"KDC" (space) message & send to 7575

جوڈیشل کمیشن کا معاملہ کھٹائی میں

پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز کا معاملہ( وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کی طرف سے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے گھٹنے چھو جانے کے بعد )تا حکم ثانی معطل ہو گیا ہے۔ پرویز رشید صاحب کا یہ کہنا کہ جھک کر ملنا ان کی تربیت میں شامل ہے‘اپنی حرکت پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ان کا اس طرح جھک کر پاؤں پکڑنا وزیر اعظم نواز شریف کی اس حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے ذریعے اپوزیشن کی صفوں میں دراڑیںپڑ چکی ہیں ۔ اب عمران خان تنہا پرواز کریں گے۔ پارلیمانی کمیٹی کے آٹھویں اجلاس تک کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا اور حکومت اس معاملہ کو طول دینا چاہتی ہے، اب متحدہ اپوزیشن کا قومی فریضہ ہے کہ وہ قوم کے اعتماد پر پورا اترے اورعوام کو مایوس نہ کرے۔ صدر ممنون حسین کے بقول اللہ تعالی نے ہمیں پانامہ پیپرز کی شکل میں ایک موقع دیا ہے کہ ہم کرپٹ لوگوں کو منطقی انجام تک پہنچا دیں ‘ کرپشن جاری رہی تو ملک بیرونی سرمایہ کاری سے محروم ہو جائے گا۔پاک چین اقتصادی راہداری کا حشر کالا باغ ڈیم کی صورت اختیار کر لے گا۔ خدانخواستہ اگر ایسا ہوا تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔
وزیر اعظم کی علالت کو جس انداز سے پوشیدہ رکھا جا رہا ہے اس سے ملک آئینی بحران کی طرف جا رہا ہے۔ پانامہ لیکس کے لئے ٹرمز آف ریفرنسز ڈیڈ لاک کی طرف جا رہے ہیںاور متحدہ اپوزیشن نے مشترکہ حکمت عملی کے تحت حکومت کو مفلوج بنانے کی حکمت عملی تیار کر لی ہے ۔اس حکمت عملی میں تمام اپوزیشن جماعتیں ، سول سوسائٹیاں، لیبر ، وکلاء اور ڈاکٹرز کی تنظیمیں بھی شامل ہوں گی ‘ریلوے یونین بھی شامل کی جا رہی ہیں۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہئے کہ متفقہ نکات تک پہنچنے کے لئے ان کے پاس لامحدود وقت نہیں ہے، یہ کام دو ہفتے کی مقررہ مدت میں ہی مکمل ہو جانا چاہئے ۔ تعطل جاری رہا 
تو قومی سطح پر بے یقینی کی کیفیت بڑھے گی اور آئینی و جمہوری نظام کے لئے خطرات میں اضافہ ہو گا۔ نادان وزراء بیمار وزیر اعظم کو تاریک سرنگ کی طرف لے جا رہے ہیں۔ وزراء کا رویہ خود وزیر اعظم کے قوم سے خطاب کے منافی ہے جس میں انہوں نے پیش کش کی تھی کہ عدالتی کمیشن احتساب کا آغاز ان کے خاندان سے کرے ، اس بناء پر محض وزیر اعظم کے خاندان سے احتساب کے آغاز کے مطالبے کا ‘ڈیڈ لاک کاباعث ہونا قطعی بلا جواز نظر آتاہے۔ معقولیت کا تقاضا ہے کہ احتساب کا آغاز وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ ہی سے ہو، لیکن اس کے ساتھ ساتھ جسٹس (ر) جمشید کی قرض نادہندگان کے بارے میں رپورٹ کی روشنی میں احتساب ان مقتدر اور با اثر سیاستدانوں کا بھی ہونا چاہئے جنہوں نے 1975 ء سے 2013 ء تک کھربوں روپے کے قرض معاف کرائے تھے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ رپورٹ الیکشن کمیشن کو نہیں بھجوائی گئی تھی‘ بصورت دیگر 2013ء کے انتخابات میں امیدواروں کی خاصی بڑی تعداد نااہلی کی زد میں آ جاتی۔ پانامہ لیکس، کمیشن خوری اور کک بیکس جیسی کرپشن کی دوسری اقسام میں ملوث بعض اہم شخصیات کو بھی احتساب کے دائرے میں لانا ہو گا۔ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں کے خفیہ اکاؤنٹس میں مبینہ طور پر موجود دو ارب ڈالر کی لوٹی گئی قومی دولت بھی ملک میں واپس آنی چاہئے ۔ سندھ، پنجاب ، بلوچستان اور اسلام آباد میں سرکاری زمینوں پر ناجائیز قبضے اور ان کی کوڑیوںکے مول فروخت اور دوسرے جرائم میں ملوث نمایاں سیاسی اور غیر سیاسی افراد کو بھی عدالتی کمیشن کے رو برو پیش کرنا ہوگا۔ معلوم ہوا ہے کہ اب کوئی ایسا فارمولا بن رہا ہے جس کے تحت پانامہ لیکس سے فوائد حاصل کرنے والے، بیرون ممالک جائیداد رکھنے والے، ٹیکس بچانے ، قرضے لینے والے اور قرضے معاف کرانے والوں کو معافی مل جائے گی۔ وزیر اعظم کی حالیہ بیماری سے پیدا ہونے والی ہمدردی کی آڑ میں انہیں پاکستان کا غیر متنازع قومی لیڈر بنانے پر کام ہو رہا ہے، اس فارمولہ کی منظوری کے فوراً بعد وزیر اعظم نواز شریف انتخابات کا اعلان کر سکتے ہیں، لیکن قومی مفادات کے منافی اس فارمولے کے برعکس عسکری قیادت سپریم کورٹ کے عدالتی کمیشن سے ‘کرپشن اور پانامہ لیکس کے گروپس کے خاتمے کے لئے رہنمائی چاہتی ہے۔
بد قسمتی سے اس ملک میں سب سیاسی جماعتیں حکومت بچاؤ ، پارٹی بچاؤ اور اپنی قیادت بچاؤ پالیسی پر گامزن ہیں، حالانکہ ملک بڑے بحران سے گزر رہا ہے اس خطے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، امریکہ افغانستان سے جانے کو تیار نہیں ہے، ڈرون حملے میں ملا منصور کے جان بحق ہو جانے کے بعد امن مذاکرات کی کامیابی کے امکانات تقریباً معدوم ہو گئے ہیں، افغانستان میں طالبان بہت تیزی سے مضبوط ہو رہے ہیں، دوسری طرف روس، افغانستان اور بھارت مشترکہ طور پر ایران کی چاہ بہار بندر گاہ کو ترقی دینے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں ‘اس سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ رہا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کی مخالفت میں بہت زیادہ سرگرم ہیں۔ بھارت اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر یہ کوشش کر رہا ہے کہ یہ راہداری نہ بن سکے اور ساری تجارت چاہ بہار بندر گاہ سے ہو، اس صورت حال میں پاکستان کے لئے بڑے مسائل پیدا ہونگے۔ عرب ممالک بھی پاکستان سے دور اور بھارت کے قریب جا رہے ہیںآج کل ایک اور سکینڈل کا بڑا چرچا ہے ، وہ یہ ہے کہ انگور اڈا کی چیک پوسٹ ختم کر دی گئی ہے اور 500 مربع میل کا پاکستانی علاقہ افغانستان کو دے دیا گیا ہے ۔ یہ وہ راستہ تھا جہاں سے دہشت گرد وزیر ستان اور دوسرے قبائلی علاقوں میں تخریب کاری کے لئے افغانستان سے آتے تھے۔ اب انگور اڈا کی چیک پوسٹ اٹھانے کا سمجھوتہ اس لئے کیا گیا ہے کہ طور خم پر باڑ لگانے کی افغانستان اجازت دے دے گا اور افغانستان کے ساتھ ڈائریکٹ محاذ آرائی ختم ہو جائے گی۔ انگور اڈا کی پوزیشن کارگل اور ٹیٹوال جیسے مقامات کی طرح ہے۔1971 ء کی جنگ کے بعد بھٹومرحوم نے چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے بھارت کو شملہ معاہدہ کے تحت کارگل اور ٹیٹوال کا 556 مربع میل کا علاقہ دے دیا تھا۔جسے صدر ایوب خان نے تاشقند معاہدے کے نتیجہ میں سویت یونین کے وزیر اعظم کوسیگن کے توسط سے بھارت سے حاصل کیا تھا جسے بھارت نے 1965ء کی جنگ میں قبضہ میں لے لیا تھا ۔ اسی صدمے سے بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری رحلت کر گئے تھے ۔لال بہادر شاستری کو ان کی بیٹی نے فون پر بتا دیا تھا کہ پتا جی ! آپ کی تاشقند سے واپسی پر پارلیمنٹ میں آپ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آپ کی راہ تک رہی ہے۔ انگور اڈا بہت اہمیت کا حامل تھا ۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس کی حوالگی کے خلاف شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم کو بھی ریفرنس بھجوایا ہے اور لاہور ہائی کورٹ میں بھی اس کے حوالے سے رٹ دائر کر دی گئی ہے۔ 
وزیر اعظم نواز شریف کی اوپن ہارٹ سرجری کا سیدھا سا دا طبی کیس بعض میڈیا گروپس نے متنازع بنا دیا ہے۔ صدر مملکت اور سربراہ حکومت کے طبی نوعیت کے بارے میں متعلقہ ہسپتال کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی جانب سے صحت کے بارے میں ہر گھنٹہ بعد اعلامیہ جاری ہوتا ہے ۔ یہاں اس کے بر عکس ان کے اہل خانہ ہی ٹویٹ کے ذریعے قوم کو مطلع کرتے رہے ۔ لندن کے ہارلے سٹریٹ کے کلینک کی انتظامیہ کی طرف سے سرکاری طور پر وزیر اعظم کی صحت کے بارے میں ابھی تک اعلامیہ جاری نہیں ہوا جبکہ وزیر اعظم پانچ روز ہسپتال میں رہنے کے بعد اپنے لندن کے گھر میں شفٹ ہو گئے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے دوست نریندر مودی پاکستان کو حصار میں لینے کے لئے طوفانی دورے کر رہے ہیں مگر ہمارے وزیر اعظم کی کمزور پالیسی کی وجہ سے عرب ممالک پاکستان کے دائرہ اثر سے نکل چکے ہیں اور عسکری قیادت کو علاقائی صورت حال پر شدید تحفظات ہیں۔
وزیر اعظم کی عدم موجودگی سے ان کی پارٹی میں 1993ء کی طرز پر شدید اختلافات پیدا ہو رہے ہیں ۔ شنید ہے کہ حکمران جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے والی ہے ۔70 کے لگ بھگ قومی اسمبلی کے ارکان فاروڈ بلاک کی طرف جا رہے ہیں اور اس کی قیادت ایک ایسی طاقتور سیاسی شخصیت کرے گی جس کا دامن کرپشن کی آلودگی سے مکمل طور پر صاف و شفاف ہے۔ بہرکیف پاناما لیکس پر عملی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری رک جائے گی اور پاک چین اقتصادی راہداری کا عظیم منصوبہ بھی التواء کا شکار ہو جائے گا ۔ بین الا قوامی حکمت عملی کے تحت فیڈریشن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ وزیر اعظم اپنی علالت کے باعث اب حکومتی امور چلانے میں دقت محسوس کریں گے اور بگڑتی ہوئی صورت حال پر قابو میں رکھنے کی اب ان میں صلاحیت کم تر ہوتی نظر آرہی ہے۔ بد قسمتی دیکھئے کہ اب پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی لندن سے صوبائی حکومت پر تسلط رکھتے ہوئے وڈیو لنک سے حکومت چلا رہے ہیں۔ وزیر اعظم حکومتی اور ملکی امور کمپیوٹر سکینرکے ذریعے چلا رہے ہیں ۔ بھارتی وزیر اعظم ان حالات سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں