"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے مضمرات

پارلیمنٹ نے آئین میں 22 ویں ترمیم کا بل عجلت میں متفقہ طور پر منطورکر لیا ہے۔ ترمیم کا مقصد چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ارکان کی اہلیت کا معیار اور تقرری کے طریق کار کو تبدیل کرنا اور دیگر متعلقہ معاملا ت کے لئے اصول و ضوابط وضع کرنا بتایا گیا ہے۔ آئینی ترمیم کے تحت چیف ا لیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کے لئے سپریم کورٹ یا کسی ہائی کورٹ کا موجودہ یا سابق جج ہونے کی شرط ختم کر دی گئی ہے۔ اب ججوں کے علاوہ وفاقی یا صوبائی حکومتوں کے تحت کم سے کم 20 سال کی مدت ملازمت کے حامل گریڈ 22 یا اس سے اوپر کے بیوروکریٹس اور اعلیٰ تعلیمی ڈگری اور قومی یا بین الاقوامی قومی سطح پر کامیابیوں کا ریکارڈ رکھنے والے ٹیکنوکریٹس بھی الیکشن کمیشن کے سربراہ یا رکن بننے کے اہل ہوںگے۔ کمیشن کی مدت پانچ سال ہوگی جس کے نصف ارکان ڈھائی سال کے بعد تبدیل ہوتے رہیںگے۔ چیف الیکشن کمشنر کے لئے عمرکی زیادہ سے زیادہ حد 68 اور ارکان کے لئے 65 سال ہوگی۔ قائم مقام چیف الیکشن کمشنرکی نامزدگی کے لئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا اختیار ختم کر دیا گیا ہے۔ اب چیف الیکشن کمشنر کی عدم موجودگی میںکمیشن کا سینئر ترین رکن خود بخود قائم مقام چیف الیکشن کمشنر بن جائے گا۔ اس ترمیم کا مقصد بادی النظر میں الیکشن کمیشن کو ایک خود مختار اور آئینی اداروں یعنی عدلیہ کے اثر سے آزاد بنانا ہے۔ 
کئی این جی اوز جو یورپی ممالک اور امریکہ سے کروڑوں ڈالرز کی فنڈنگ حاصل کر کے پاکستان کے سرکاری حلقوں اور سیاسی پارٹیوں کے نیم خواندہ سیاسی 
رہنماؤں کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے میں مہارت رکھتی ہیں اور میڈیا کے فعال گروپس کو غیر ملکی دورے کروانے کے لئے فنڈنگ بھی حاصل کرتی رہتی ہیں، انہوں نے آئینی و قانونی حلقوں میں الیکشن کمیشن کی ہیئت کی تبدیلی کے لئے آواز بلند کر رکھی تھی۔ پاکستان میں انتخابات کی شفافیت کا معاملہ ہمیشہ متنازعہ رہا ہے۔ برسر اقتدار حکومتوں کے علاوہ حاضر سروسز یا ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل الیکشن کمیشن پر اعتراضات ہوتے رہے کہ وہ ریاست کے مفاد کے بر عکس ذاتی مفادات حاصل کرتے ہوئے حکومت کے مفادات کر ترجیح دیتے رہے اور اپنے آئینی اختیارات کو کبھی بروئے کار نہیں لائے۔ اس سے عدلیہ کی ساکھ پر حرف آیا۔ اس صورت حال کے پیش نظر انتخابی اصلاحات کمیٹی نے ایسا آئینی مسودہ تیار کروایا کہ ججوں کو اس امتحان سے نہ گزارا جائے۔ اب یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے کہ تجربہ کار بیوروکریٹس اور ٹیکنوکریٹس کو ذمہ داریاں سونپی جائیں۔ دوسرے جمہوری ملکوں میں زیادہ تر اسی روایت پر عمل ہوتا ہے، لیکن ان کا طریقہ کار انتہائی جمہوری، پائیدار، غیر جانبدارانہ اور حکومتی اثرو رسوخ سے بالا تر ہوتا ہے۔ ان کا طریقہ پاکستان کی موجودہ 22 ویں ترمیم کے بر عکس ہے۔ ہمارے ہاں ایسا طریقہ وضع کیا جا رہا ہے جس کے تحت حکومت پوشیدہ طریقے سے الیکشن کمیشن میں ایسے ارکان کا تقرر کر الے گی جو ان کے تھنک ٹینکس میں کام کر رہے ہیں اور جن کو غیر ملکی فنڈنگ سے لاکھوں روپے کے مشاہر ے دیے جا رہے ہیں۔ بھارت میں چیف الیکشن کمشنر اکثر کسی سرد و گرم چشیدہ بیوروکریٹ کو مقرر کیا جاتا ہے جو اپنی صلاحیتوں کی بنا پر انتخابی مشینری کو پوری طرح کنٹرول میں رکھتا اور انتخابی عمل کو غیر جانبدارانہ اور منصفانہ بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں انتخابات کو کالعدم کرنے کے لیے تحریکیں نہیں چلتیں۔
پاکستان میں الیکشن کمیشن آئینی طورپر انتظامی اور مالی لحاظ سے خود مختار اور حکومت کے کنٹرول سے آزاد ہونے کے باوجود انتخابات کو بے قاعدگیوں کے الزامات سے بچانے میں اس لئے کامیاب نہیں ہو سکا کہ اس کے بعض ارکان نے قواعد و ضوابط کے لبادے میں حکومت کو محفوظ راستہ دکھایا۔ مبصرین اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ جج انصاف کے شعبہ میں تو یکتا ہوتے ہیں مگر انتظامی تجربہ کم ہونے کی وجہ سے انتخابی مشینری ان کے کنٹرول میں نہیں رہتی جس کی وجہ سے انتخابات میں بد انتظامی اور بے ضابطگی کے مظاہرے دیکھنے میں آتے ہیں۔ اب الیکشن کمشن کی ہیئت بدلنے سے ماضی کے مقابلے میں زیادہ خطرناک رجحانات دیکھنے میں آئیں گے، اس لئے کہ بیس کروڑ عوام کی قسمت کا فیصلہ الیکشن کمیشن کے تین ارکان کے ہاتھوں میں تھمایا جا رہا ہے۔ میں نے دانستہ طور پر تین ارکان الیکشن کمیشن کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ پانچ میں سے اگر دو ارکان نے اپنے ضمیرکے مطابق فیصلے کرنے کا عزم کر لیا تو دیگر تین ارکان کی کو تاہ اندیشی ان کے لئے رکاوٹ کا سبب بن سکے گی۔ نیا الیکشن کمیشن اسی طرح کی متنازعہ صورت حال کا سامنا کرتا نظر آ رہا ہے۔کمیشن کے ارکان کی رائے اور فیصلے اب ریٹائرڈ بیوروکریٹس اور ٹیکنوکریٹس کے رحم و کرم پر ہوں گے اور انہیں طاقتور میڈیا کے تند و تیز حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔
پاکستان کی بد قسمتی دیکھیے کہ الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کے لئے اپوزیشن کے ارکان نے حکومتی مسودہ پر ہی مہر تصدیق ثبت کردی، جمہوری ممالک کے الیکشن کمیشن کے طریقہ کارکو مد نظر نہیں رکھا۔ انڈین الیکشن کمیشن کے مثالی سسٹم کو بھی نظر انداز کر دیا گیا جہاں ریٹائرڈ بیوروکریٹس کو الیکشن کمیشن کا رکن مقرر نہیں کیا جاتا کیونکہ ان کے سسٹم میں ریٹائرڈ بیوروکریٹ کی خدمات حاصل کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہے، جبکہ پاکستان میں نئے طریقہ کار سے ریٹائرڈ بیوروکی کلب معرض وجود میں آگئی ہے، 1200کے قریب انتظامیہ کے طاقتور ریٹرننگ آفیسرز پر انتظامی کنٹرول رکھنا ان کے بس میں نہیں ہوگا۔ اسی طرح سات لاکھ کے لگ بھگ پولنگ کا عملہ بھی ان کے کنٹرول میں نہیں آئے گا۔ ریٹائرڈ اورکنٹریکٹ پر لئے گئے ارکان کمیشن نے مئی 2013ء کے انتخابات میں اپنی کارکردگی کے حوالے سے قوم کو مایوس کیا۔ ریٹرننگ افسر، الیکشن کمیشن کے بعض مستقل ملازمین کی ملی بھگت سے لاکھوں کی تعداد میں غیر ضروری بیلٹ پیپرز شائع کرواتے رہے۔ سپریم کورٹ کے انکوائری کمیشن نے بھی انہیں سرزنش کرنے کی بجائے ان سازشی عناصرکو تحفظ دیا اور الیکشن کمیشن کے ارکان کے بارے میں اپنے فیصلے میں لکھ دیا کہ ان کا الیکشن کمیشن کی مشینری پر برائے نام کنٹرول تھا جس کی وجہ سے بے قاعدگیاں ہوتی رہیں۔ قوم کے مینڈیٹ کا احترام نہیں کیا گیا اور اس طرح مئی 2013ء کے انتخابات کی ساکھ مجروح ہوگئی۔ کنٹریکٹ یافتہ ارکان کمیشن ریٹرننگ افسروں کے ہاتھوں میں یرغمال بنے رہے۔ اب یہی مشق 22 ویں ترمیم کے ذریعے دہرائی جا رہی ہے۔ 2018 ء کے انتخابات میں بے قاعدگیوں اور بد انتظامیوں کی روک تھا م کے لئے کوئی واضح، مضبوط اور فعال طریقہ کار اختیارکرنا کم از کم میری دانش میں ناممکن نظر آرہا ہے!
الیکشن کمیشن کے موجودہ ارکان جو 10 جون کو ریٹائر ہو رہے ہیں ان کی تنخواہوں کو پارلیمنٹ ایکٹ کے ذریعے تحفظ نہیں دیا گیا،لہٰذا ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے خلاف آڈیٹر جنرل کے ایسے پیرے سامنے آئیں گے جن کو حکومت پاکستان کی معاونت حاصل نہیں ہو سکے گی۔ 
اب الیکشن کمیشن کے ارکان کنٹریکٹ پر انتخابات کرانے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ انہی کنٹریکٹ یافتہ ارکان کی مشاورت سے نگران وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کی نامزدگی بھی آئینی طور پر منظور ہوگی۔ اپوزیشن ارکان کو انتخابی اصلاحات کا ادراک ہی نہیں۔ دراصل ریٹائرڈ بیوروکریٹس یا ججزکے بجائے حاضر سروسز ججز یا بیوروکریٹس ہونے چاہئیں تاکہ ان کو متعلقہ ہائی کورٹس کی پشت پناہی حاصل رہے، انتظامیہ پر بھی ان کا مکمل کنٹرول رہے اور ریٹرننگ آفیسرز بھی ان کے احکامات کو نظر انداز نہ کر سکیں۔ بہرحال، آئندہ انتخابات بھی 2013ء کے انتخابات کی طرز پر ہی ہوںگے۔
قرائن سے ظاہر ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو سے حکومت اور اپوزیشن میں چند روز میں رسہ کشی شروع ہو جائے گی۔ نئے ارکان کی تقرری کے لئے پارلیمانی کمیٹی آئین کے آرٹیکل 213 کے تحت بنائی جائے گی، اتفاق رائے نہ ہو سکا تو دو تہائی اکثریت سے فیصلہ کیا جائے گا۔ اس طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی پوزیشن مضبوط ہوگی اور ارکان کی نامزدگی اپوزیشن کی صفوں میں دراڑ پیدا کرنے کا باعث بن جائے گی۔ ارکان کی نامزدگی کے لئے کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے چھ، چھ ارکان ہوںگے، اس میں تحریک انصاف کا ایک رکن ہوگا۔ اتفاق رائے سے نامزدگی عمل میں نہ لائے جانے کی صورت میں دو تہائی ارکان کی حمایت سے فیصلہ ہو سکے گا۔اس طرح مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو الیکشن کمیشن کے ارکان کو نامزد کرنے میں فیصلہ کن حیثیت حاصل ہو گی اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہی دو جماعتیں مل کر اپنی مرضی کے دو دو ارکان نامزد کروانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں