"KDC" (space) message & send to 7575

ٹی او آرز، وزیراعظم کی علالت اور آئینی بحران

ٹرسٹ کی رقوم بیرون ملک سرمایہ کاری یا کسی اور مقصد کے لئے استعمال کرنے کے الزام میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 406 اور اینٹی لانڈرنگ ایکٹ 2010ء کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔ ٹرسٹ کی آمدن میں خیانت ناقابل ضمانت جرم ہے۔ الزامات ثابت ہونے کی صورت میں بورڈ آف ٹرسٹیز کو سات سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اینٹی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت مقرر کردہ حد سے زیادہ رقوم بیرون ملک ٹرانسفرکرنے کے لئے کرنسی ٹرانزیکشن رپورٹ (سی ٹی آر) کے ذریعے سٹیٹ بینک آف پاکستان سے اجازت لینا ضروری ہے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں یہ ٹرانزیکشن منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتی ہے۔ قانون کے تحت ایسے معاملے کی تفتیش قومی احتساب بیورو (نیب)کر سکتا ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ سزا 10 سال قید‘ دس لاکھ روپے جرمانے کے علاوہ پراپرٹی کی ضبطی شامل ہے۔
پاناما لیکس کے حوالے سے عدالتی کمشن کے لئے شرائط طے کرنے کی خاطر قائم کی جانے والی پارلیمانی کمیٹی کی پیش رفت اطمینان بخش نہیں ہے۔ طرفین کو چاہیے کہ چند دنوں میں اتفاق رائے سے عدالتی کمشن کے لئے ٹرمز آف ریفرنس طے کر لیں تاکہ پاناما لیکس سمیت مالی بدعنوانیوں کے تمام اہم معاملات کی عدالتی تحقیقات شروع ہو سکے۔ آغاز وزیر اعظم نواز شریف کے خاندان سے ہونا چاہیے۔ وزیر اعظم خود قوم سے دو بار خطاب اور قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران احتساب کا سلسلہ اپنے گھرانے سے شروع کرنے کی پیش کش کر چکے ہیں۔ اب قوم بھی بیدار ہو چکی ہے۔ اپوزیشن کی اہم جماعتوں نے قوم کو آگاہ کر دیا ہے کہ ہماری حکمران جماعت کے بعض سرکردہ رہنما اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ارکان کے علاوہ بزنس کمیونٹی اور میڈیا پرسنز قومی دولت لوٹ کر بیرون ملک اکاؤنٹس میں پوشیدہ کر چکے ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پاسپورٹ اور قومی شناختی کارڈ کے اجراء کے حوالے سے کمزوریوں اور نقائص کی ازخود نشان دہی کرتے ہوئے پورے نظام کی از سر نو جانچ پڑتال کے لئے ٹائم فریم کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ گزشتہ حکومت کے دور میں جو بے قاعدگیاں ہوئیں اب وہ ظاہر ہو چکی ہیں۔ واضح رہے کہ الیکشن ٹربیونلزکے اہم فیصلوں میں بعض قومی رہنماؤں کے انتخابات اسی بنیاد پرکالعدم ہوئے تھے کہ الیکشن کمشن کی تیارکردہ کاؤنٹر فائلز پر شناختی کارڈزکے نمبر جعلی تھے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے تحت انکوائری کمشن کے فیصلے میں بھی نادرا کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔ یہ تو جملہ معترضہ تھا، اصل موضوع ٹی او آرز ہیں جن پر پارلیمانی کمیٹی انتشار کا شکار ہو گئی ہے۔ حکومت اس ضمن میں وہی طریقہ اختیار کر رہی ہے جو 1977ء میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے قومی اتحاد کی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ اختیار کیا تھا۔ اس وقت جان بوجھ کر مذاکرات کو طول دیا گیا تھا تاکہ اپوزیشن کی ٹیم نڈھال کر دیا جائے۔ اس کا نتیجہ قوم کے سامنے ہے۔ اب ایک بار پھر ملک و قوم ایک نازک دور سے گزر رہی ہے۔ اگر ٹی او آرز پر صورت حال جوں کی توں رہی تو صدر مملکت آئین کے آرٹیکل 91 کی سب کلاز 7 کے تحت وزیر اعظم سے دوبارہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بارے میں اپنا صدارتی اختیار بروئے کار لا سکتے ہیں۔ لیکن اس وقت حکومت کے کیمپ میں قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلی کے 130 سے زیادہ ایسے ارکان موجود ہیں جو سابق صدر پرویز مشرف کے وفادار ساتھی رہے اور وفاداریاں تبدیل کر کے وزیر اعظم نواز شریف کے لئے اب درد سر بنے ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے معاملات میں خطرناک موڑ آتے جا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے خط اور پارلیمانی قرار داد میں 12 رکنی کمیٹی کے لئے طریقہ کار واضح کر دیا گیا ہے جس کے تحت پاناما پیپرز میں اٹھائے گئے اہم معاملات کی تحقیقات ہو گی۔ ان میں آف شور کمپنیاں ، کرپشن سے حاصل کردہ فنڈز کی بیرونی ممالک کو منتقلی‘ کک بیکس اور بینکوں سے معاف کرائے گئے قرضے شامل ہیں۔ قرضے معاف کرانے والوں کے سلسلے میں جسٹس ریٹائرڈ جمشیدکی رپورٹ بڑی اہمیت کی حامل ہے جسے عدالتی کمیشن اپنا کر اسی پر ہی عمل درآمد کراسکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے خط کے حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ تحقیقات کے لیے تمام افراد، خاندانوں، گروپس اور کمپنیوں کی فہرست طلب کی گئی ہے‘ لہٰذا ایسی فہرست فراہم کرنا لازمی ہے۔ دیگر تفصیلات طے کرنے کے علاوہ کمیٹی کا اصل کام یہ فہرست مرتب کرنا ہے تاکہ کمیشن کی جانب سے تحقیقات کو اسی تک محدود رکھا جا سکے۔
ملک میں حکومتی سوچ کے باعث آئینی بحران پیدا ہو چکا ہے۔ آئین سے ماورا جو بھی فیصلے ہو رہے ہیں ان کو یکجا کرکے سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔ وزیر اعظم کی غیر موجودگی میں حکومتی امور چلانے کے لئے پاکستان کا آئین مکمل طور پر خاموش ہے۔ وفاقی وزیر صرف معاملات کی نگرانی کر سکتے ہیں، کسی سمری پر فرمان جاری نہیں کر سکتے۔ پاکستان کے سابق عدالتی مرد آہن چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی وزیر اعظم کی غیر موجودگی میں ان کی اتھارٹی کو استعمال کرتے ہوئے فیصلوں کو غیر آئینی قرار دے چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے وزیر اعظم نواز شریف آئندہ چند ہفتے یا مہینے فرائض انجام نہ دے سکیں۔ ادھرکسی سینئروزیر کو اختیارات دینے سے متعلق آرٹیکل 95 کے سب آرٹیکل 3 کا اختیار آٹھویں ترمیم میں منسوخ ہو چکا ہے۔ اس صورت حال میں سپریم کورٹ از خود نوٹس لیتے ہوئے یا آئینی پیٹیشن کے ذریعے سارے طریقہ کار کو غیر آئینی قرار دیکر کالعدم قرار دینے کی آئینی طاقت رکھتی ہے جس کے نتیجے میں کابینہ اور حکومت خود بخود تحلیل ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ اس مسئلے کے حل کے لئے صدر مملکت آئین کے آرٹیکل 267-A, 267 اور 268-B کا سہارا لے کر درمیانی راستہ نکالتے ہوئے وزیر اعظم کی صحت مندی تک انہیں سبکدوش کرانے کے لئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو ریفرنس بھجوا سکتے ہیں۔ اس پیچیدہ صورت حال کے پیش نظر حکومت کو آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ایسے فیصلے کرنے ہوں گے کہ ملک میں آئینی بحران پیدا نہ ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں