"KDC" (space) message & send to 7575

ملک نازک مرحلے میں داخل ہو گیا

پاناما لیکس کے حوالے سے ملک کے وزیر اعظم کے اہل خانہ کے تذکرے سے سیاسی نظام مفلوج اور نظریاتی قدریں بے توقیر ہوکر وہ گئی ہیں۔ موجودہ کشمکش اور سیاست و نظریات کے الجھاؤ سے قومی سلامتی کے لئے بہت بڑا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ ان حالات میں دبائو اور انتشار کے باعث حکومت ختم ہو جاتی ہے تو بہت ہی خطرناک صورت حال پیدا ہو جائے گی، جس کے ملک پر اثرات ناگزیر ہوں گے۔ پڑوسی ممالک کی مداخلت سے اس خطے میں انتہائی خوفناک جنگ شروع ہو سکتی ہے جو انڈونیشیا کی 1965-1966ء کی سول وار سے کہیں زیادہ خوفناک ہوگی اور اس کے نتیجے میں پاکستان کو یوگا سلاویہ جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کے لئے عالمی طاقتیں اپنا ایک کھیل بھی کھیل رہی ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف علالت کے باعث اب بظاہر ملک کی قیادت کرنے کے ہل نہیں رہے۔ اسی صورت حال کا سامنا 1969ء میں صدر ایوب خان کو کرنا پڑا تھا، جب ملک دونوں حصوں میں سیاسی بحران اور انتشار کی وجہ سے خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ چونکہ صدر ایوب خان بیماری کے باعث اعصابی طاقت سے محروم ہو گئے تھے، لہٰذا انہوں نے اقتدار سے دستبرداری اختیار کرلی۔ وزیر اعظم نواز شریف کو بھی اقتدار سے رضا کارانہ طور پر باعزت طریقے سے علیحدگی اختیار کر لینی چاہیے۔ اب مزید تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس صورت میں شاید قوم پاناما لیکس کی میگا کرپشن سے بھی درگزر کر لے گی۔ چونکہ حکمران جماعت کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل ہے اس لیے اسے اپنا نیا لیڈر آف دی ہائوس منتخب کرنے کے لئے غیر جانبدارانہ رویہ اختیارکرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں 10 دسمبر2001 ء کی روایت کو نہ دہرایا جائے جب نواز شریف سعودی عرب سدھار رہے تھے تو انہوں نے جاوید ہاشمی کو قائم مقام صدر مقرر کر کے پاکستان مسلم لیگ کی تقسیم کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اگر نواز شریف پاکستان مسلم لیگ کا فیصلہ جنرل کونسل کے حوالے کر دیتے تو یہ جماعت کبھی نون اور قاف میں تقسیم نہ ہوتی۔
بطور قوم ہم پاکستان کو صحیح معنوں میں جمہوریت بنانے میں ناکام ہو گئے ہیں جس کی ذمہ داری پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوںکی ذہنیت، خاندانی وراثت اور شخصیت پرستی نے بھی غیر جمہوری اقدار میں اپنا مجرمانہ کردار ادا کیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور سے پاکستان کی سیاست برادری اور فرقے کے کی بنیاد پر تقسیم ہو گئی ہے۔ شریف خاندان کا عروج بھی مارشل لاء کے گیارہ سال کا نتیجہ تھا۔ شریف خاندان کی وراثت مریم نواز اور حمزہ شہباز کو منتقل کرنے کی کوششوں سے اس خاندان کو اندرونی تنازع کا بھی سامنا ہے، لہٰذا مستقبل کے سیاسی منظر نامے کے بارے میں پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ اگر وزیر اعظم اپنی علالت کے باعث اپنا جانشین مقررکرتے ہیں تو ان کی پارٹی مضبوط بنیادوں پرکھڑی ہو جائے گی اور آئندہ انتخابات میں بھی ان کی کامیابی یقینی ہے کیونکہ دیگر سیاسی جماعتوں میں قیادت کا بحران ہے سوائے عمران خان کے۔ انتخابی جنگ میں مسلم لیگ ن کے مد مقابل عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف ہی ہوگی۔ 
مسلمہ سیاسی اور معاشی اصول یہی بتاتے ہیں کہ کاروباری لوگوں کے ہاتھ میں اگر حکومت آجائے تو یہ ملک کو کاروبار کی طرح چلاتے ہیں۔ اسی فلسفے پر عمل کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے نظریات اور ملکی مفاد کو پس پشت ڈال کر حالات اس نہج پر پہنچا دیے ہیں۔ نواز شریف خود بر ملا کہتے رہے ہیں کہ یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک لکیر ہے، ہم دونوں ایک ہی خدا کے ماننے والے ہیں، دونوں طرف کوئی فرق نہیں۔ اسی طرح شہباز شریف بھی بھارت کی سر زمین پر محبت کا سایہ دار درخت لگانے پر زور دیتے ہیں جس کے سائے سے دونوں ہمسائے مستفیض ہوتے رہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف کی بیماری اور لندن میں ڈیڑھ مہینے سے زیادہ قیام نے نواز لیگ کو کمزورکر دیا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال قومی بجٹ کے دنوں میں قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کے ارکان کا رویہ تھا۔ آئین میں سقم کی وجہ سے ملکی نظام میں اتنی گنجائش ہے کہ اگروزیر اعظم جیل بھی چلے جائیں تو بھی ملک کا کاروبار چلتا رہے گا۔ میاں نواز شریف کی عدم موجودگی میں اسی طرح کے مفروضوں کی بنیاد پر ملک کو چلایا جاتا رہا۔ وزیر اعظم 6 جولائی کو صحت یاب ہوکر ملک میں واپس آچکے ہیں مگر بظاہر ان کی صحت انہیں اپنے فرائض انجام دینے کی اجازت دے رہی۔ پارٹی کی متبادل قیادت کا فیصلہ پارٹی کے اندر ہی طے ہونا ہے۔ حکومت کے با اثر ارکان اسمبلی اندرون ملک سیاست کی آگ مزید بھڑکاتے رہے ہیں اور ان کا مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی طریقے سے پاناما لیکس کے معاملہ میں گرفت نہ ہو۔ جمہوریت نے سیاسی اشرفیہ اور بیورو کریسی کوطاقت ضرور دی ہے مگر کرپشن، بد عملی اور بد انتظامی نے ملکی ترقی میں رکاوٹ پیدا کر دی ہے۔ قرضوں کے بوجھ نے پاکستان کی معیشت کو کمزور کر رکھا ہے، عوام مسلسل مایوسی کا شکار ہیں اور پاکستان اگر ورلڈ بینک کے مسلمہ قوانین کی زد میں آ کر دیوالیہ قرار دے دیا گیا تو پاکستان کو ایٹمی اثاثوں سے دستبردار ہونا پڑے گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے رو برو وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ریفرنس دائر کئے ہیں اور یہ دونوں جماعتیں احتجاج کے ذریعے انہیں اقتدار سے باہر کرنے کے لئے پر عزم ہیں۔ اگر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اپنے کہے کے مطابق وزیر اعظم کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63(2) کے تحت ریفرنس دائر کر دیتے تو ان کا ریفرنس سیاسی پارٹیوں کے ریفرنسز کے مقابلے میں زیادہ متاثر کن اور آئینی اعتبار سے بہت وزنی ہوتا، لیکن شاید وہ خاندانی دبائو کا شکار ہوگئے ہیں۔ ملکی امور میں وزیر اعظم نواز شریف کی لاتعلقی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کا دل قوم کے ساتھ نہیں ہے، ان کی اپنی علیحدہ دنیا ہے جس میں ان کی ذات اور ان کا خاندان ان کی اولین ترجیح ہے اور ملک کا نظام حکومت ایک سرکاری افسر کے ہاتھ میں ہے۔ یوں احساس ہوتا ہے کہ ریاست کا سرے سے وجود ہی نہیں۔
پاکستان میں اگست کا آخری ہفتہ بڑی اہمیت کے حامل ہو گا۔ حکومت عملاً مفلوج ہو چکی ہے، ملک کو معاشی، اقتصادی اور خارجہ امور پر چیلنجز درپیش ہیں جن پر قابو پانا حکومت کے لئے ممکن نظر نہیں آر ہا۔ فوج ملک بھر میں آپریشن میں مصروف ہے، اگر اسے نامکمل چھوڑا گیا تو قوم فوج سے مایوس ہو جائے گی۔ فوج اور رینجرز سندھ میں دہشت گردی کے خلاف بھرپور کارروائیاں کر رہی ہے، پنجاب میں بھی چھوٹو گینگ سے اہم معلومات حاصل کر چکی ہے۔ الیکشن کمیشن وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ریفرنسزکے آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت سماعت کرنے کامجاز ہے۔ اس لحاظ سے نئے الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری کا امتحان شروع ہو چکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں