"KDC" (space) message & send to 7575

اعلیٰ تعلیم کی لیکس

آج کل پاناما لیکس کا نام زبان زد عام ہے۔ ہر شخص اس کی تفصیلات سے بخوبی آگاہ ہے مگر کئی دنوں سے بین الاقوامی اداروں کی طرف سے پاکستان میں ہائر ایجو کیشن کی جو رینکنگ سامنے آرہی ہے وہ اس ادارے کی قیادت کی کار کردگی پر پاناما لیکس کی طرح کا سوالیہ نشان ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے جاری ہونے والی رینکنگ کو میں نے پاناما لیکس کیوںکہا ہے؟ یہ بات سمجھانے کے لئے ضروری ہے کہ میں آپ کے سامنے وہ رینکنگ رکھوں جس نے ہائر ایجوکیشن کمیشن اور دوسرے متعلقہ اداروںکی ناقص کارکردگی واضح کردی ہے۔ آئیے اس کا آغاز برطانیہ کے معروف ادارےQS کی جانب سے جاری کردہ رینکنگ سے کرتے ہیں جس کے مطابق پاکستان نے 100میں سے 9.2 نمبر لے کر فیل ہونے والوں میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارت نے60 حاصل کئے ہیں۔ مجموعی طور پر 140ممالک کی فہرست میں پاکستان 124ویں نمبر پر ہے۔ ہائر ایجوکیشن ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ایک بھی یونیورسٹی دنیاکی 500 بہترین جامعات میں شامل نہیں ہے۔ ان مایوس کن صورت حال کو دیکھتے ہوئے سول سوسائٹی، این جی اوز، اساتذہ اور طلبہ کی تنظیموںاور کئی دوسرے متعلقہ اداروں کے اشتراک سے اسلام آباد، لاہور اور پشاور میں گول میزکانفرنسزکااہتما م کیا گیا جن میں تمام معاملات کو زیر بحث لایا گیا۔ پہلی گول میز کانفرنس پاکستان سوشل سروسز پارٹنرشپ اور 50 سے زیادہ مسلم ممالک میں فلاحی سرگرمیاں انجام دینے والے ادارے مسلم ہینڈزکے اشتراک سے اسلام آباد میں منعقد ہوئی جس میں سول سوسائٹی، ماہرین تعلیم، وکلا، طلبہ اور دوسرے سٹیک ہولڈرز مدعوکئے گئے۔ میںکانفرنس ہال میں داخل ہوا تو میرا استقبال نوجوان طالب علم راہنما سید وقار علی نے کیا۔ اس وقت کانفرنس عروج پر تھی اور قائد اعظم یونیورسٹی کی اکیڈ مک سٹاف ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر محمد آصف لب کشائی کر رہے تھے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر طارق محمود جہانگیری، سابق صدر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ و معروف اینکر پرسن محمد افضل بٹ، ماہر قانون پیر فدا حسین ہاشمی، آسا بین الاقوامی اسلامی نیورسٹی کے صدر ڈاکٹر محمد ظفر اقبال، ایگزیکٹو ڈائرکٹر سنٹر فار گورننس رانا گلبازعلی خان کے علاوہ کئی معروف شخصیات سٹیج پر تشریف فرما تھیں۔
کانفرنس میں اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ اس ترمیم کو منظور ہوئے چھ سال ہو چکے ہیں لیکن تا حال سماجی شعبہ بالخصوص اعلیٰ تعلیم میں آئین پر عمل درآمد نہیں کروایا جا سکا جس کے باعث اس اہم ترمیم کے ثمرات عوام کو منتقل نہیں ہو سکے۔ 20 اپریل2010ء کو اٹھارہویں آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ کی متفقہ منظوری کے بعد پاکستان کے گزٹ کاحصہ بنادیاگیا تھا جس کے تحت 280 آرٹیکلز میں سے 102میں ضروری ترامیم کی گئیں اور اس کی روشنی میں 48 وفاقی قوانین بشمول ایچ ای سی ایکٹ 2002ء میں ترامیم کی جانی تھیں لیکن تاحال یہ اہم کام نہیں کیا گیا۔ نتیجتاً وفاقی مقننہ کی لسٹ2 کے تحت نئے ادارے کمیشن فار سٹینڈرڈز ان ہائر ایجوکیشن کا قیام عمل میں نہیں لایا جا سکا۔ ہیو من رائٹس کمیشن آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ کے مطابق آئین پاکستان کے آرٹیکل 25-a کے تحت سکول کی تعلیم کو بنیادی حق کے طور پر مانا گیا تھا لیکن ابھی تک وفاق اور صوبائی حکومتیں رولز آف بزنس میں ضروری ترامیم نہیںکر سکیں۔ طارق جہانگیری نے اٹھارہویں آئنی ترمیم پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اختیارات کی متفرق لسٹ کے خاتمے کے بعد تعلیم اور صحت صوبائی شعبہ جات بن چکے ہیں۔ سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں نے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے صوبائی کابینہ اور صوبائی اسمبلیوںکی منظوری کے بعد قانون سازی کے ذریعے صوبائی ہائر ایجو کیشن کمیشن قائم کر دیے ہیں۔ پنجاب حکومت کی جانب سے پنجاب ایچ ای سی کے مختلف منصوبوں کے لئے خطیر رقم بھی مختص کر دی گئی ہے۔ سندھ حکومت نے ایک سال قبل مشترکہ مفادات کو نسل میں صوبائی حکومتوں کو ایچ ای سی کے اختیارات کی منتقلی کے متعلق معاملہ اٹھایا تھا۔ سندھ حکومت کا موقف یہ ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم کے تمام شعبے بشمول جامعات کی انتظامی اور قانون سازی کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں ہے اور چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی سربراہی میں اٹھارہویں ترمیم کے عملدرآمد کمیشن نے بھی فیصلہ صادرکیا تھا کہ وفاقی ایچ ای سی کا2002 ء کا آرڈیننس آئین کی بنیادی شقوں سے متصادم اور صوبائی خود مختاری کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم پر عملدرآمد کے باعث اعلیٰ تعلیم کا شعبہ کئی مسائل کا شکار ہے۔ مختلف جامعات کی اکیڈمک ایسوسی ایشنز کے صدور اور سیکرٹر یز نے کہا کہ جامعات اپنے اپنے ایکٹ کے مطابق خود مختار ادارے ہیں، ان کے اندرونی معاملات میںکسی قسم کی مداخلت برداشت نہیںکی جائے گی۔ صوبائی جامعات کا قیام اور وائس چانسلرز کا تقرر صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے، لہٰذا مالیاتی ذمہ داری بھی صوبائی حکومتوں کے پاس ہونی چاہیے جبکہ وفاقی حکومت فیڈرل لسٹ 2 کے مطابق اپناکردار اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں معیار قائم کرنے تک محدود رکھے۔ گول میزکانفرنس کے اختتام پر شرکا کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ طلبہ یونینز کی بحالی اور تعلیمی اداروں میں ان کے انتخابات کو یقینی بنایا جائے، اعلیٰ تعلیمی شعبہ میں اٹھارہویں آئینی ترمیم پر فوری طور پر عملدرآمد کرتے ہوئے نئے کمیشن برائے سٹینڈرڈز ان ہائر ایجوکیشن کا قیام صوبوںکی مشاورت سے عمل میں لایا جائے، جامعات کی خود مختاری کا تحفظ یقینی بناتے ہوئے اعلیٰ تعلیمی شعبہ میں کوئی بھی پالیسی تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورتکے بغیر طے نہ کی جائے، انفرادی فیصلوں کے بجائے وائس چانسلر اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن اور طلبہ برادری کو اعتماد میں لے کر مشاورت سے پالیسیاں مرتب کی جائیں اور اٹھارہویں آئینی ترمیم پر جلد از جلد عملدرآمدکو یقینی بنایا جائے۔
گزشتہ دنوں وفاقی ایچ ای سی کی جانب سے کروڑوں روپے خرچ کرکے لاہور کے مہنگے ہوٹل میں وائس چا نسلرزکے اجلاس کا انعقاد اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے عدم شرکت بھی موجودہ چیئر مین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ وزیر اعظم کو بطورکنٹرولنگ اتھارٹی ایچ ای سی کے معاملات کی طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار کی کارکردگی افسوسناک حد تک ناقص ہے۔ وزیر اعلیٰ نے وائس چانسلرزکانفرنس میں شرکت نہ کرکے قومی امنگوں کی ترجمانی کی۔ یہ تاثر عام ہے کہ پرائیویٹ یونیورسٹیاں بہت پیسہ کما رہی ہیں۔ اس طرح کے منفی تاثرات کے ازالے کے لئے ضروری ہے کہ ان کے تعلیمی سٹینڈرڈز کو بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے معیار کے مطابق بنایا جائے۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں سے تحقیقی مقالہ جات بین الاقوامی سطح پر شائع ہونے چاہئیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ جوطلبا و طالبات مختلف موضوعات پر ریسرچ کر رہے ہیں ان کی ریسرچ رپورٹس ڈمی اخبارات میں شائع ہو رہی ہیں یا ایسے اخبارات کا سہارا لیا جاتا ہے جن کی اشاعت نہایت قلیل ہوتی ہے۔ وائس چانسلرز کا تقرر سیاسی مفادات کے بجائے یونیورسٹی کے معیارکو مد نظر رکھ کرکیا جانا چاہیے۔ 
دی ٹائمز ہائر ایجوکیشن ایشیا یونیورسٹی رینکنگ 2016ء کے مطابق کوئی پاکستانی یونیورسٹی ایشیا کی 100اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں شامل نہیں ہے جس سے ملک میں اعلیٰ تعلیم کے معیار کے حوالے سے مایوس کن صورت حال کی عکاسی ہوتی ہے۔ تاہم اس مرتبہ اس ادارے نے اپنی فہرست کو 200 بہترین یونیورسٹیوں تک توسیع دی ہے اور صرف اس وجہ سے پاکستان کی دو یونیورسٹیاں۔۔۔۔ قائد اعظم یونیورسٹی اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) اس فہرست میں شامل ہوگئی ہیں۔ قائد اعظم یونیورسٹی ایشیا کی 101 ویں جبکہ نسٹ121 ویں بہترین یونیورسٹی قرار پائی ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں بھارت سب سے طاقتور ملک ہے جس کی 8 یونیورسٹیاں ایشیا کی100اعلیٰ ترین اور16یونیورسٹیاں ایشیا کی200 اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں شامل ہیں جبکہ اس کے دو پڑوسی ممالک بنگلہ دیش اور پاکستان کے محض تین ادارے اس گوشوار میں شامل ہو پائے ہیں۔ سنگا پور ایشیا کی دو بہترین یونیورسٹیوں کے ساتھ سر فہرست ہے۔ چین اور جاپان بھی اس فہرست میں نمایاں ہیں۔ چین کی 55 یونیورسٹیاں، ایران کی چار، سعودی عرب کی تین، ترکی کی گیارہ، اسرائیل کی چھ، ملائیشیا کی چار، تائیوان کی چوبیس، ہانگ کانگ کی چھ یونیورسٹیاں اس فہرست میں شامل ہیں۔ یہ فہرست کارکردگی کے 10معیارات کو مد نظر رکھ کر بنائی گئی ہے۔
ان حالات کا ماہرین تعلیم کو جائزہ لینا چاہئے کیونکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن سیاست کی آلودگی کی زد میں آچکا ہے۔ اس کی کارکردگی کو قومی اسمبلی میں زیر بحث لانے کے لئے ہمارے ارکان اسمبلی کو اپنا قومی فریضہ ادا کرنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں