"KDC" (space) message & send to 7575

وزیر اعظم نواز شریف اور عسکری قیادت

پاکستان کے معزول چیف جسٹس اور 60 دوسرے ججوں کو اس وقت کے صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی یا جنرل کیانی نے نہیں بلکہ سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے اصرار پر بحال کیا گیا تھا۔ امریکہ کو آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کی امریکہ نواز پالیسی پسند تھی مگر جب میاں محمد نواز شریف لاہور سے چند ہزار افراد کا ایک جلوس لے کر اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے اور وزیر داخلہ رحمن ملک نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں ایمرجنسی کی سی کیفیت پیدا کر دی اور دونوں شہروں کو سیل کروا دیا تو امریکہ نے محسوس کیا کہ نواز شریف کا احتجاجی جلوس ایوان صدر پر قابض ہو جائے گا۔ اسی گھبراہٹ میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے صدر زرداری کو اور امریکی وزارت دفاع نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل کیانی کو مشورہ دیا کہ کسی ناگہانی صورت حال سے بچنے اور حکومت کو بچانے کے لئے فوری طور پر معزول ججوں کو بحال کر دیا جائے۔ چنانچہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بحال ہوگئے جبکہ اپوزیشن لیڈر نواز شریف اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی بحالی کی آڑ میں در اصل پنجاب حکومت کو بحال کروانا چاہتے تھے جسے گورنر سلمان تاثیر نے صدر زرداری کے نادان دوستوں کی ایما پر بر طرف کر دیا تھا۔
کسی بھی حکومت یا نظام کو جانچنے کا ایک ہی ٹیسٹ ہوتا ہے۔۔۔۔عام آدمی کے معیار زندگی میں بہتری آ رہی ہے یا نہیں۔ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو سمجھ لیجیے وہ حکومت اور نظام ناکام ہے۔ ہمارے ملک کو انتہائی غربت، پسماندگی اور بے روزگاری کا سامنا ہے، عوام کی اکثریت کم غذائیت کا شکار اور صحت وتعلیم کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ ان مسائل سے چھٹکارے کے لئے ہمیں ایسا جدید اور اعلیٰ صنعتی ملک تعمیر کرنا ہوگا جس میں عام شہری کو بھی شائستہ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہو۔ افسوس، نواز حکومت نے اس سمت میںکوئی قدم نہیں اٹھایا، صرف دعوے کیے، نعرے لگائے اور اخبارات میں اربوں روپے کی خلاف واقعہ تشہیری مہم چلائی۔ در پردہ عسکری قوتوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ان تمام حربوں کے باوجود بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ نواز حکومت ایک مکمل ناکام حکومت ہے۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ماہرانہ قانونی رائے کے مطابق وزیر اعظم اپنے اختیارات کسی اورکو تفویض نہیںکر سکتے اس لئے انہیں چاہیے کہ وہ قومی اسمبلی کے کسی دوسرے رکن کو وقتی طور پر وزیر اعظم بنوا دیں اس لئے کہ کاروبار مملکت چلانے کے لئے ہمہ وقت وزیر اعظم کا ہونا لازمی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 90(2) میں لکھا ہے کہ وزیر اعظم اپنی ذمہ داریوں کو براہ راست یا کابینہ کے وزراء کے ذریعے انجام دے سکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں سینیٹر اسحاق ڈار کابینہ کے اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں اور وزیر اعظم کی کرسی پر بھی براجمان ہو جاتے ہیں۔ یہاں ایک باریک نکتہ اٹھایا جا رہا ہے کہ اسحاق ڈار رکن قومی اسمبلی نہیں ہیں بلکہ سینیٹ کے ممبر ہیں؛ تاہم آئین کا آرٹیکل 90(2) اس بارے میں خاموش ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس میں اب پس پردہ مریم نواز صاحبہ ہی وزیر اعظم کی جانشین کے طور کام کر رہی ہیں۔ انڈیا کے آئین میں ایوان بالا کے رکن کو وزیر اعظم منتخب کرایا جا سکتا ہے۔ من موہن سنگھ بھارت کے تقریباً دس سال وزیر اعظم رہے جو ایوان بالا کے رکن تھے۔ لیکن ہمارے ہاں صورت حال واضح نہیں ہے، وزیر اعظم بادی النظر میں آئین کے آرٹیکل 65 اور 90 کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور انہوں نے جو حلف اٹھایا تھا کاروبار حکومت اس کی روح کے خلاف چلایا جا رہا ہے۔ لگتا ہے کہ وزیر اعظم کو ملک کی سیاسی صورت حال کے حقیقی پس منظر سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا۔ اگر انہیں بجٹ سیشن کے دوران وزیر خزانہ اسحاق ڈارکی عدم مقبولیت کے بارے میں آگاہ کیا جاتا تو وہ متبادل انتظام کے حوالے سے کوئی عملی قدم اٹھاتے۔ بجٹ سیشن کے دوران حکومتی ارکان کی عدم دلچسپی کی بنا پر بار بار کورم ٹوٹتا رہا، حکومتی ارکان خاموش احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے باہر نکل جاتے رہے جن کی تعداد 70 سے 80 تک بتائی جاتی ہے۔ اسحاق ڈار نے پارلیمنٹ ہاؤس میں ارکان اسمبلی کو افطار ڈنر پر مدعو کیا تو احتجاجی ارکان کی اکثریت نے اس کا بائیکاٹ کیا۔ 188سرکاری ارکان اسمبلی میں سے صرف 63 نے اس ڈنر میں شرکت کی۔ حکومتی صفوں میں گروپ بن چکے ہیں، ایک گروپ میں چوہدری نثار، شہبازشریف اورکچھ پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں جبکہ دوسرے گروپ میں خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق اسحاق ڈارکے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اگر وزیر اعظم کی جانب سے اسحاق ڈارکوسرکاری اہمیت دینے پر مبنی نوٹی فیکیشن جاری کیا گیا تو چوہدری نثار وزارت سے مستعفی ہو جائیں گے کیونکہ وہ میاں نواز شریف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ طویل رفاقت کی بنا پر وزیر اعظم کے بعد سب سے زیادہ اہمیت ملنا اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیںکہ چوہدری نثار حکمران جماعت کا اثاثہ ہیں، اس لئے وزیر اعظم انہیں نظر انداز نہیں کر سکتے۔ حکومتی افراتفری، بے عملی اور ارکان اسمبلی کی پارلیمانی بغاوت کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ شاید وزیر اعظم کو پوری صورت حال سے بے خبر رکھا جا رہا ہے۔ 1968ء میں سابق صدر ایوب خان کو بھی ان کے پرسنل سیکرٹری این اے فاروقی نے روزنامہ نوائے وقت اور چٹان کے اداریوں اور تجزیوں سے بے خبر رکھاتھا، ان تک صرف پرائیویٹ سیکرٹری محمد خالد بشیر اورصاحبزادے اختر ایوب خان کے ذریعے اخبارات پہنچائے جاتے تھے۔ اس وقت نواز شریف بھی بظاہر ایسی ہی صورت حال سے گزر رہے ہیں، انہیں چند خاندانی شخصیات نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔
حکومت اور مقتدر حلقوں کے مابین تناؤ اب کوئی راز نہیں رہا۔ پاناما لیکس کے حوالے سے حکومتی ارکان نے جو رویہ اختیار کر رکھا ہے وہ وزیر اعظم کے لئے بے حد نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اگست کے مہینے میں پاناما لیکس کے حوالے سے ملک گیر احتجاج کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ لاہور میں وزیر اعظم نواز شریف کی آمد پر سرکاری وسائل خرچ کرکے عوام کا ہجوم اکٹھا کیا گیا تواس کے منفی اثرات مرتب ہوںگے کیونکہ وزیر اعظم نواز شریف در اصل عسکری قیادت کو اپنی سیاسی قوت دکھانا چاہتے ہیں، اس سے ان کا مستقبل مزید مخدوش ہو جائے گا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر ان کے لئے سنگین نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
دارالعلوم حقانیہ نے مولانا سمیع الحق کی ڈائری کوکتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ یہ ڈائری مولانا عرفان الحق حقانی نے مرتب کی ہے جس میں ان شخصیات کا ذکر کیا گیا ہے جنہوں نے دارالعلوم حقانیہ کا دورہ کیا اور چندہ بھی دیتے رہے۔ عزیزم حامد میر نے انکشاف کیا ہے کہ ڈائری میں پرویز رشید پر کچھ الزامات لگائے گئے ہیں جن کا تعلق مارچ 1977ء سے ہے جب وہ صوبائی وزیر اعلیٰ نصراللہ خٹک کی انتخابی مہم کے انچارج تھے۔ حامد میر نے پرویز رشید کا ایک سطری ذکر کرکے مزید حقائق پر سے پردہ نہیں اٹھایا۔ اصل حقائق کچھ یوں ہیں: فروری 1977ء میں مولانا عبدالحق مرحوم، نصراللہ خٹک کے مد مقابل انتخاب میں حصہ لے رہے تھے جبکہ خٹک (مرحوم) وزیر اعظم بھٹوکے نقش قدم پر چلتے ہوئے بلا مقابلہ کامیاب ہونا چاہتے تھے، لہذا انہوں نے مولانا عبدالحق مرحوم سے ان کے حق میں دستبرداری کی دستاویزات پر جعل سازی اور دھوکہ دہی سے دستخط کروا کے ریٹرننگ آفیسر سے بلا مقابلہ کامیابی کا اعلامیہ جاری کروا دیا۔ جب مولانا عبدالحق مرحوم کو اصل حقائق کا علم ہوا تو انہوں نے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سجاد احمد جان کے ہاں پیٹیشن داخل کردی کہ وزیر اعلیٰ سرحد نے جعل سازی سے اپنے حق میں دستبرداری کے کاغذات پر دستخط کروا لئے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔ جب مولانا عبدالحق کیس کی سماعت کے لئے اسلام آباد آ رہے تھے تو ان کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں، راستے سے اغوا کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن چیف الیکشن کمشنر نے ان کے لئے حفاظتی گارڈ مہیا کر یے اور مولانا نے نصر اللہ خان خٹک اور ان کی انتخابی مہم کے انچارج کے خلاف دھوکہ دہی اور جعل سازی پر مبنی بیان ریکارڈ کروا دیا۔ چیف الیکشن کمشنر نے مولانا عبدالحق کے حق میں فیصلہ دے دیا۔
پاناما لیکس کے حوالے سے اسلام آباد کے حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف جنرل راحیل شریف کے جانشین کی تقرری کا فیصلہ لندن میںکرنا چاہتے ہیں۔ انہیں ایسا کوئی قدم اٹھانے کے بجائے یہ احساس ہونا چاہیے کہ ان کی غیر حاضری میں سیاسی طوفان نہ صرف اسلام آباد کے اندر سے اٹھ رہا ہے بلکہ ایک طوفان لاہور سے اسلام آباد کی طرف بڑھتا ہوا بھی دکھائی دے رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں