"KDC" (space) message & send to 7575

قومی سلامتی کے اہم امور خطرے کی زد میں

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا برطانیہ کے پرائیویٹ ہسپتال میں بستر علالت سے ملک کے معاملات کو چلانا ایک مشکل کام تھا۔ پاناما لیکس کا بوجھ ان کے ذہن پر ہے کیونکہ اس سے صرف حکومت ہی نہیں اربوں ڈالر بھی جا سکتے ہیں۔ انہوں نے قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس کی صدارت وڈیو لنک کے ذریعے کرتے ہوئے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی منظوری دی۔گویا سکائپ کے ذریعے حکومت چلائی گئی، جس سے قومی سلامتی خطرے کی زد میں آ گئی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی اور صدر مملکت ممنون حسین نے اپنے اپنے خطابات میں کرپشن اور نااہلی کو ملکی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے۔ ملک کی تمام سیاسی قیادت بھی کرپشن اوراس سے ملک کو پہنچنے والے نقصان کا اعتراف توکرتی رہتی ہے لیکن اس کے خاتمے کے لئے کوئی عملی اقدامات نہیںکرتا۔
وزیر اعظم نوازشریف قومی اسمبلی کے اجلاس میں چند بنیادی سوالوںکے جواب دینے میں ناکام رہے۔ اگر وہ اپنے خاندانی کاروبارکی وضاحت کر دیتے تو جوڈیشل کمشن بنانے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی اور بقول سید خورشید شاہ قومی اسمبلی کا بھی وقت بچ جاتا۔ وزیر اعظم 1993ء میں نیلسن اور1994ء میں نیسکول کے قیام کے حوالے سے خاموش ہیں۔ انہوں نے ایون فیلڈ ہاؤس کا فلیٹ بھی انہی کمپنیوں کے ذریعے 1993ء سے1996 ء کے درمیان خریدا تھا، یہیں وہ اپنی لندن یاترا کے دوران پریس کانفرنس کرتے ہیں۔ اسی طرح90 لاکھ ڈالرکی جو رقم دبئی میںگلف سٹیل کی فروخت سے1980ء میں حاصل کی گئی اور جو مے فیئرفلیٹ خریدنے کے لئے استعمال ہوئی، یہ لندن کیسے منتقل ہوئی اور 17 سال تک کہاں پر پوشیدہ رکھی گئی؟ برطانیہ کی سرکاری دستاویزات کے مطابق بھی ایون فیلڈ ہاؤس کے فلیٹس نیلسن اور نیسکول نے 1993ء سے1996 ء کے درمیان خریدے اور بی وی آئی کمپنیاں ابھی تک اس کی مالک ہیں۔ اس بات کا بھی دستاویزی ثبوت موجود ہے کہ دبئی کی سٹیل مل 1980ء میں90 لاکھ ڈالر میں فروخت ہوئی۔ وزیر اعظم الیکشن کمیشن کے سالانہ گوشواروں میں اپنے غیر ملکی اثاثوں کے بارے میں عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی بادی النظر میں خلاف ورزی کے مرتکب نظر آرہے ہیں۔ جوڈیشل کمیشن وزیر اعظم سے استفسارکر سکتا ہے کہ کیا گلف سٹیل کا ذکرکبھی انکم ٹیکس ریٹرن یا دولت کے گوشواروں میںکیا۔ یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ شریف برادران یہ رقم پاکستان کیوں نہیں لائے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی کے فلور پر اعتراف کیا کہ وہ اور ان کا خاندان بیرون ملک سرمایہ کاری پر مجبور ہوگیا تھا کیونکہ وزیر اعظم بھٹو ان کے خاندان کے خلاف اقدامات کر رہے تھے۔ تاہم 1980ء تک اتفاق فیکٹریاں اور املاک جو بھٹو دور میں قومیائی گئی تھیں، وہ میاں محمد شریف مرحوم کو واپس کر دی گئی تھیں اور ایک اطلاع کے مطابق اتفاق فاؤنڈری کے نقصانات کا ازالہ کر نے کے لئے گورنر پنجاب جنرل جیلانی کی سفارش پر ان کو حکومت کی جانب سے 80 کروڑ روپے کے لگ بھگ رقوم بھی ادا کی گئی تھیں۔ پھر اسی دور میں میاں نواز شریف اقتدار میں آئے۔ وہ حکومت کا حصہ تھے جب منی لانڈرنگ اور رقوم کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا گیا۔ جوڈیشل کمیشن یہ سوالات کر سکتا ہے؛ حالانکہ آئینی، قانونی اور اخلاقی طور پر ان سوالات کے جوابات انہیں قومی اسمبلی کے فلور پر دے دینے چاہئے تھے۔ شنید ہے کہ مرحوم محمد شریف اپنی رقوم بینکوں میں رکھنے کے بجائے پرانے بزرگوں کی طرح گھروں کے تہہ خانوں میں رکھنے کے عادی تھے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے1996 ء میں مے فیئر کے لگژری فلیٹس کی خریداری کے بعد دبئی میں فروخت ہونے والی سٹیل مل کی فروخت سے حاصل ہونے والی غیرملکی کرنسی2000 ء میں سعودی عرب کیسے منتقل کی؟ جوڈیشل کمیشن کے معزز جج ان سے استفسارکریںگے کہ یہ غیر ملکی کرنسی دبئی سے سعودی عرب منتقل ہوئی یا برطانیہ سے سعودی عرب پہنچی؟ اور اسی دوران محترم شریف مرحوم نے آغا حسن عابدی کے متنازعہ بنک بی سی سی آئی سے مالیاتی سہولت حاصل کی۔ اس قرض کے نادہندہ ہونے کے بھی ثبوت موجود ہیں۔ بعد ازاں اس بینک سے قرضہ معاف کروایا گیا۔ شاید مرحوم آغا حسن عابدی کی عقابی نگاہوں کے سامنے یہ منظر آچکا تھا کہ مستقبل قریب میں جناب نواز شریف ملک کی باگ ڈور سنبھالیںگے۔ آغا حسن عابدی نے پاکستان کے ابھرتے ہوئے پرنٹ میڈیا کی بعض شخصیات کو اپنے دست راست الطاف گوہرکے ذریعے 1980ء سے1985ء تک لاکھوں روپے کے قرضے اس بینک کے ذریعے دلوائے۔ بعد میں یہ قرضے معاف کرا لیے گئے۔
وزیر اعظم نوازشریف مالیاتی امور میں شفافیت ثابت کرنے میں اپنی ساکھ داؤ پر لگا چکے ہیں، ان پر سعودی عرب اور دبئی میں سرمایہ کاری پر تو سوال اٹھ ہی نہیں رہے ہیں، ان کے بارے میں اہم سوالات 1990 ئکے اوائل میں ہونے والے کاروباری لین دین کے حوالے سے ہیں۔ آف شورکمپنیاں تو1993 ء اور1994 ء میں قائم کی گئیں اور فلیٹ 1993,1995, 1994 اور 1996ء میں خریدے گئے۔ لندن کے مذکورہ فلیٹس التوفیق انویسٹمنٹ فنڈ سے قرض لینے کے لئے مالیاتی سہولت کے طور پر استعمال کئے گئے اور 15 فروری 1995ء کو لندن میں اس سلسلے میں ایک سمجھوتے پر دستخط ہوئے۔ قرض حدیبیہ پیپر ملزکے لئے حاصل کیا گیا جو کہ نواز شریف کے اہل خانہ کی ملکیت تھی۔ فلیٹ نواز شریف کے اہل کاروں کی ملکیت میں نہیں تھے لیکن نیلسن اور نیکسول کمپنیوں کے نام تھے؛ چنانچہ شواہد سے ثابت ہوتا ہے یہ آف شور کمپنیاں نواز شریف کے اہل خانہ کی ہی تھیں۔ نواز شریف جو آئین و قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کبھی انکم ٹیکس ریٹرن میں اس کا ذکر نہیں کیا اور نواز شریف کے صاحبزادگان یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ اب یہ کمپنیاں ان کی ملکیت ہیں۔ نواز شریف نے قومی اسمبلی کے فلور پر ان آف شور کمپنیوں کی تفصیلات رضا کارانہ طور پر نہیں بتائیں جو 1993ء کے بعد سے اب تک ان کے خاندان کے پاس ہیں۔
لوٹی ہوئی دولت کی بیرون ملک سے واپسی میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے کیونکہ عالمی سطح پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے بھی مالی بد عنوانیوں کے خاتمے کی کوششیں جاری ہیں۔ اسی تناظر میں قوم چیف جسٹس آف پاکستان اور صدر مملکت کی طرف دیکھ رہی ہے کہ انصاف کی مسند پر بیٹھ کر آپ کا کام ایکشن لینا ہے، قوم کو صرف درس دینا نہیں۔ آئین کے آرٹیکل 184 اور 190 ان کے حکم کے منتظر ہیں! شنید ہے کہ صدر ممنون حسین سے وزیر اعظم خفگی کا اظہار کر چکے ہیںکہ انہوں نے پاناما لیکس کے بارے میں سخت سوالات کئے۔ حال ہی میں صدر ممنوں حسین نے سیاستدانوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کرپشن کرنے والوں کے چہرے مسخ ہو چکے ہیں جس کے بعد ان کے اپنے مستقبل کے بارے میں سوال اٹھ رہے ہیں۔ میری دانست میں صدر ممنون حسین دباؤ میں آ کر استعفیٰ نہیں دیںگے کیونکہ وہ با اصول اور جرأت مند رہنما ہیں۔ انہوں نے صدر پرویز مشرف اور جنرل عثمانی کے آگے جھکنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں