"KDC" (space) message & send to 7575

چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات کی بحالی کے مضمرات

پانامہ لیکس کے تناظر میں سیاسی طوفان شدت اختیار کر رہا ہے، اپوزیشن اور حکومت نے الیکشن کمیشن کے نئے ارکان کے بارے میں آئینی فیصلہ بھی کرنا ہے کیونکہ موجودہ ارکان 10 جون کو اپنی آئینی مد ت پوری کرنے کے بعد سبکدوش ہوگئے ہیں۔ موجودہ کشیدہ سیاسی ماحول میں فریقین کا ارکان الیکشن کمیشن پر اتفاق مشکل نظر آ رہا ہے۔ 22 ویں ترمیم کی رو سے ریٹائرڈ بیورو کریٹس کو بھی الیکشن کمیشن کا رکن بنایا جا سکتا ہے؛ لہٰذا قابل اور غیر متنازع ارکان کا فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے گا کیونکہ وفاقی حکومت پنجاب کے لئے الیکشن کمیشن کے رکن کے طور پر پسندیدہ شخصیت کو سامنے لانے کی کوشش کرے گی، موجودہ چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا دسمبر 2019 ء تک چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر فائز رہیں گے، نئے ارکان الیکشن کمیشن پر آئندہ کے انتخابات کے حوالہ سے شدید دباؤ رہے گا۔ مارچ 2017ء میں مردم شماری کے امکانات موجود ہیں جس کے بعد نئی حلقہ بندیاں اور بعد ازاں انتخابی فہرستوں کی سالانہ نظر ثانی کی بھی تشکیل ہونی ہے۔یہ سب آسان نہیں خصوصاً اس صورت میں کہ جب ملک میں پاناما لیکس پر ٹرمز آف ریفرنسز پر کے سلسلے میں سیاسی ماحول خاصا کشیدہ ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابات کے دوران ہمیشہ متنازع بنتا رہا ہے ۔ متفقہ طور پر مقررکئے جانے والے سابق چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم اپنی ماضی کی شاندار روایات کے باوجود 2013 ء کے انتخابات میں انتہائی متنازع حیثیت اختیار کر گئے۔ ان کی ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ وہ با اختیار ہونے کے باوجود اپنی اتھارٹی مؤثر طور پر نافذ نہ کرسکے۔ اپنے دور میں وہ اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین پر عمل تک نہیں کرا سکے جو انہوں نے 2013 ء کے انتخابات سے پہلے بنائے تھے، مثلاً میڈیا مہم اور اشتہارات سمیت انتخابی مہم پر اخراجات کی حد اور پابندی۔ نیز سیاسی جماعتوں اور امیدواروں نے علیحدہ علیحدہ بنک اکاؤنٹس کھولنے تھے لیکن اس پر چیک رکھنے کے لئے کوئی موثر طریقہ کار وضع نہ کیا جا سکا۔ الیکشن کمیشن کے سابق ارکان جو اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 10 جون سے سبکدوش ہو گئے ہیں انہوں نے جو الیکشن ٹربیونلز مقرر کئے انہیں 120 دن کے اندر اندر فیصلہ دینے کا پابند نہیں کیا گیا۔ کئی انتخابی عذر داریاں تین سال سے لٹک رہی ہیں۔ الیکشن ٹربیونلز کے لئے ریٹائرڈ ججز کی خدمات حاصل کی گئیں جن میں بیشتر کا تعلق سیاسی جماعتوں سے تھا۔ انہوں نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع کرائی اور الیکشن ٹربیونلز کے سربراہ کی حیثیت سے ایسے نامکمل اور متنازع فیصلے صادر کئے جن کے خلاف سپریم کورٹ کو سماعت کرنا پڑ رہی ہے۔ سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس فخر الدین جی ابراہیم حاضر سروسز ججوں کو الیکشن ٹربیونلز کا سربراہ بنانا چاہتے تھے لیکن انہیں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
نئے الیکشن کمیشن پر اپوزیشن اور حکومت کو باہم مذاکرات کرنے ہوں گے ، یہ بھی اچھی بات،کہ پاناما لیکس پر کشیدگی کے باوجود پارلیمنٹ میں تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر 22 ویں ترمیم منظورکی ۔ نئے تکمیل پانے والے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین اور ریٹائرڈ ججز بھی ہوں گے جو سیاسی عزائم بھی رکھتے ہوں گے۔ اسی طرح حکومت اور اپوزیشن کے لیے ایماندار اور قابل وفاقی سیکریٹری الیکشن کمیشن تلاش کرنا بھی آسان نہ ہوگا۔ ایک ایسی شخصیت جو جرأت مند ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی اثرو رسوخ سے آزاد ہو ۔
2013ء کے قومی انتخابات کے تلخ تجربات اور الیکشن کمیشن کے ارکان کی انتخابی معاملات میں عدم دلچسپی اور آئینی و قانونی اختیارات رکھتے ہوئے بھی متنازع حلقوں میں از سر نو انتخابات کرانے سے گریز کرنا تنقید کا باعث بنا۔ مخصوص سیاسی جماعت کی طرف جھکاؤ کی وجہ سے سول سوسائٹی اور بعض دیگر سیاسی جماعتوں کا موقف تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات بحال کئے جائیں، لہٰذا قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہونے والی 22 ویں ترمیم نے ارکان الیکشن کمیشن کو بے اختیار کر دیا اور اختیارات چیف الیکشن کمشنر کو منتقل کر دئیے۔ کمیشن کے ارکان کی مدت 10 جون کو ختم ہونے کے بعد ممکنہ آئینی بحران پیدا ہونے کے امکانات کم ہوئے جب کہ ارکان کمیشن کی حیثیت مشاورت کے دائرہ کار میں آ گئی ہے۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی کے ارکان نے صرف ایک لفظ تبدیل کر کے الیکشن کمیشن کے تمام اختیارات چیف الیکشن کمشنر کو سپرد کر دئیے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ارکان اور چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے لئے آئین کے آرٹیکل 213 سے 222 تک ترامیم کیں۔ آئین کے آرٹیکل 219 میں حکومت نے لفظ الیکشن کمیشن کے فرائض کو کمشنر کے فرائض میں تبدیل کر دیا ہے جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن کے ارکان بے اختیار ہو کر رہ گئے ہیں۔ بائیسویں ترمیم کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلیوں ، سینیٹ اور مقامی حکومتوں کے انتخابات سمیت انتخابی فہرستوں کی تیاری اور الیکشن ٹربیونلز کا تقرر چیف الیکشن کمشنر کی ذمہ داریوں میں شامل کر لیا گیا ہے۔ آرٹیکل 219 میں ترمیم سے پہلے یہ ذمہ داری کمیشن کے ارکان بشمول چیف الیکشن کمشنر پر مشتمل کمیشن کے اختیارات میں تھی۔ 
1976 ء میں عوامی نمائندگی ایکٹ کی پارلیمنٹ سے منظوری کے چند مہینوں کے بعد قومی اسمبلی تحلیل کر دی گئی تھی۔ متحدہ اپوزیشن کی طویل بائیکاٹ کی وجہ سے عوامی نمائندگی ایکٹ 76 منظور کروایا گیا تھا جو کہ بین السطور میں وزیر اعظم بھٹو کے الیکشن پلان کا ہی حصہ تھا، اس ایکٹ میں ریٹرننگ آفیسران کو الیکشن میں دھاندلی، بے قاعدگیاں اور بے ضابطگیوں پر پوچھ گچھ سے مبرا کر دیا گیا تھا! اس طرح وزیر اعظم بھٹو نے 1976 ء کے اوائل میں ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پارلیمانی امور کی وزارت سے علیحدہ کر کے اس کو براہ راست وزیر اعظم سیکریٹریٹ کے ماتحت کر دیا تھا ۔ اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر سجاد احمد جان نے ان اقدامات کی شدید مزاحمت کی تھی ۔ 1977ء کے انتخابات سے پہلے اور بعد میں بھی قومی اتحاد کے نامور رہنماؤں نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے آرڈر کے تحت اکتوبر 1977ء میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو دوبارہ وزارت پارلیمانی امور کے حوالے کیا گیا۔14 اگست 1973 ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا تیار کردہ آئین منظور ہوا۔ چند ماہ بعد ہی آئین میں ترمیم کی ضرورت آ گئی یوں آئین میں پہلی ترمیم 22 اپریل 1974ء کو ہوئی جس کو قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کر لیا اس آئین کی بارہ مختلف شقوں اور پہلے گوشوارے کے چوتھے حصے میں ترمیم کی گئی، اس ترمیم کی رو سے ملک کی جغرافیائی حدود کی تعریف میں رد و بدل کر کے مشرقی پاکستا ن کو بنگلہ دیش کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا۔آئین میں ترامیم کا جو سلسلہ شروع ہوا جواب 22ویں ترمیم تک آن پہنچا ہے۔ 1973ء کا آئین اپنے حقیقی خدوخال سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔چاروں ارکان کی سبکدوشی کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کا متنازع دور اپنے انجام کو پہنچا ۔ان کی تقرری آئین کے آرٹیکل 213 کے مطابق نہیں کی گئی تھی اورآئین سے انحراف کرتے ہوئے جو راستہ اختیار کیا گیا تھا اس سے قومی انتخابات 2013 ء بھی متنازع ہوتے چلے گئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں