"KDC" (space) message & send to 7575

پاناما اور سانحہ ماڈل ٹاؤن حکومت کیلئے خطرہ

پاناما لیکس کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کی 12 رکنی مذاکراتی کمیٹی ٹرمز آف ریفرنسز پر متفق نہیں ہو سکی۔ اس ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کے لئے حکومت نے جو حکمت عملی اختیار کی اس میں تحمل، بردباری اور ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا گیا جس کے باعث ملک میں سیاسی بحران کے طوفانی بادل گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ اب معاملہ پارلیمنٹ سے نکل کر شاہراہوں پر آئے گا۔ پیپلز پارٹی بھی پنجاب میں قدم جما نے کے لئے فرینڈلی اپوزیشن کا رویہ ترک کر کے حکومت کے خلاف محاذ آرائی کا عندیہ دے چکی ہے۔ پاناما لیکس میں پانچ سو کے قریب پاکستانیوں پر آف شور کمپنیاں قائم کرنے کا الزام ہے۔ یہ سنگین مسئلہ ہے جسے ڈیڈ لاک کی نذر نہیں ہونا چاہیے، بلکہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مفاہمت کا راستہ نکالنا ضروری ہے کیونکہ جوڈیشل کمیشن کے لئے ٹرمز آف ریفرنسز اتفاق رائے سے نہ بنانا سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات سے انحراف ہوگا۔ اس صورت میں معاملہ سپریم کورٹ میں بھی لے جایا جا سکتا ہے اور نتیجتاً وفاقی حکومت توہین عدالت کی زد میںآ سکتی ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح اپنی تقاریر میں کرپشن کے تباہ کن اثرات کے بارے میں قوم کو خبردار کرتے رہے۔ کرپشن کے خلاف قوانین بھی قیام پاکستان کے وقت سیموجود ہیں۔ برطانوی دورکا پریونشن کرپشن ایکٹ یعنی انسداد بد عنوانی ایکٹ، 1949ء کا عوامی نمائندوں کا نا اہلی ایکٹ، اکتوبر 1958ء میں ایوب خان کا جاری کردہ عوامی نمائندوں کی نا اہلی کا آرڈیننس، 1997ء کا احتساب کمیشن،1999 ء کا نیب آرڈیننس اور اس سے پیشتر ستمبر 1990ء میں صدر غلام اسحاق خان کا محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف روئیداد 
خان کی سر براہی میںاحتساب کمیشن کرپشن کے خلاف بنائے گئے۔ ان سب قوانین میں قدر مشترک یہ ہے کہ ہر حکمران نے اس طرح کے قوانین کو کرپشن کے خاتمے کی بجائے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے ایبڈو آرڈیننس کے ذریعے خاصی بڑی تعداد میں سیاستدانوں کا نا اہل قرار دیا، یہاں تک کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کو بھی نہ بخشا جو بیروت میں اپنی وفات کے وقت مقروض تھے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ 1952ء سے 1977ء تک کسی بھی وزیر اعظم یا اس کے عزیزوں کے خلاف مالی کرپشن کا کوئی کیس نہیں بنا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں غیر جماعتی نظام رائج ہونے اور الیکشن کے بعد حکومت بنانے کے لئے خرید و فروخت کا کاروبار شروع ہوا۔ ملک کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلی مثال تھی کہ ترقیاتی کاموں کے لئے ارکان پارلیمنٹ کو پچاس پچاس لاکھ روپے کے فنڈز دیے گئے تاکہ ان کی خود ساختہ جماعت پاکستان مسلم لیگ میں وہ ارکان شامل ہو جائیں جو غیر جماعتی الیکشن کے نتیجہ میں منتخب ہوئے تھے۔ محمد خان جونیجو نے غیر جماعتی سسٹم کو جماعتی سسٹم میں تبدیل کیا اور راتوں رات غیر جماعتی ارکان اسمبلی پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہوگئے جو الیکشن کے قوانین کی صریحاً خلاف تھا۔ اس کھلم کھلا کرپشن کے خلاف مرحوم زیڈ اے سلہری نے آواز بلند کی تھی اور اسے کرپشن کا ناسور قرار دیا تھا۔ سپیکر قومی اسمبلی فخرامام نے ان ارکان اسمبلی مع وزیر اعظم جونیجوکی نااہلی کا ریفرنس چیف الیکشن کمشنر ایس کے نصرت کو بھجوا دیا۔ چیف الیکشن کمشنر نے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت وزیر اعظم سمیت ان تمام ارکان اسمبلی کو نا اہل کر نے کے لئے نوٹس بھجوا دیے لیکن اسی رات محمد خان جونیجو نے صدرضیاء الحق کے گھٹنے چھوئے اور صدر نے رات کے دو بجے آرڈیننس جاری کر کے ان کو محفوظ راستہ دے دیا۔ اس طرح الیکشن کمیشن کے نوٹس غیر موثر ہو گئے، سپیکر قومی اسمبلی سید فخر امام کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی گئی جو منظور ہوئی اور ان کی جگہ حامد ناصر چٹھہ سپیکر منتخب ہوگئے۔ 
نواز شریف اور پرویز مشرف نے قومی احتساب کے جو ادارے بنائے ان کو اپنے اقتدار کے لئے استعمال کیا۔ اب پاناما پیپرز میں 
انکشاف ہوا ہے کہ ہمارے بیشتر سیاستدان بشمول حکمران خاندان آف شورکمپنیوں کی مالک ہیں۔ ان کمپنیوں کا فائدہ ٹیکس بچانا اور دولت کو پوشیدہ رکھنا ہے۔ اگرچہ آف شورکمپنیاں بنانا بہت سے ملکوں کے قوانین کے تحت غیر قانونی نہیں مگر یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ ان میں ڈالر یا پاؤنڈ کہاں سے آئے؟ اگر یہ ملک سے گئے تو قانونی طور پر گئے یا غیر قانونی طور پر، اورکس چینل کے ذریعے کرنسی ملک سے باہر بھیجی گئی؟ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری آئندہ چند دنوں میں وزیر اعظم نوازشریف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت غیر ملکی اثاثہ جات کو پوشیدہ رکھنے کے ضمن میں اور عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 82, 42-A اور 94 کے تحت قانونی کارروائی کرنے کے لئے ایک آئینی ریفرنس الیکشن کمیشن آف پاکستان میں دائر کر رہے ہیں۔ چونکہ الیکشن کمیشن ان دنوں ارکان کی عدم موجودگی کی وجہ سے غیر فعال ہے، اس لئے افتخار محمد چوہدری آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی وزیر اعظم کی نااہلی کے لئے ریفرنس دائر کر رہے ہیں۔ اگر سپریم کورٹ وزیر اعظم کوغیر فعال کر دیتی ہے تو ایوان میں نئے قائدکے انتخاب کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ قومی اسمبلی کے سوکے لگ بھگ حکومتی ارکان اہم معاملات سے پہلے ہی لا تعلق ہو چکے ہیں، سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر ہونے سے ان کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہونے کے امکانات ہیں۔ اس دوران پارلیمنٹ سے باہر ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان علیحدہ علیحدہ بھر پور طریقے سے اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔
2013ء کا الیکشن جس کی پشت پر عدلیہ کے انتظامی افسران کھڑے تھے کے نتیجے میں میاں نواز شریف برسر اقتدار آئے۔ ان کی حکومت نے ملک کو اندرونی اور بیرونی 
خطرات سے دو چار کر دیا اور ملک عدم استحکام کا شکار ہے۔ ٹرمز آف ریفرنسز کمیٹی کی کارروائی وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کی مفاہمت پالیسی سے آگے بڑھانے کی کوشش ہو رہی ہے اور اطلاع کے مطابق چوہدری اعتزاز احسن، بلاول زرداری اور خورشید شاہ اس گیم کا حصہ ہیں۔ عمران خان پارلیمانی کمیٹی سے مایوس ہوکر فیصلہ عوام کی طاقت سے حل کرانا چاہتے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی اور حکومت اس کو آگے لے جانا چاہتی ہے۔ اندازہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں علامتی طور پر احتجاج یا لانگ مارچ میں شرکت کریں گی لیکن بالآخر عمران خان بہت بڑی تحریک چلانے کے لئے میدان میں اکیلے رہ جائیں گے۔
حکومت سانحہ ماڈل ٹاؤن کی وجہ سے خوف زدہ ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی منظم حکمت عملی کے باعث میاں نواز شریف کو اپنا مستقبل بھٹو جیسا نظر آرہا ہے اس لئے وہ بین الاقوامی شخصیات کو بطور ضمانتی لانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ان کے اربوں ڈالرزکو محفوظ راستہ مل جائے اور اقتدار چھوڑنے کے بعد ان کی باز پرسی نہ کی جائے۔ مبینہ طور پر ان کے گھرانے میں اختلافات ابھر آئے ہیں۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر جنرل راحیل شریف کی مداخلت پر درج کرائی گئی تھی۔ اب اس پر عمل درآمد کرانے کے لئے ان پر قومی ذمہ داری آن پڑی ہے۔ اگر احتجاجی تحریک شدت اختیارکرگئی، قصاص کا مطالبہ آگے بڑھا اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقدمات میں بااثر شخصیات گرفتار ہوئیں تو حکمران جماعت کی کئی شخصیات کے علاوہ بیورو کریٹس بھی مسعود محمود کی طرح وعدہ معاف گواہ بن جائیں گے۔ ان حالات میں ایسے لگتا ہے کہ ملک کے عوام انقلاب کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ حکومت کے نادان وزراء نواز شریف کو افواج پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ پاناما لیکس کے حوالے سے نواز شریف اور ان کے صاحبزادگان کے ہاتھ صاف نہیں ہیں۔ پارٹی اور حکومت پر نواز شریف کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے۔ ادھر ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی تقریر میں باقاعدہ جنرل راحیل شریف سے انصاف مانگا ہے۔ اب انصاف صرف اسی صورت میں مل سکتا ہے کہ اس کا تعلق افواج پاکستان سے ہو۔ جنرل راحیل شریف بھی چاہتے ہوں گے کہ پاکستان میں ہر مظلوم کی داد رسی ہو۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں