"KDC" (space) message & send to 7575

وزیر اعظم کے خلاف الیکشن کمیشن میں ریفرن

وزیر اعظم پوری قوم کا امین ہوتا ہے، اگر وہ امانتدار نہ رہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔ اسی تناظر میں ان کے اور ان کے اہل خانہ کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ہاں دائر کر دیے گئے ہیں۔ ان میں جو چارج شیٹ لگائی گئی ہے اس کا آئین، قانون اور زمینی حقائق کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو بادی النظر میں وزیر اعظم نے امانت میں خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں، اس لئے ان کے خلاف کریمنل بد عنوانی کے تحت عوامی نمائندگی ایکٹ76 کی دفعہ 82, 42-A اور 94 کے تحت کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ واضح رہے کہ عوامی نمائندگی ایکٹ76 کی دفعہ 42-A سابق صدر سردار فاروق لغاری نے نومبر 1996ء میں ایک آرڈیننس کے ذریعے نافذ کی تھی، جس کی رُو سے ارکان اسمبلی کو اپنے بزنس، اثاثہ جات، زیرکفالت بچوں اور شریک حیات کے بارے میں مکمل کوائف چیف الیکشن کمشنرکے ہاں جمع کرانا لازم ہے۔مذکورہ دفعہ 42-A کی شق 4 میں واضح طور پر قانونی پوزیشن کی وضاحت کی گئی ہے کہ اگر ارکان پارلیمنٹ کے اثاثہ جات سے متعلق گوشوارے جھوٹے ثابت ہو جائیں تو ان کے خلاف حقائق چھپانے کے جرم میں اسی ایکٹ کی دفعہ 82 کے تحت بد عنوانی کا مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ آگے چل کر اسی ایکٹ کی دفعہ 94 اور ذیلی شق 5 کے تحت کریمنل کارروائی کے لئے فوجداری مقدمہ 1898ء کے تحت ممکن ہے جو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں دائر کرایا جا سکتا ہے۔ اب چونکہ الیکشن کمیشن کے ارکان کا تقرر معرض التوا میں ہے، اس لئے چیف الیکشن کمشنر عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 104کے تحت کارروائی جاری کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ ماضی میں بھی ایک اہم کیس کے بارے میں سابق چیف الیکشن کمشنر نے اسی دفعہ کے تحت اپنے اختیارات استعمال کیے تھے۔
وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے اہم افراد کے خلاف تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی نے جو ریفرنسز دائر کیے ہیں یہ بظاہر ٹھوس ثبوتوں اور وزنی دلائل پر مبنی ہیں۔ میری دانست میں چیف الیکشن کمشنر عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 42-A کی شق 4 کے تحت ان پر کارروائی کرنے کے مجاز ہیں کیونکہ قانون کی رُو سے اثاثہ جات کے سالانہ گوشوارے چیف الیکشن کمشنرکے ہاں ہی داخل کرائے جاتے ہیں، لہٰذا جس اتھارٹی کے رُو برُو یہ دستاویزات جمع کرائی جاتی ہیں، تو وہ ان کی جانچ پڑتال اور حقائق جاننے کے لئے کارروائی کرنے کے بھی قانونی طور پر مجاز ہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی وزیر اعظم کے خلاف ٹھوس بنیادوں پر مبنی ریفرنسز الیکشن کمیشن میں دائر کرنے کے لئے پر تول رہے ہیں جن سے وزیر اعظم سخت دباؤ میں آجائیںگے۔ الیکشن کمیشن اپنی معاونت کے لئے اٹارنی جنرل کی خدمات حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ وزیر اعظم کے خلاف ریفرنسز میں ان کی خدمات حاصل کرنے سے الیکشن کمیشن متنازع ہو جائے گا۔ بائیسویں ترمیم کی روشنی میں ارکان الیکشن کمیشن غالباً عدلیہ کے ریٹائرڈ جج نہیں ہوںگے بلکہ ان کا تعلق ریٹائرڈ بیوروکریٹس یا تکنیکی ماہرین سے ہوگا۔ میری دانست میں ریٹائرڈ بیوروکریٹس انتظامی امور پر تو مکمل دسترس رکھتے ہیں لیکن ان کو آئینی اور قانونی پیچیدگیوں کا کما حقہ ادراک نہیں ہوتا، لہٰذا ریفرنس کے بارے میں بنیادی ذمہ داری چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا خان پر عائد ہو گئی ہے، وہی ان اہم کیسزکو آگے لے کر چلیں گے۔ اس صورت میں کارروائی کے دوران الیکشن کمیشن کی لیگل برانچ چیف الیکشن کمشنر کی معاونت کرے گی، البتہ الیکشن کمیشن اپنی معاونت کے لئے آئینی ماہرین کی خدمات بھی حاصل کر سکتا ہے۔
میری دانست میں الیکشن کمیشن اپنی سمری انکوائری کے بعد وزیر اعظم کے خلاف ریفرنسز عوامی نمائندگی ایکٹ76 کی دفعہ 94 کی شق 5کے تحت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد کو بھجوانے کی پوزیشن میں ہے۔ آئینی اور قانونی طور پر الیکشن کمیشن یہ ریفرنسز ایف آئی اے اور احتساب بیورو کو بھی بھجوانے کے اختیارات رکھتا ہے۔ 2006ء میں قومی احتساب بیوروکے چیئرمین جنرل منیر حفیظ نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تھا کہ وہ ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوںکی جانچ پڑتال کرانے کی ذمہ داری قومی احتساب بیوروکو سپرد کرنے کے لئے قانون سازی کرائے۔ میں نے بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن قومی احتساب بیوروکی تجاویز و سفارشات الیکشن کمیشن سے منظوری کے بعد وزارت پارلیمانی امورکو بھجوا دی تھیں، لیکن حکومت نے ان تجاویزکو نظر انداز کر دیا۔ اس کے بعد بھی الیکشن کمیشن اختیارات کے حصول کے لئے گاہے گاہے حکومت کو سفارشات بھجواتا رہا، لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ نیب کے سابق چیئرمین ایڈمرل فصیح بخاری نے بھی اس ضمن میںکوشش کی تھی لیکن جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے ان کی تجویز پر غور و فکر نہیںکیا۔ لہٰذا الیکشن کمیشن قانونی طور پر ارکان پارلیمنٹ کے گوشواروںکی جانچ پڑتال اور انکوائری کرنے کا مجاز نہیں ہے، اس مقصد کے لئے اسے عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 94 کا سہارا لینا ہوگا۔ قومی احتساب بیوروکے سابق چیئرمین ایڈمرل فصیح بخاری نے الیکشن 2013ء کی شفافیت کے لئے مفید تجاویز بھجوائی تھیں جن کو الیکشن کمیشن نے نظر اندازکر دیا تھا۔
موجودہ صورت حال دھماکہ خیز ہے۔ وزیر اعظم کی طرف سے پہلوتہی، گریز اور معاملات کو ابہام میں رکھنے کی پالیسی ان کے لئے مشکلات کا سبب بنے گی، اس لئے ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ فوری طور پر اپنا نام آف شورکمپنیوں سے کلیئر کرائیں، ورنہ فیصلے کرنے کی طاقت ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ یہ معاملہ آئین کے مطابق حل کیا جا سکتا ہے۔ اس کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ وزیر اعظم میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہوکر وزارت عظمیٰ کے عہدے سے مستعفی ہوکر ملک کو سیاسی، عدالتی، آئینی اور مالیاتی بحران سے محفوظ کر دیں۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پاناما گیٹ کو لامتناہی طور پر التوا میں ڈال کر وقت نکال لیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہوگی۔ وزیر اعظم یقیناً شدید الجھن کا شکار ہیں، اگر ان کے پاس مے فیئر فلیٹس اور انہیں خریدنے کے لئے فراہم کی گئی رقم کا کوئی قانونی راستہ ہوتا تو وہ اس کا اظہار قومی اسمبلی کے فلور پر کرکے اپوزیشن کو شرمندہ کر سکتے تھے۔ اس معاملے پر خاموشی ہی وزیر اعظم کے خلاف سب سے بڑی فرد جرم ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان پر دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم کی عدم موجودگی کی وجہ سے وفاق اور پنجاب میں حکومت کی فعالیت بھی مفلوج ہے۔ ظاہر ہے ملک زیادہ دیر اس صورت حال کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
ماضی میں وزیر اعظم نواز شریف سعودی عرب اور دوسرے ممالک کی معاونت سے کئی بار صاف بچ کر نکلتے رہے۔ اصغر خان کیس یعنی آئی ایس آئی سے 1990ء کے انتخابات میں رقم لینا اور ماڈل ٹاؤن میں چودہ افرادکو قتل 80 سے زائد کو زخمی کرانا معمولی نہیں تھے، تاہم شریف برادران وقتی طور پر ان سے بچ نکلے، لیکن اب یہی کیسز ان کے لئے پاناما کیس سے زیادہ سنگین ثابت ہوںگے۔ 
پاکستانی قوم کا اب نواز شریف پر عدم اعتماد کا اظہار ہو رہا ہے۔ ان حالات میں حکمران جماعت ان کی لندن سے واپسی پر دس لاکھ افراد کو اکٹھا کر کے استقبال کرنے کا عندیہ دے رہی ہے، لیکن بظاہر یہ ممکن نہیں ہوگا۔ اس کے برعکس پاکستانی عوام ان سے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے استعفیٰ کی مثال پر عمل کرنے کی توقع کر رہے ہیں۔ 
علاوہ ازیں حکومت نے پہلے ہی بد نیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے22 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کے لئے 45 دن کا وقت مقرر کیا، اتنی طویل مدت تک الیکشن کمیشن کا غیر فعال رہنا آئین سے سنگین انحراف ہے۔ غیر جمہوری ادوار میں الیکشن کمیشن کے ارکان کی سبکدوشی سے پہلے ہی ان کے متبادل ارکان کا تقرر کر لیا جاتا تھا۔ آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت نگران حکومت کا قیام تین دن کے اندرکرنا لازمی ہے تو الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کے لئے 45 دن کا وقت رکھنا کسی طور مناسب نہیں کیونکہ اس کے غیر فعال ہونے پر ملک میں ضمنی الیکشن ہو سکتے ہیں نہ اپیلوں کی سماعت ہو سکتی ہے۔ مناسب ہوگا کہ چیف الیکشن کمشنر عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 42-A کی ذیلی شق 4 کے ابہام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیر اعظم کے خلاف ریفرنسز ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو بھجوا دیں یا متبادل کے طور پر آئین کے آرٹیکل 221 کے تحت ایف بی آر اور نیب کو بھی بھجوائے جا سکتے ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے یاد دلاتا چلوں کہ انتخابی اصلاحات کمیٹی کے رو برو چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا خان نے ہائی کورٹس کے سینئر ترین ججز کو الیکشن کمیشن کے ارکان مقرر کرنے کی تجویز پیش کی تھی جسے انتخابی اصلاحات کمیٹی کے ارکان نے مسترد کر دیا تھا۔ اس طرح آئندہ انتخابات میں بے قاعدگیوں کی بنیاد رکھ دی گئی۔ ریٹائرڈ بیوروکریٹس انتخابات کی مشینری کو غیر جانبدارانہ طور پر کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، انتخابی اصلاحات کمیٹی کے ارکان یہ مجرمانہ غفلت کرنے پر قوم کے سامنے جواب دہ ہوںگے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں