"KDC" (space) message & send to 7575

وزیر اعظم گہری دھند کی لپیٹ میں

آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات میں عام طور پر وہی پارٹی کامیاب ہوتی ہے جس کا پاکستان کی حکمران پارٹی سے براہ راست یا بالواسطہ کسی قسم کا تعلق ہو۔ گزشتہ انتخابات کے وقت پاکستان میں صدر زرداری برسر اقتدار تھے تو آزادکشمیر میں پیپلز پارٹی کو جو اکثریت ملی وہ متنازع رہی اور جون 2011 ء میں جو انتخابات ہوئے وہ بد ترین دھاندلی کے زمرے میں آتے ہیں ۔ اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر آزاد کشمیر نے انتخابی فہرستوں میں ہیر پھیر کروائی تھی لیکن اس کے باوجود وہ پانچ سال تک اقتدار میں رہے اور ایسے بد ترین الیکشن کے خلاف کسی پارٹی نے بھی منظم دھاندلی کے باوجود تحریک چلانے سے گریز کیا، اس بار عوام نے یہ مینڈیٹ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو دیا ہے تو یہ عام توقعات کے عین مطابق ہے۔ آزاد کشمیر کے انتخابات اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ کہیں کہیں معمولی تُو تکرار کے سوا کوئی بڑا واقعہ رو نما نہیں ہوا اور مجموعی طور پر پولنگ پر امن رہی، تمام سیاسی پارٹیوں کو انتخابی مہم چلانے کے یکساں مواقع ملے اور عوام نے آزادانہ ماحول میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، پاکستان مسلم لیگ کو 41 نشستوں میں سے 32 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی اور آزاد جموں و کشمیر کی حکمران جماعت اپنی کرپشن کی دلدل میں ڈوب گئی۔ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا کیونکہ کشمیری برادری پورے پاکستان میں پھیلی ہوئی ہے اور اس کا اثرورسوخ پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنی کوتاہیوں اور خفت مٹانے کے لئے نتائج مسترد کر دیئے جب کہ عمران خان نے سوشل میڈیا پر وزیر اعظم نواز شریف کو مبارک باد دیکر جمہوری روایات کو زندہ کر دیا ہے۔ ہمارا نکتہ نظر یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں حکومت پیپلز پارٹی کی تھی، اقتدار اسی کے پاس تھا‘ انتخابات کے اختیارات الیکشن کمیشن کے پاس تھے اور پولنگ بھی آزاد کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار فوج کی نگرانی میں ہوئی، لہٰذا سابق صدر آصف علی زرداری کو چاہیے کہ آزاد جموں و کشمیر کی پیپلز پارٹی کو معطل کر کے از سر نو اپنی پارٹی کو منظم کریں اور کرپٹ عناصر کا راستہ روکیں اور اسی نہج پر عمران خان بھی آزادجموں و کشمیر کی تحریک انصاف کو فعال کریں۔ آزاد جموں و کشمیر کے پر امن انتخابات جمہوری قوتوں کی فتح ہے گویا ہر اس شخص کی فتح ہے جس نے جمہوری عمل میں حصہ لیا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے بین الاقوامی امور پر گہری نظر رکھنے اور چین، برسلز اور اقوام متحدہ میں سابق سفیر مسعود احمد خان کو صدر آزاد جموں و کشمیر بنانے کا فیصلہ کر کے دانش مندی کا عملی قدم اٹھایا ہے۔ اس طرح کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے میں مسعود احمد خان کا اہم کردار ہوگا۔
آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کو کچھ اطمینان ضرور نصیب ہو گیا ہے، تاہم ان کے خلاف احتجاجی تحریک صف آرا ہو رہی ہے، وہ اپنی داخلی کمزوری کے ساتھ اس تحریک کا مقابلہ خواجہ سعد رفیق اور رانا ثناء اللہ کے ذریعے کرائیں گے کیونکہ اس کا آغاز پنجاب کے دل، لاہور سے ہو رہا ہے۔ آئین اپنی جگہ موجود ہے، پارلیمنٹ فعال ہیں، عدالتیں کام کر رہی ہیں، لیکن غیر یقینی پن کی گہری دھند سے وزیر اعظم نواز شریف نکلنے نہیں پائیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وقت کے بے رحم سائے نواز شریف کے تعاقب میں ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے ان کو مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف میدان میں اتارا تھا اور ان کے ارد گرد بھٹو مخالفین کا ایک گروہ کھڑا کرکے اور پرنٹ میڈیا کی طاقتور ٹیم حسین حقانی کی سربراہی میں ان کے سپرد کر دی تھی، لیکن 1982 ء سے 1999 ء تک حالات پرکھنے ، دیکھنے اور آزمانے کے بعد انہیں طاقتور اداروں میں مقبولیت حاصل نہیں۔ اب پاناما لیکس مسائل کو نئی سمت کی طرف لے جا رہی ہے۔ان حالات میں پارلیمنٹ کے ارکان کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور آئین کے مطابق وزیر اعظم سے مشترکہ درخواست کریں کہ اپنی علالت کے باعث پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قابل اعتماد ساتھی کے حق میں دستبردار ہو جائیں اور پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بن کر پارٹی کی رہنمائی 
کریں۔ آزاد جموں و کشمیر کی پرانی تاریخ ہے کہ وہاں کی ہر حکومت 
پاکستان کی حکمران جماعت کے تعاون سے ہی انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی ہے۔نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں، ترکی کے صدر طیب اردوان نے اپنے دور حکومت میں نہ صرف آئی ایم ایف کے تمام قرضے ختم کئے بلکہ ان کے ایک کھرب ڈالر کے ذخائر بھی بنکوں میں جمع ہیں، صدر ترکی نے اپنے دور میں ہسپتالوں اور یونیورسٹیوں کا جال بچھا دیا ، غریب عوام کے لئے گرین کارڈ اور ہیلتھ سکیم نافذ کی، ہر شہری مفت علاج کا حقدار ہو گیا جبکہ میاں نواز شریف نے عوام کے جذبات کی قدر کی بجائے کمال مہارت سے اتنے قرضے لئے کہ آنے والی نسل ادا کرنا تو کجا سود ہی ادا نہیں کر پائے گی۔ حکمران لندن میں اپنا علاج کراتے ہیں اور جہازوں کو اپنے ذاتی خاندان کے ارکان کے لئے بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف خوش قسمت ہیں کہ خورشید شاہ اور عمران خان جیسے اپوزیشن رہنما سے ان کا واسطہ ہے، عمران خان اپنی دیانت کے باوجود لیڈرشپ کی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنی پارٹی کو منظم نہ کر سکے اور اس کی ایک جھلک الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ارکان کی تقرری کے موقع پر سامنے آئی جب خورشید شاہ ان سے ہاتھ کر گئے اور اب بھی اعتزاز احسن عوام کو لولی پاپ دینے کے لئے لفظوں سے کھیل رہے ہیں۔ 
آزاد کشمیر انتخابات مختلف نوعیت کے ہوتے رہے ہیں چونکہ 1973 ء تک آزاد کشمیر میں کسی بھی پاکستان کی سیاسی جماعت نے اپنی ذیلی تنظیمیں نہیں بنائی تھیں، سب سے پہلے وزیر اعظم بھٹو نے اس کی بنیاد رکھی اور سردار عبدالقیوم خان کو فیڈرل سکیورٹی فورسز کی معانت سے گرفتار کر کے راولپنڈی پہنچا دیا اور ان کی سیاسی 
جماعت کے ارکان کو الیکشن کی مہم سے روک دیا گیااور جب راولپنڈی لیاقت باغ میں انہوں نے احتجاجی جلسہ کا انعقاد کرایا تو راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر اے زیڈ کے شیردل نے ان کو ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔ بعد ازاں مارچ 1977 ء میں انتخابی نتائج میں رد و بدل کے الزامات کے باوجود بلوچستان حکومت میں ان کی پوسٹنگ گورنر بلوچستان رحیم الدین خان کی وساطت سے کروائی گئی تھی۔ ان کے شریف برادران سے گہرے تعلقات رہے اور فروری 1997 ء کے انتخابات کے نتیجہ میں جب میاں نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو انہوں نے ان کو اپنا پرسنل سیکرٹری اور ڈپٹی کمشنر کوئٹہ فواد حسن فواد کو سٹاف آفیسر مقرر کر دیا۔ فواد حسن فواد انتظامی امور کے انتہائی زیرک آفیسر ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو احسن طریقے سے بروئے کار لا رہے ہیں۔
پاکستان میں میگا کرپشن کا آغاز 1985 ء سے شروع ہوا اور طبقاتی تفریق اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔اسلام آباد کی بنیاد 1960 ء میں طبقاتی بنیادوں پر رکھی گئی جب اسلام آباد کو سیکٹر ز میں تقسیم کر کے امیرمتوسط طبقے کی نشان دہی کرا دی گئی تھی، اسلام آباد دنیا کا واحد دارالحکومت ہے جہاں سیکٹر کی پہچان سے طبقاتی تفریق کا احساس پیدا ہو جاتا ہے، حکومت کی بد نیتی کی وجہ سے نئی دولت کا زیادہ تر حصہ پانچ سے دس فیصد کے نصب میں آتا ہے اور نوے فیصد عوام کو اس کے پیدا ہونے والے وسائل سے زیادہ کچھ نہیں ملتا۔ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں پر انتہائی نئے امیر طبقے کاقبضہ ہے، یہ امیر طبقات عوام میں انقلابی سوچ کا رخ بدلنے کے لئے ایک دوسرے پر بد عنوانیوں کے الزامات لگاتے رہتے ہیں۔ اسی طرح سندھ حکومت اپنی ذاتی انا اور سابق صدر آصف علی زرداری حکمت عملی کے تحت کرپشن میں ملوث اپنے وفادار ساتھیوں کو محفوظ راستہ دکھانے کے لئے اندرون سندھ کسی صورت بھی رینجرز کو کاروائی کا اختیار نہیں دینا چاہتے اور بد قسمتی سے صوبائی حکومت کے متبادل دارالحکومت دبئی سے رینجرز کو اندرون سندھ کارروائیوں کے اختیارات دینے سے گریزاں ہیں۔ وفاقی حکومت آرٹیکل 147 کے تحت کارروائی کرنے کی مجاز ہے جب کہ سندھ حکومت آرٹیکل 149 کا سہارا لے کر معاملہ کو طول دینے کی وکٹ پر کھڑی ہے اور رینجرز کو محدود اختیارات تقویض کئے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف آصف علی زرداری کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے موقف کی کھل کر تائید نہیں کر رہے، ان حالات میں ملکی مفاد کی خاطر رینجرز کو کراچی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں