقل کر رہے ہیں۔ اس فہرست میں اب تک پانچ سو سے زائد پاکستانی شخصیات کے نام آئے ہیں۔ پاناما لیکس کے اثرات کے تحت کئی ممالک کے سربراہان اپنے عہدوں سے علیحدہ ہو گئے ہیں۔ عالمی سطح پر اثاثوں کی بازیابی اور ملک سطح پر ان کے احتساب کے لئے پلان مرتب کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ لندن میں عالمی انٹی کرپشن سربراہ اجلاس میں ان اثاثوں کی بازیابی کا نیا قانون بنانے کا عالمی منصوبہ پیش کر دیا گیا ہے۔ ان خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ اگر دوسری آف شورکمپنیوں کے مالکان کے نام خفیہ رکھنے کی یقین دہانی نہ کرائی گئی اور انہیں تحفظ نہ دیا گیا تو سینکڑوں ملکی اور غیر ملکی ارب پتی سرمایہ کار اپنا سرمایہ لندن سے باہر منتقل کر دیںگے۔کانفرنس میں 61 ممالک نے حصہ لیا جن میں افغانستان اور نائجیریا کے صدور بھی موجود تھے۔ بھارت نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔ حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ اجلاس عجلت میں بلایا گیا تھا اس لئے پاکستانی وفد اس میں شریک نہیں ہو سکا، حالانکہ لندن میں تعینات ہائی کمشنر کو اس میں شرکت کی ہدایات دی جا سکتی تھی، لیکن دانستہ اس سے گریزکیا گیا۔ اجلاس میں شریک بہت سے ممالک نے بھی مجوزہ معاہدے پر دستخط نہیں کئے اورکہاکہ امریکہ کے جواب کا انتظار ہے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ پاناما لیکس کے بعد انٹی کرپش کے نئے قوانین بنا کر ان کا سرمایہ منجمد کیا جا سکتا ہے۔ پاناما لیکس میں جن سرمایہ داروں کی اربوں ڈالر مالیت کی جائیدادیں ظاہرکی گئی ہیں ان کی جائیدادیں اور بنک اکاؤنٹس منجمد کرنے کا فارمولا اقوام متحدہ میں بھی زیر غور ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اتحادی جماعتوں کے زیرک سیاستدانوں مولانا فضل الرحمن، مولانا عبدالغفور حیدری، حافظ حسین احمد، حاصل بزنجو اور محمود اچکزئی کی مشاورت سے عمران خان کو ناک آؤٹ کرنے کی حکمت عملی مرتب کی جس کے نتیجے میں وہ (عمران خان) اپنی پارٹی کے غیر سنجیدہ ارکان کی سوچ کے باعث پاناما لیکس کا مقدمہ بادی النظر میں ہار گئے ہیں۔ لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ اہم دستاویزات کی روشنی میں سخت احتساب کا آغاز نیشنل ایکشن پلان کے نکات کی روشنی میں شروع کیا جائے گا۔ اطلاع کے مطابق اس سخت احتساب کی وجہ سے 1985ء سے2013 ء تک کے عرصے میں بدعنوانی کی زد میں آنے والے سیاستدانوں کوہمیشہ کے لئے سیاست میں حصہ لینے کا نااہل قرار دے دیا جائے گا۔ لیڈر آف دی اپوزیشن سید خورشید شاہ نے درست کہا ہے کہ وزیر اعظم کے اہل خانہ پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کرتے اور ٹیکس ادا نہیںکرتے تو ان کی شہریت ختم کر دینی چاہئے۔ آج جو نادان مشیر وزیر اعظم کو یہ باورکرا رہے ہیں کہ افواج پاکستان بند گلی میں کھڑی ہے، ان کا اندازہ درست نہیں ہے، وہ وزیر اعظم کو غلط مشورہ دے رہے ہیں۔ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں سیاستدانوں کی کرپٹ پالیسی کی وجہ سے مارشل لاء لگنے کے خطرے کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ 
آج وزیر اعظم اور تمام ارکان اسمبلی اضطراب کا شکار ہیں۔ انہیں باور کرنا چاہیے کہ جمہوریت ہمیشہ جمہوری رویوں سے مستحکم ہوتی ہے، جان کیری لوگر کے مالی امداد حاصل کرنے والے میڈیا ہاؤسزکے ذریعے نہیں ہوتی، نہ ہی طاقت کا محور وزیر اعظم کے ہاتھ میں رکھنے سے اور لاہوری بیوروکریسی کے ذریعے حکومت مضبوط ہو سکتی ہے۔ ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف بھی مضبوط بیوروکریسی کے ذریعے حکومت کرتے رہے لیکن عوام میں اپنا بھرم قائم نہ کر سکے۔ آج پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اندر فارورڈ بلاک بنائے جانے کا امکان ہے کیونکہ ارکان پارلیمنٹ وزیر اعظم کے غیر جمہوری طریقہ کار سے بیزار ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف خوش قسمت ہیںکہ عمران خان کی حکمت عملی کو پنکچر کرنے کے لئے خورشید شاہ وقتی طور پر ان کے ساتھ مل گئے ہیں۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ بلاول زرداری کے ٹویٹس اور بیانات کی زد میں نہ آئیں۔ در اصل ذاتی بقا کے لئے جو میثاق جمہوریت طے پایا تھا اسی پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔ 
بعض حلقے خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے سینئر رہنماؤں نے ان سے مشاورت کئے بغیر ایک خفیہ معاہدہ کے تحت خورشید شاہ کو بلینک چیک دے دیا تھا۔ شیریں مزاری کے کہنے پر ہی خورشید شاہ نے دو منٹ کی بے جان تقریر کی تھی۔ لگتا ہے اب پاناما لیکس پر احتساب کا کوئی نیا قانون یا ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے با اختیار عدالتی کمیشن نہیں بنے گا۔ ہماری تاریخ میں سقوط مشرقی پاکستان پر حمود الرحمن کمیشن، سانحہ ایبٹ آباد کمیشن سے لے کر سانحہ ماڈل ٹاؤن پر عدالتی کمیشن کے نتائج قوم کے سامنے ہیں۔ پھر دو ہفتے میں متفقہ ٹرمز آف ریفرنسز بنانا آسان نہیں ہوگا، عمران خان کو یہ پسند نہ آئے تو وہ انہیں قبول نہیں کریںگے۔ حالات سے ظاہر ہے کہ اپوزیشن پاناما لیکس پر متحد نظر نہیں آ رہی۔ آف شورکمیٹی جو وقتی طور پر 1983ء میں بنائی گئی تھی اس کے بارے میں عمران خان اپنا دفاع کر رہے ہیں۔ تحقیقات میں تاخیرکا فائدہ حکومت کو ہو گا جبکہ عمران خان تاریک گلی میں کھڑے نظر آئیں گے۔ حکومت ٹرمز آف ریفرنس کا دائرہ وسیع کراکے پاناما لیکس کی اہمیت کو ختم کرکے خوش نظر آرہی ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے سات سوالوں کے جواب دینے سے گریز کیا جو نیلسن اور نیسکول آف شورکمپنیاں قائم کرنے کے حوالے سے تھے اور جن کے ذریعے لندن میں فلیٹس خریدے گئے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ برطانوی ہائی کورٹ کے حدیبیہ پیپر ملز قرض نادہندگی کے کیس میں 16 مارچ 1999 ء اور 5 نومبر1999 ء کے فیصلے موجود ہیں جن میں بتایا گیا کہ شریف برادران نے لندن میں پراپرٹی گروی رکھ کر 15 فروری1995 ء کو حدیبیہ پیپر ملز کے لئے قرضہ حاصل کیا تھا۔ 2013 ء کے عام انتخابات کے لئے کاغذات نامزدگی میں وزیر اعظم نواز شریف نے حدیبیہ پیپر ملز کو اپنی کمپنیوں میں سے ایک ظاہرکیا۔ وزیر اعظم نے 16مئی کو قومی اسمبلی سے اپنے خطاب میں لندن میں اپنے فلیٹس کا اعتراف کیا لیکن یہ وضاحت نہیں کر سکے کہ ان فلیٹس کی مالک آف شور کمپنیوں کو اپنے انکم ٹیکس گوشواروں میں کیوں ظاہر نہیں کیا گیا؟ پاناما پیپر اس تصدیق کرتے ہیں کہ 2008ء سے2014ء تک مریم نواز نیسکول اور نیلسن کی مالک تھیں لیکن انہوں نے اور نہ ہی ان کے شوہرکیپٹن محمد صفدر نے ان کو ظاہر کیا۔ اپنی آف شورکمپنیوں کو نہ ظاہرکرکے کیپٹن (ر) صفدر نااہلی کی زد میں آسکتے ہیں۔ یہ کمپنیاں محض فلیٹوں کی خریداری میں ہی نہیں مالی امور میں بھی ملوث رہیں۔ ان آف شورکمپنیوںکو اپنے گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے وزیر اعظم بھی الیکشن قوانین کے تحت نا اہل ہوسکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے تو ان سوالات کا جواب قومی اسمبلی میں نہیں دیا لیکن ایک دن انہیں اور ان کے خاندان کو ان کا جواب دینا پڑے گا۔ اپوزیشن لیڈرکی قوت گویائی آصف زرداری نے سلب کر لی تھی، لیکن اب انہی کی حکمت عملی کے تحت وزیر اعظم کو مزید دباؤ میں لانے کے لئے الیکشن کے قواعد و ضوابط کے تحت ریفرنس دائر ہونے کے امکانات ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں