"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن نااہل قرار دے سکتا ہے

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کے لئے دائر ریفرنسز ابتدائی سماعت کے لئے منظور کر لیے ہیں، باقاعدہ سماعت 3 اگست سے شروع ہوگی۔ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، عوامی تحریک اور عوامی مسلم لیگ نے الیکشن کمیشن میں ریفرنسز دائر کیے ہیں جن میں میاں محمد نواز شریف، شہباز شریف، اسحاق ڈار اور کیپٹن (ر) صفدر کی اس بنا پر نا اہلی کی استدعا کی گئی ہے کہ انہوں نے عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 42-A اور سینیٹ ایکٹ 74 کی دفعہ 25-A کے مطابق اپنے اثاثہ جات کے جو گوشوارے الیکشن کمیشن کے ہاں جمع کرائے ہیں وہ جھوٹ، فریب اور بد عنوانی کے زمرے میں آتے ہیں کیونکہ انہوں نے ان گوشواروں میں حقائق کو چھپایا ہے اور فارم 21 کے تحت جو معلومات فراہم کی گئی ہیں وہ حقائق کے بر عکس ہیں۔ انہی قوانین کے تحت میاں محمد نواز شریف کے خلاف جو ریفرنسز دائر کئے گئے ہیں، ان میں ان کے خلاف کارروائی بحیثیت ممبر قومی اسمبلی کے ہونی چاہئے، کیونکہ حقائق کو چھپانے اور اپنے کاغذات نامزدگی کے فارم میں اپنے غیرملکی اکاؤنٹس کو پوشیدہ رکھنے، اپنے زیر کفالت بچوں کے بارے میں حقائق کے بر عکس اثاثہ جات ظاہر کرنے کے خلاف آئینی و قانونی کارروائی عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 12کے تحت بھی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح قرضے، ایڈوانس اور قرضے معاف کرنے کے حوالے سے دفعہ 12 کے تحت نااہلیت کے زمرے میں آنے کے قوی امکانات موجود ہیں۔
عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 42-A ارکان اسمبلی کے لئے خطرے کی گھنٹی اور لٹکتی ہوئی تلوار کی مانند ہے، جس کے تحت ارکان پارلیمنٹ کو ہر سال اپنے اثاثہ جات کے گوشوارے الیکشن کمیشن کے ہاں جمع کرانے ہوتے ہیں۔ اس دفعہ کی ذیلی شق 4 کے تحت اگر یہ اثاثہ جات جھوٹ پر مبنی قرار پائیں تو پھر ان کے خلاف بد عنوانی کی بنا پر عوامی نمائندگی ایکٹ 82 کے تحت مجرمانہ فوجداری کے تحت مقدمہ دائر کیا جا سکتا ہے، جس کے تحت ان کو تین سال کی سزا ہو سکتی ہے۔ اسی طرح دفعہ 94 بڑی اہم شق ہے جو Criminal Offence of Corrupt Practice کہلاتی ہے اور اس کے تحت الیکشن کمیشن متعلقہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کے احکامات جاری کر سکتا ہے اور Code of criminal procedure 1898 کے تحت کارروائی ہونے کے امکانات پائے جاتے ہیں۔
وزیر اعظم پوری قوم کا امین ہوتا ہے، ان حالات میں ان کے خلاف ریفرنسز بطور ممبر قومی اسمبلی کے دائر کئے گئے ہیں۔ اگر ان تمام ریفرنسز کا بغور جائزہ لیا جائے تو ان کے خلاف 1985ء سے 2015ء تک کے تمام اثاثہ جات کی جانچ پڑتال کرنے کے اختیارات الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 218 کے تحت کرنے کا پابندہے،کیونکہ آئین کا یہ آرٹیکل طاقت کا سر چشمہ ہے اور صاف، شفاف انتخابات کرانے اور بد عنوانیوں سے پاک انتخابات کرانا اس کی آئینی ذمہ داری ہے۔ اس آرٹیکل کی روح کے مطابق انتخابات میں ہر طرح کی بدعنوانیوں کے خاتمے کے لئے الیکشن کمیشن کے اختیارات موجود ہیں۔ عوام، وکلا ،سول سوسائٹی، پارلیمنٹ کے ارکان اور میڈیا کی رہنمائی کے لئے آئین کے آرٹیکل 218 کا متن یوں ہے:
It shall be the duty of the Election Commission constituted in relation to an election to organize and conduct the election and to make such arrangements as are necessary to ensure that the election is conducted honestly, justly, fairly and in accordance with law, and that corrupt practices are guarded against.
انڈین الیکشن کمیشن اسی آرٹیکل کے تحت بھارت میں شفاف انتخابات کی ضمانت دیتا ہے اور تمام سیاسی جماعتیں اسی آرٹیکل کے تحت الیکشن کمیشن کے احکامات پر من و عن پر عمل کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں اس آرٹیکل کی روح کے مطابق کبھی انتخابات کا انعقاد نہیں ہو سکا اور دیگر خود ساختہ قوانین کے ذریعے الیکشن کمیشن کو ہر حکومت اپنے تابع رکھتی رہی ہے۔ اور رہی سہی کسر ہماری عدالتوں نے پوری کردی، الیکشن کمیشن کو مفلوج ادارہ بنایا ہوا ہے کہ یہ اپنے آئینی اختیارات کو اس کی روح کے مطابق بروئے کار لانے کے اہل نہیں رہا اور اس کے فیصلوں میں عوامی مفادات کا عکس نظر نہیں آتا۔
انڈین الیکشن کمیشن کے ارکان اور چیف الیکشن کمشنر حکومت سے رابطے میں نہیں رہتے، اس نے ریاست کے مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے، اس کے سیکرٹری الیکشن کمیشن، انڈین سروسز کے انڈر سیکرٹری کے مساوی ہوتے ہیں اور وہ انڈین الیکشن کمیشن کے سربراہ حکومت اور الیکشن کمیشن کے درمیان برج (پُل)کی حیثیت نہیں رکھتے، جس طرح پاکستان میں حکمران اپنے پیغامات، ہدایات، خواہشات سیکرٹری کے توسط سے پہنچاتے رہے ہیں، کیونکہ ان کا مقام وفاقی سیکرٹری کے مساوی ہوتا ہے! 30 مئی 2010ء کو جب میں نے انڈین الیکشن کمیشن کے حکام سے ملاقات کی تو اس دوران چیف الیکشن کمشنر اور ارکان کمیشن نے مجھے بتایا کہ ہمارے ہاں سیکرٹری کو الیکشن کمیشن کے اجلاس میں شرکت کی اجازت نہیں ہوتی تاکہ حکومت ان کے ذریعے الیکشن کمیشن کے فیصلوں پر اثر انداز نہ ہو سکے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مطلوب حد تک اختیارات حاصل ہیں، حکومت اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے میں اپنی مہارت دکھاتی ہے کیونکہ ان کو الیکشن کمیشن تک رسائی حاصل ہے اور ہر سنگین بے قاعدگی، بے ضابطگی کو آئین کی ابہام زدہ آرٹیکلزکا سہارا لے کر ان کو مسترد کر دیا جاتاہے۔ اس کو مزید تقویت سپریم کورٹ کے انکوائری کمیشن نے پہنچائی جب قومی انتخابات 2013 ء کے بارے میں اپنے فیصلے کو انہوں نے نظریہ ضرورت کا سہارا لے کر اور پاک چین اقتصادی راہداری کی آڑ میں تمام الزامات کو مسترد کر دیا اور ریٹرننگ آفیسرز کو آئندہ انتخابات میں اس سے بھی زیادہ دھاندلی کرنے کے لئے کھلی چھٹی دے دی۔
پیپلز پارٹی میثاق جمہوریت کی آڑ میں اس طرح کی احتجاجی تحریک سے گریز کرتی ہے اور جماعت اسلامی میں پر جوش رہنمائوں کا فقدان ہے، لہٰذا ملک میں عام انتخابات اب 2018ء میں ہی ہوں گے اور آنے والے 22 مہینوں کو سیاسی جماعتوں خصوصاً وفاق اور صوبوں میں بر سر اقتدار جماعتوں کے لئے آزمائش اور امتحان کا دورانیہ کہا جا سکتا ہے، جس میں مثبت یا منفی کارکردگی 2018ء کے انتخابات پر اثر انداز ہو سکتی ہے! اب وفاق اور صوبائی حکومتوں کے موجودہ آئینی معیار اپنی تکمیل کی طرف بڑھ رہے ہیں تو فطری طور پر برسراقتدار قیادتوں پر اس احساس کا دباؤ بڑھ رہا ہے کہ آئندہ انتخابات میں ان کی کارکردگی کو پاناما لیکس کے حوالے سے جانچا جائے گا۔ عوام ان کاموں کی بنیاد پر ہی بعد کے الیکشن میں اپنے ووٹوں کے استعمال کا تب ہی بہتر فیصلہ کر سکیں گے جب انتخابات میں شفافیت کے وہ تمام تقاضے ملحوظ رکھے جائیں، جن کی بنا پر ان کے نتائج تمام حلقوں میں خوش دلی سے تسلیم کئے جا سکیں۔
الیکشن کمیشن چونکہ وزیر اعظم نواز شریف کے اثاثہ جات کے بارے میں اہم پیش رفت کی طرف قدم اٹھا رہا ہے، تو اس حوالے سے کرپشن تحقیقات پر ملائشیا کے وزیر اعظم نجیب رزاق کی پریشانیوں میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ امریکی استغاثہ حکام نے ملائشیا کے خود مختار ویلتھ فنڈ کے خلاف انسدادِ منی لانڈرنگ کی تحقیقات کرتے ہوئے وان گوف کی پنگز، بیورلے ہلز کی جائیدادیں اور فلم دا وولف آف وال سٹریٹ کے منافع کے حقوق سمیت ایک ارب ڈالر کے اثاثوں کو ضبط کر لیا ہے۔ امریکی تاریخ میں اثاثے تحویل میں لینے کی یہ بہت بڑی کارروائی ہے۔ وفاقی ایجنٹوں نے اشارہ دیا ہے کہ ملائشیا کے وزیر اعظم نجیب رزاق کا تعلق چوری شدہ فنڈز وصول کرنے والے بد عنوان افسروں کے نیٹ ورک سے ہے۔ ملائشیا کے سرکاری فنڈز ون ایم ڈی
بی میں ساڑھے تین ارب ڈالر کے غبن کی ایک عالمی سکیم کے بارے میں کئی ملکوں میں تحقیقات چل رہی ہے، اس میں امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے تیار کیا جانے والا کیس سب سے مفصل اور جامع الزامات پر مشتمل ہے۔ اسی کرپشن کے حوالے سے انکشاف ہوا ہے کہ جن فنڈز کا مقصد ملائشیا کے عوام کو فائدہ پہنچانا تھا، انہیں جائدایں، فن پارے، زیورات خریدنے، جوئے خانوں کے بلوں کی ادائیگی اور سازش کرنے والوں کے شاہانہ طرز زندگی کے لئے موسیقاروں، فن کاروں کو خدمات کا معاوضہ دینے کے لئے استعمال کیا گیا۔ یہ بات مقدمے میں بتائی گئی۔ استغاثہ نے الزام لگایا کہ صرف 20 کروڑ ڈالر سے زیادہ رقم فن پاروں پر پھونک دی گئی۔ مقدمے میں ملائشیا کے حکام اور کاروباری شخصیات پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے سنگا پور، سوئٹزر لینڈ، لگسمبرگ اور نیو یارک کے بینکوں کے ذریعے ون ایم ڈی پی کے منی لانڈرنگ شدہ فنڈز وصول کئے۔ امریکی اٹارنی جنرل لوریٹا پنچ نے کہا کہ ملائشیا کے حکام نے اسی سرکاری ٹرسٹ کو ذاتی بینک اکاؤنٹ سمجھ کر استعمال کیا۔ ملائشیا کے وزیر اعظم کی میگا کرپشن جس طرح امریکی اٹارنی جنرل نے عدالت میں ثابت کر کے ایک ارب ڈالر کے اثاثوںکو ضبط کر لیا ہے۔ اسی طرح آئینی طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کی کرپشن کی تحقیقات کے لئے قومی احتساب بیورو کو خصوصی ہدایات دینے کا مجاز ہے اور ان کی معاونت کے لئے ایف آئی اے، ایف بی آر اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کی خدمات مستعار لی جاسکتی ہیں کیونکہ ملائیشین وزیر اعظم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کے لندن میں مے فیئر فلیٹس کی مالیت اربوں بلکہ کھربوں روپے میں ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان مملکت کی وحدت کی علامت ہے اور آئینی طور پر پاکستان کے انتخابات کی شفافیت کی ضمانت دیتا ہے۔ اب چونکہ حکومت کے سربراہ اور ان کے اہل خانہ کے بارے میں حقائق چھپانے کے الزامات پر مبنی جو ریفرنسز زیر سماعت ہیں، ان پر الیکشن کمیشن نے زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے صادر کرنے ہیں اور اسی بنیاد پر آئندہ کے انتخابات کی شفاف کرن ظہور پذیر ہو سکے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں