"KDC" (space) message & send to 7575

فوج کو دعوت دینے کا تاریخی پس منظر

مملکت کے ناکام پارلیمانی نظام، بد عنوانیوں، میگا کرپشن اور کھربوں روپے کی ملک سے آف شور کمپنیوں کے ذریعے منتقلی، پارلیمنٹ کی پراسرار خاموشی، سٹیٹ بنک آف پاکستان کی ناقص کارکردگی، آئینی اداروں کی عدم دلچسپی اور الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر تبصرے حکومت کی بساط لپیٹنے کے حق میں اشارہ ہیں۔ آرمی چیف کی تصویر والے بینرز سب سے پہلے جنوری میں دیواروں ، رکشوں، ٹرکوں پر لگائے گئے تھے۔ اب اسی طرح کے بینرز پاکستان کے اہم شہروں کی شاہراہوں پر نظر آ رہے ہیں‘ جو پہلے سے موجود سیاسی، مالیاتی اور آئینی محاذ آرائی اور معاشی عدم استحکام کی موجب موجودہ حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ یہ بینرز کسی گمنام گروہ نے نہیں، بلکہ موو آف پاکستان نامی ایک نوزائیدہ سیاسی پارٹی نے لگوائے ہیں جو پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 4 اور 5 کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان میں لسٹ شدہ ہے اوراس نے پارٹی کا نام اور فون نمبرز بھی اپنے پوسٹر میں لکھے ہوئے ہیں۔ نوجوانوں کا یہ جنونی گروپ جنرل راحیل شریف کو جو اس سال 29 نومبر کو ریٹائر ہو نے والے ہیں اور چھ ماہ قبل اپنی مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کا واضح اعلان بھی کر چکے ہیں۔ دعوت دے رہے ہیں کہ ''جانے کی باتیں جانے دو، خدا کے لئے اب آبھی جاؤ‘‘۔ ایسے ہی بینرز مرحوم میجر رشید وڑائچ بھی 1993ء میں اور جنرل آصف نواز جنجوعہ کے دور میںلگواتے رہے۔''مٹ جائے گی مخلوق تو فریاد کرو گے‘‘ دراصل رشید وڑائچ نے کوآپریٹو فراڈ میں لاکھوں گھرانوں کے لٹ جانے کی فریاد آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ سے کی تھی۔ اسی طرح کے پوسٹرز کراچی سے طور خم تک وزیر اعظم بھٹو کی حکومت سے بے زار عوام نے فیلڈ مارشل ایوب خان کی تصویر کے ساتھ اس نعرے کے ساتھ لگائے گئے تھے کہ تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد‘‘۔ اسی طرح فیلڈ مارشل ایوب خان کی 
حکومت کے آخری دنوں میں15 مارچ 1969 ء کو ملک غلام نبی نے جنرل یحییٰ خان کو مداخلت کرنے کے لئے پوسٹر شائع کئے تھے ۔ بعد ازاں ملک غلام نبی بھٹو حکومت میں وزیر تعلیم بھی رہے اور ان کے صاحبزادہ شاہد ملک نگران وزیر اعظم ملک معراج خالد کے مشیر رہے۔ لہٰذ ا ایسے بینرز کے معاملے پر غیر ضروری بیان بازی سے گریز قومی مفاد میں بہتر ہوگا۔بادی النظر میں بینرز لگانے والوں اور ان کے پس پردہ گروپ کے خلاف آئینی و قانونی کارروائی ممکن نہیں ہے کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں اور شہریوں کو آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ میڈیا پرسنز ، آئینی ماہرین ، دانشوراور سیاسی جماعتوں کے رہنما ان کے خلاف جس انداز میں تندوتیز حملے کر رہے ہیں، ان کا محرک محض افواج پاکستان کو تنقید کی زد میں لانا اور تضحیک کرنا ہے ۔ موجودہ حکمران طبقہ 1997ء سے اس روش پر چل ر ہا ہے۔ کارگل کی جنگ کے دوران روگ آرمی کے نام سے اشتہارات نیو یارک اور لندن کے اخبارات میں شائع ہوئے تھے اور 12 اکتوبر 1999ء کو جب حکمرانوں کی بساط لپیٹ دی گئی تھی تو تحقیقات کا آغاز کرایا گیا تھا‘ لیکن عسکری قیادت نے نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے ان کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی تھی۔ مرحوم میاں محمد شریف نے 15 اکتوبر 1999ء کو برملا اعتراف کیا تھا کہ ان کے بیٹوں کو اس مقام پر پہنچانے میں انہی کے ساتھیوں کا ہاتھ ہے۔
اس وقت حکومت کے لئے حالات ساز گار نہیں ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان برملا ریمارکس دے رہے ہیں، اربوں کی بدعنوانی کرنے والے آزاد گھوم رہے ہیں، نیب بطور ادراہ لا علاج ہو چکا ہے اور ملزموں سے دوستانہ رویہ اور پسند اور نا پسند کا وتیرہ اختیار کر چکا ہے۔اصغر خان کیس‘ نظر ثانی پٹیشن کی وجہ سے معرض التواء میں ہے۔ یہ کیس 1990ء میں سامنے آیا اور2000 ء میں باقاعدہ مقدمہ درج ہوا تھا۔ حیرت ہے کہ کیس کی تحقیقات کو کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جا سکا، اس کی وجہ سے عوام میں یہ غلط پیغام جا رہا ہے‘ چونکہ وزیر اعظم نواز شریف کے اس کیس میں نامز د ہونے کا امکان ہے۔اس لیے اس اہم کیس کو مؤخر کیا جا رہا ہے۔ اب ایف آئی اے اس کیس کو ایک ماہ میں مکمل کر کے اس کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا رہی ہے۔ ائیر مارشل اصغر خان شدیدعلیل ہیں‘ کاش اس کا فیصلہ ان کی زندگی میں آ جائے۔
جنرل راحیل شریف نے وضاحت سے کہہ دیا تھا کہ انہیں مدت ملازمت میں توسیع میں دلچسپی نہیں؛ چنانچہ وہ 29 نومبر کو ریٹائر ڈ ہو جائیں گے، لیکن حکومت کے غیر سرکاری مشیر اپنے طاقتور چینل کا سہارا لیتے ہوئے جنرل راحیل سے اپنے بیان کا اعادہ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ حکمران جماعت کوان کی بات پر یقین نہیں آ رہا ۔ حکومت کے حامی میڈیا پرسنز نے بھی کہنا شروع کر دیا ہے کہ پاکستان میں سازش کی افواہوں کے خاتمے کے لئے جنرل راحیل قوم سے خطاب کر کے اپنے موقف کا اعادہ کر یں کہ وہ توسیع نہیں چاہتے۔ حکمران جماعت کے میڈیا سیل نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر وزیر اعظم نواز شریف کو عوام کی نظروں میں متنازعہ ترین شخصیت بنادیاہے ۔ ان کے میڈیا سیل نے حکمران خاندان کے دلوں میں خوف کی روح پھونک دی ہے کہ ان کا اقتدار خطرے میں ہے؛ حالانکہ موجودہ سیاسی منظر نامہ میں وزیر اعظم کا کوئی بھی حقیقی حریف نہیں ۔سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنی تقریر میں چیف آف آرمی سٹاف کو تندوتیز انداز سے مخاطب کیا تھالیکن آرمی چیف نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا تھا حالانکہ اس تضحیک کے نتیجہ میںوہ آرٹیکل 63(2) ۔ جی کے تحت گرفت میں آ سکتے تھے۔
وزیر اعظم کی میڈیا ٹیم انہیں پاناما لیکس ، ٹرمز آف ریفرنس اور جوڈیشل کمیشن کے بارے میں یہ باور کرا رہی ہے کہ ان کے خلاف کوئی خوفناک سازش کی جارہی ہے۔دوسری جانب شکوک و شبہات کے گہرے بادلوں میں گھرے وزیر اعظم کی صحت دن بدن کمزور ہوتی جارہی ہے‘ حکومت مفلوج ہو چکی ہے اور اداروں میں کرپشن سرایت کر چکی ہے ۔ ان حالات میں ایک طاقتور میڈیا ہاؤس کو جس کے ملازمین کی تنخواہ دو ماہ سے معرض التواء میں تھی‘ حکومت نے حال ہی میں ستر کروڑ روپے کی ادائیگی کر کے اس کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے۔ اس کے باجود ٹیلی وژن چینلز پر وزیر اعظم کا میڈیا سیل کا لہجہ خوف کی غمازی کرتا ہے اورخود وزیر اعظم بھی اپنے میڈیا سیل کے ہاتھوں خوفناک ڈپریشن کا شکار ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
1973 ء کے آئین سے قبل فوج کے کمانڈر انچیف کی مدت ملازمت چار سال ہوا کرتی تھی۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان، جنرل موسیٰ خان اور جنرل یحییٰ خان چار سال کے لئے کمانڈر انچیف مقرر ہوتے رہے۔ اب چونکہ ضرب عضب آپریشن اور نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک حالت جنگ میں ہے اس لیے ان حالات میں چیف آف آرمی سٹاف کی کمان تبدیل کرنا ملکی مفاد میں نہیں ہو گا۔ لہٰذا آرمی ایکٹ 51 پر نظر ثانی کرتے ہوئے آرمی چیف ، چیف آف ائیر سٹاف اور نیول چیف کی مدت ملازمت چار سال کر دینی چاہیے۔اسی طرح کور کمانڈرز کی مدت ملازمت بھی ایک سال بڑھا کر ان کی دلجوئی بھی کی جا سکتی ہے۔ دراصل سقوط مشرق پاکستان کے بعد وزیر اعظم بھٹو نے آرمی کی کمان کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا تھا اور کمانڈر انچیف کا عہدہ تحلیل کر کے چیف آف دی آرمی سٹاف ، چیف آف ائیر سٹاف اور نیول چیف میں تبدیل کر دیاتھا اور ان کی کمان میں خلیج پیدا کرنے کے لئے چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ تخلیق کیا جو امریکی طرز پر تینوں فورسز کو کنٹرول کر نے کے لیے تھا۔ پاکستان میں عملی طور پر چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ تو نمائشی ہی رہا لیکن آرمی چیف کی کمان سے ائیر فورسز اور نیول فورسز کی کمان خود مختار ہوگئی۔
وزیر اعظم نواز شریف کے عقابی وزراء 12 اکتوبر 1999ء کے سانحہ کے خوف سے باہر نہیں نکلے اور آرمی کو تنقید کا نشانہ بنوانے کے لئے انہوں نے عاصمہ جہانگیر کے ذریعے آئی ایس پی آر کے زیر انتظام ملک بھر میں موجود ایف ایم ریڈیو سٹیشنوں کی تعداد اور ان کی فنڈنگ کے بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست دائر کروا دی ہے۔ عاصمہ جہانگیر وزیر اعظم نواز شریف کے بہت قریب ہیں۔ وزیر اعظم کو تاریخی شواہدکی روشنی میں ایسے رہنماؤں کے بارے میں ادراک ہو جانا چاہئے جو بھارت کے عزائم کی تکمیل کے لئے کوشاں رہے ہیں۔وہ ملک غلام جیلانی مرحوم کاوہ خط جو انہوں نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کو لکھا تھا‘ فائلوں سے تلاش کر سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے برادر محترم مجیب الرحمن شامی کے ہفت روزہ زندگی کے شمارہ مارچ 1972 ء سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں